مرزا دبیر کی مرثیہ نگاری
نام مرزا سلامت علی تھا جبکہ دبیرؔ تخلص کرتے تھے۔ موصوف 29 اگست 1803ء کو دہلی کے بلی ماراں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام مرزا غلام حسین تھا۔ ابتدا میں درسیہ کتب، صرف و نحو ادب، منطق اور حکمت وغیرہ مولوی غلام ضامن صاحب سے اور کتب دینیہ، حدیث و تفسیر اور اصولِ حدیث و فقہ کی تعلیم مولوی مرزا محمد کاظم علی صاحب سے ثراہ سے حاصل کی۔ علم عروض و علم بلاغت کی تعلیم بھی مولوی غلام ضامن صاحب سے حاصل کی تھی۔ ان حضرات کے علاوہ ان کے دو استاد اور بھی تھے جن کے اسم گرامی ملا مہدی صاحب اور مولوی فدا علی صاحب اخباری تھے۔ مرزا دبیر اصلا ایرانی نژاد تھے۔ ان کے مورثِ اعلیٰ ملا ہاشم شیرازی، ایران کے مستند شاعر ملا اہلیؔ شیرازی، جو کہ مشہور زمانہ مثنوی "سحرِ ہلال" کے مصنف تھے، ان کے حقیقی بھائی تھے۔
اہلی شیراز کا ایک فارسی شعر ملاحظہ ہو کہ
اہلیؔ کدروتے کہ تو داری ز خامی ست
عاشق شو و چو شمع بسوز و صفا ببیں
(یعنی کہ خود کومخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے اہلیؔ شیرازی تیرے دل جو میل اور کدورت سے بھرا پڑا ہے تیری یہ خامی نا پختگی اور عشقِ حقیقی سے دوری کی وجہ سے ہے۔ عاشق ہو جا اور شمع کی طرح عشق کی آگ میں جل جا اور پھر اپنے اندر کا شفاف پن دیکھیو۔)
خیر بات دوسری طرف نکل گئی ہم دوبارہ مرزا دبیرؔ کی طرف آتے ہیں سو یہ خاندان شیراز سے سے دہلی آیا تھا اور اپنی علمیت و نام و نمود کے بدولت مغلیہ بادشاہوں کے درباروں میں ممتاز عہدوں پر فائز رہا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغلیہ سلطنت زوال پزیر ہو رہی تھی اور دہلی کی تباہی کے آثار صاف نمایاں ہونے لگے تھے۔ شرفا اور اکابر نے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر دہلی کو خیرباد کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس وقت دہلی والوں کو اودھ کی سرزمین انتہائی پر کشش نظر آئی کہ یہ علاقہ ابھی انگریز کے کالے سائے سے محفوظ تھا۔ مرزا دبیرؔ کے خاندان نے بھی یہ بمع اہل و عیال دہلی کو الوداع کہا اور لکھنو آ بسے۔ مستند تاریخ نگار رام بابو سکسینہ فرماتے ہیں:
" ۔۔۔۔۔ ان کے والد تباہیِ دہلی کے بعد لکھنو آئے اور یہیں شادی کر کے رہ پڑے۔ اس کے بعد جب دہلی میں تسلط ہو گیا تو پھر دہلی واپس آ گئے مگر دبیر اپنے والد کے ساتھ لکھنؤ اس وقت آئے جب ان کی عمر ساتھ برس کی تھی ------"
مرزا دبیر خاندانی نہیں بلکہ پیدائشی شاعر تھے۔ انہوں نے بچپن ہی میں منبروں میں مرثیہ خوانی شروع کر دی تھی۔ کچھ عرصہ بعد ان کی شہرت میر ضمیرؔ کے کانوں تک پہنچی۔ جب دبیرؔ نے اپنا زانوئے تلمذ میر ضمیرؔ جیسے استاد الشعرا کے سامنے تہہ کیا تو انہوں نے اپنے اس پیش بہا شاگرد کو ایسا نکھارا کہ مرزا دبیر دنیائے ادب کے وہ درخشاں ستارہ بنے جس کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی نے مرثیہ کے توسط سے کمال شاعری کو ایک نیا عروج بخشتے ہوئے رثائی ادب کی شریانوں میں ایک نئی حرارت پیدا کردی۔ مرزا دبیرؔ کے کمال شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے بابائے اردو مولانا محمد حسین آزاد فرماتے ہیں کہ:
"مرثیہ گوئی کے فن کو لیا اور اس درجہ تک پہنچا دیا جس کے آ گے ترقی کا راستہ بند ہو گیا"۔
مرزا دبیرؔ کے دیگر خواص کچھ یوں تھے کہ ان کا قوتِ حافظ بہت اچھا تھا۔ زیادہ تر وقت تزکرہ اہلِ بیت اطہار میں گزرتا۔ عام لوگوں سے بھی خندہ پیشانی سے ملتے۔ مزاجاََ اور طبعاََ بہت سخی تھے۔ آمدنی بھی بہت کثیر تھی۔ اس سلسلہ میں حیاتِ دبیر کے مصنف افضل حسین ثابتؔ لکھتے ہیں:
" ملکہ زمانی زوجہ نصیر الدین حیدر، دوئم شاہِ اودھ، عشرہ محرم میں دس ہزار روپیہ مرزا صاحب (مرزا دبیرؔ) کو نذرانہ پیش فرماتی تھیں۔ بادشاہ کے یہاں سے جو ملتا وہ اس سے بدر جہا زیادہ تھا اور محلات اور امرا جو پیش کرتے ان تمام نذرانوں پر خیال کیا جائے تو لاکھوں روپیہ سالانہ کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ "
مرزا دبیر کے زمانے میں شیخ امام بخش ناسخؔ اور خواجہ حیدر علی آتش شعرائے لکھنو میں سرِ فہرست تھے اور دبیر کے قائل تھے۔ یہ حضرات میرزا دبیرؔ کی مجلسوں میں اکثر جایا کرتے تھے۔ میر ضمیرؔ کی نظروں میں مرزا دبیر کا درجہ بہت بلند تھا۔ انہیں دبیر کی استادی پر بہت فخر تھا۔ اس کا اظہار وہ یوں کرتے ہیں:
پہلے تو یہ شہرا تھا ضمیر آیا ہے
اب کہتے ہیں استادِ دبیرؔ آیا ہے
کردی مری پیری نے مگر قدر سوا
اب قول یہی ہے سب کا پیر آیا ہے
نواب واجد علی شاہ خود بھی صاحبِ دیوان شاعر اور سخن شناس تھے جو اخترؔ تخلص کرتے تھے۔ وہ مرزا دبیرؔ سے جس حد تک متاثر تھے کہ اس کا اندازہ ان کے ایک شعر اور ایک واقعہ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ واجد علی شاہ اخترؔ فرماتے ہیں:
بچپن سے ان کے دامِ سخن کا اسیر ہوں
میں کمسنی سے عاشقِ نظمِ دبیرؔ ہوں
مرزا دبیر کی قدردانی کے سلسلہ میں بادشاہ واجد علی شاہ سے ایک واقعہ یوں منسوب ہے کہ ایک روز جب مرزا دبیرؔ، واجد علی شاہ کے یہاں مجلس پڑھ رہے تھے۔ ہوا کہ ایک تیز جھونکے کے سبب منبر کے اوپر تنا ہوا شامیانہ منتشر ہو گیا اور سورج کی سیدھی کرنیں مرزا دبیرؔ کے چہرے پر پڑنے لگیں۔ یہ دیکھ کر واجد علی شاہ اپنی جگہ سے اٹھے اور اپنی چھتری طلب کی۔ اختتام مرثیہ تک خود ہاتھ میں چھتری لیے مرزا دبیرؔ کے چہرے اور جسم کو آفتاب کی تمازت سے بچاتے رہے۔ یہ واقعہ واجد علی شاہ کے دفتر میں کچھ اس طرح درج ہے:
روزِ مجلس بالائے منبر، بحضور اعلیٰ حضرت بخواند مرثیہ۔ اتفاق افتاد، یکسو شد و عکس آفتاب بہ بروئے آن جنابِ اُوفتادہ۔ فی الفور ظل اللہ چتر خود طلبیدہ و چوبش بہ دست خود گرفتہ، قریب منبر استادہ تا اختتامِ مرثیہ سایہ افگن ماند"
مرزا دبیر کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ کس حد تک تھا اس کا اندازہ درج ذیل بند سے بخوبی ہوتا ہے جس میں انہوں نے اپنے بارے میں لکھا:
گر کاہ ملے فائدہ کیا کوہ کنی سے
میں کاہ کو گِل کرتا ہوں نگیں سخنی سے
خوش رنگیں میں الفاظِ عقیقِ یمنی سے
یہ ساز ہے، سوزِ غمِ شاہ مدنی سے
آہن کو کروں سبز تو آئینہ بنا دوں
پتھر کو کروں گرم تو عطر اس کا نکالوں
-
شامی کباب تھے یہ ہوئے جب شرر فشاں
اہلِ تتار بن کے ہرن رن سے تھے رواں
-
وللہ ہاتھ دوں گا نہ فاسق کے ہاتھ میں
سر جائے گا پہ فرق نہ آئے گا بات میں
-
قبضہ تو رہا تیغ کا دستِ شہِ دیں میں
پھل جا کے لگا شاخِ سرِ گاوِ زمیں میں
-
بارش تھی آبِ تیغ کی برسات سے فزوں
بدلی تھی فوجِ شام کی رنگت گھٹا تھا خوں
-
دریا جو دور پیاس میں تھا، شہ کی فوج سے
منھ پر طمانچے مارتا تھا، دستِ موج سے
چھالا ہے آفتاب کا، گردوں کے پانوں میں
خود چھپ رہی ہے دھوپ، درختوں کی چھانوں میں
فوارہ بلندی کی طرف چھوٹ رہا ہے
پانی بھی گلستاں کے تماشے کو اٹھا ہے
-
نورِ نظر شاہ جو گھر سے نکل آیا
حیران ہیں سب، چاند کدھر سے نکل آیا
-
اعدا کو ادھر حرام کا ملا ملا
حُر کو اسداللہ کا اِدھر لال ملا
واللہ کُلاہِ سرِ عالم ہوا حر
حلہ ملا، معصومہ کا رومال ملا
-
شبیر کے بازو بھی ہیں اور زورِ کمر بھی
رشتہ میں برادر بھی ہیں، الفت میں پسر بھی
خادم بھی، مصاحب بھی، دل و جان و جگر بھی
اللہ کی شمشیر، شہِ دیں کی سِپر بھی
-
مرزا دبیرؔ نے جتنے بھی مراثی، سلام، رباعیات اور قطعات کہے ہیں ان کی تعداد کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کیوں کہ ان کے تمام مراثی اب تک شائع نہیں ہو سکے۔ اس بات سے بھی انکا نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے بہت سے مراثی یا تو اب تک محققین سے پوشیدہ ہیں یا تلف ہو چکے ہیں۔ مرزا دبیرؔ کے بہت سے مراثی "دفترِ ماتم" کے عنوان سے 14 جلدوں میں شائع ہوئے، جن میں ان کے کل 375 مراثی کے 27080 بند دستیاب ہیں۔
Tags:
مرزا دبیر