انتخاب ولی از ناصر کاظمی
اُردو زبان کے محسن، ولی محمدا لمتخلص بہ ولی 1668ء میں بمقام اورنگ آباد، دکن پیدا ہوئے اور 1742ء میں احمد آباد (گجرات) میں وفات پائی۔ بیس برس کے سن میں تحصیلِ علم کے لیے گجرات گئے جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا اور شاہ وجیہہ الدین علوی کے مدرسہ میں تعلیم پائی۔ سیر و سیاحت کے سلسلے میں دو مرتبہ دلی آئے۔ پہلی بار اورنگ زیب عالمگیر کے آخری عہد 1700ء میں اور دوسری دفعہ محمد شاہ کے دور سلطنت 1722ء میں۔ پہلی بار شاہ سعداللہ گلشن، دہلی کے مشہور شاعر و درویش کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کے فارسی کلیات میں دو لاکھ کے قریب شعر تھے۔ انہوں نے ولیؔ کو مشورہ دیا کہ ریختہ میں فارسی کے مضامین رنگین استعمال کریں۔ جب دوسری مرتبہ دلی آئے تو اپنا دیوان ساتھ لائے چونکہ شاہ گلشن کے مشورہ سے پورا استفادہ کر چکے تھے۔ ان کا کلام دلی میں مقبول ہوا۔ دلی کے اردو شعراء کے کلام میں فارسیت غالب تھی لیکن ولیؔ نے فارسی کے ساتھ بھاشا الفاظ کو اپنے کلام میں سمو کر ایک نئے دور کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے ہر صنفِ سخن اوار مختلف زمینوں اور بحروں میں دادِ سخن دی ہے لیکن ان کے کلام میں تغزل کا رنگ غالب ہے۔ ان کا دور اردو زبان کا عبوری دور ہے۔ اہلِ دکن اور اہلِ شمال کے میل جول سے نئی نئی ترکیبیں اور نئے نئے الفاظ زبان میں داخل ہونے لگے۔ ولیؔ نے اس دور کی زبان کو اپنے کلام میں محفوظ کر کے ایک تاریخی فرض انجام دیا۔ الفاظ کی موزونی اُن کا بروقت استعمال اچھوتے استعارے اور تشبیہیں، جاذب نظر ترکیبیں اور رعایاتِ لفظی کلامِ ولیؔ کی جان ہیں۔ (ناصر کاظمی)
1-
شیخ یاں بات تری پیش نہ جاوے ہرگز
عقل کوں چھوڑ کے مت مجلسِ رندان میں آ
2-
تجھ چال کی قیمت سوں دل نئیں ہے مرا واقف
اے مان بھری چنچل ٹک بھاؤ بتاتی جا
3-
گزر ہے تجھ طرف ہر بوالہوس کا
ہوا ہے دھاوا مٹھائی پر مگس کا
اپس گھر میں رقیباں کو نہ دے بار
چمن میں کام کیا ہے خار و خس کا
ولیؔ کوں ٹک دکھا صورت اپس کی
کھڑا ہے منتظر تیرے درس کا
4-
رنگیلے شعر کا کہنا کیا تھا ترک مدت سوں
ترا یہ قد ہوا ہے پھر کے باعث فکرِ عالی کا
ولیؔ تجھ شعر کوں سنتے ہوئے ہیں مست اہلِ دل
اثر ہے شعر میں تیرے شرابِ پُرتگالی کا
یہ بھی پڑھی: (کلیاتِ ولی دکنی)
5-
دیکھا ہے تجھے خواب میں اے مایہء خوبی
اس خواب کو جا یوسفِ کنعاں سوں کہوں گا
6-
جب صنم کوں خیالِ باغ ہوا
طالبِ نشہء فراغ ہوا
رشک سوں تجھ لباں کی سرخی پر
جگرِ لالہ داغ داغ ہوا
دلِ عشاق کیوں نہ ہوئے روشن
جب خیالِ صنم چراغ ہوا
اے ولیؔ گل بدن کوں باغ میں دیکھ
دلِ صد چاک باغ باغ ہوا
6-
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اُسے یاد نہ آیا
پہنچی ہے ہر اک گوش میں فریاد ولیؔ کی
لیکن وہ صنم سننے کوں فریاد نہ آیا
7-
اغماض کیا، چلتا رہا، مجھ کوں نہ پوچھا
کیا اُس کوں مرے حال پہ کچھ پیار نہ آیا
8-
جو پیوے نیر نیناں کا اسے کیا کام پانی سوں
جو بھوجن دُکھ کا کرتے ہیں اسے آدھار کرنا کیا
محل دل کا تری خاطر بنایا ہوں میں دل جاں سوں
جدائی سوں اسے یکبارگی مسمار کرنا کیا
9-
گریہ و گردِ ملامت سوں ولیؔ
خانہء عشق کوں تعمیر کیا
10-
رنگ خوبی کا گل عذار کیا
حیف ہے نقد اعتبار کیا
11-
ہر درد پہ کر صبر ولیؔ عشق کی رہ میں
عاشق کو نہ لازم ہے کرے دُکھ کی شکایت
12-
شرابِ شوق سیں سرشار ہیں ہم
کبھو بے خود کبھو ہشیار ہیں ہم
دو رنگی سوں تری اے سروِ رعنا
کبھو راضی کبھو بیزار ہیں ہم
13-
دل ہوا ہے مرا خرابِ سخن
دیکھ کر حسنِ بے حجابِ سخن
راہِ مضمونِ تازہ بند نہیں
تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن
شعر فہموں کی دیکھ کر گرمی
دل ہوا ہے مرا کبابِ سخن
اے ولیؔ دردِ سر کبھو نہ رہے
جب ملے صندل و گلابِ سخن
14-
اے جانِ ولیؔ وعدہء دیدار کوں اپنے
ڈرتا ہوں مبادا کہ فراموش کرے توں
15-
یک تل نہیں آرام مرے دل کو ترے باج
اے نورِ نظر دُور نہ ہو میری نظر سوں
اُس لب کی حلاوت ہے ولیؔ طبع میں میری
یو شعر مرا جگ نہیں میٹھا ہے شکر سوں
16-
حاجت نہیں چراغ کی تجھ گھر میں اے ولیؔ
رشن ہے بزمِ عشق تری شمعِ آہ سوں
17-
کمر سوں نئیں جدا ہوتی نظر اُس شوخ چنچل کی
ولیؔ کیا ہے صید چیتے نے چکارے کوں
18-
اے زہرہ جبیں کشن ترے مکھ کی کلی دیکھ
گاتا ہے ہر اک صبح میں اٹھ رام کلی کوں
19-
فدائے دلبرِ رنگیں ادا ہوں
شہیدِ شاہدِ گل گوں قبا ہوں
ہر اِک مہ رُو کے ملنے کا نہیں ذوق
سخن کے آشنا کا آشنا ہوں
نہ کر شمشاد کی تعریف مجھ پاس
کہ میں اُس سرو قد کا مبتلا ہوں
20-
سودائے زلفِ خوباں رکھتا ہوں دل میں دائم
زنجیرِ عاشقی کا دیوانہ ہو رہا ہوں
21-
ایسے نصیب میرے کہاں ہیں ولیؔ کہ آج
اُس گل بدن کوں اپنے گلے ہار کر رکھوں
22-
آوے اگر وہ شوخ ستمگر عتاب میں
جرات جواب کی نہ رہے آفتاب میں
رخسارِ دلربا کا صفا کیا بیاں کروں
مخمل نے اس صفا کوں نہ دیکھا ہے خواب میں
تجھ حسنِ آبدار کی تعریف کیا کہوں
موتی ہوا ہے غرق تجھے دیکھ آب میں
اے دل شتاب چل کے تماشے کی بات ہے
بیٹھا ہے آفتاب نکل ماہتاب میں
آوے وو نو بہار اگر برسرِ سخن
طوطی کوں لاجواب کرے یک جواب میں
ہرگز نہیں ہے خشت سوں فرق اس کوں اے ولیؔ
خوش طلعتاں کی بات نہیں جس کتاب میں
23-
سحر پرداز ہیں پیا کے نین
ہوش دشمن ہیں خوش ادا کے نین
دل ہوا آج مجھ سوں بیگانہ
دیکھ اُس رمز آشنا کے نین
نرگستاں کو دیکھنے مت جا
دیکھ اُسی نرگسی قبا کے نین
اے ولیؔ کس اگے کروں فریاد
ظلم کرتے ہیں بے وفا کے نین
24-
خوش قداں دل کوں بند کرتے ہیں
نام اپنا بلند کرتے ہیں
اپنے شیریں سخن کو دے کے رواج
سرد بازارِ قند کرتے ہیں
اے ولیؔ جو کہ یں بلند خیال
شعر میرا پسند کرتے ہیں
25-
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
کم نگاہی سوں دیکھتے ہیں ولے
کام اپنا تمام کرتے ہیں
کھولتے ہیں جب اپنی زلفاں کو
صبحِ عاشقاں کوں شام کرتے ہیں
دل لجاتے ہیں اے ولیؔ میرا
سرو قد جب خرام کرتے ہیں
26-
اے سامری تو دیکھ مری ساحری کے تئیں
شیشے میں دل کے بند کیا ہوں پری کے تئیں
پیدا ہوا ہے جگ میں ولیؔ صاحبِ سخن
میری طرف سوں جا کے کہو انوریؔ کے تئیں
27-
زندگی جامِ عیش ہے لیکن
فائدہ کیا اگر مدام نہیں
28-
حالِ دل پر ولیؔ کے اے جاناں
نظرِ لطف گاہ گاہ کرو
29-
مبادا محتسب بد مست سن کر تان میں آوے
طنبورہ آہ کا اے دل بجا آہستہ آہستہ
30-
رات دن جگ میں رفیقِ بے کساں
بے کسی ہے بے کسی ہے بے کسی
باعثِ رسوائیِ عالم ولیؔ
مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی
Tags:
ناصر کاظمی