امیر علی ٹھگ از منجو قمر

امیر علی ٹھگ از منجو قمر

 امیر علی ٹھگ ایک اندازے کے مطابق 1767ء میں پیدا ہوا۔ 1775ء میں وہ آٹھ سال کا تھا۔ (جب اسماعیل نے اس کا اغوا کیا) امیر علی کو ٹھگوں میں شامل کر لیا گیا۔ 1789ء سے لیکر 1801ء تک ٹھگوں کی اس جماعت نے ایک منظم تنظیم کی صورت اختیار کر لی اور اسماعیل ٹھگ کی سرکردگی میں پروان چڑھی اور اس کے کئی شعبے عمل میں آئے۔ ان دنوں پورے ہندوستان میں پورے 4 ہزار ٹھگ مصروفِ عمل تھے۔ اس تنظیم نے انگریزوں کے کئی کیمپ لوٹ لیے پلٹنوں کی پلٹنیں ٹھگوں کے ہاتھون دفنا دی گئیں۔ جن کا 1816ء تک انگریزوں کو پتہ نہ چل سکا۔ اسماعیل ٹھگ نے کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ دلی جا کر عبدالقادر روحیلہ کے قافلے کو لوٹے لیکن اس کے سراغ رساں سوڈھی نے جب یہ خبر دی کہ قادر کے ہاتھ شاہان مغلیہ کا کوئی خزانہ نہیں لگا ہے تو اسماعیل ٹھگ نے دلی کا سفر منسوخ کر دیا لیکن گنیشا ٹھگ اپنا قافلہ لے کر روانہ ہوا۔ بہت سے تاجر اس کے ہاتھوں مارے گئے۔ 

1805ء میں جب سکندر جاہ سریر آرائے سلطنت تھے امیر علی ٹھگ نے دکن کی راہ لی اور رعایا کو خوب لوٹا، جھالون میں قیام کیا اور 1815ء میں لکھنو پہنچا اور وہاں گرفتار کر لیا گیا اور عمر قید کی سزا پائی۔ بارہویں سال 1827ء میں سلطان ناصر الدین کی تخت نشینی کی خوشی میں رہا ہوا۔ ٹھگی سے توبہ کر لینے کے باوجود گنیشا سے اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے کا خیال اس کے دل میں چٹکیاں لینے لگا اس لیے سہ بار اس نے ایک اور ٹھگ کی سرکردگی میں ساگر کی راہ لی اور انگریزوں کے ہاتھوں 1832ء میں گرفتار ہوا تو کرنل سلیمن نے اسے گواہ معافی گواہ قرار دیا تا کہ جمیع ٹھگوں کا حال معلوم کر کے انہیں ختم کیا جائے۔ یہ بات امیر علی کے لیے خوش آئند تھی چنانچہ وہ گواہ معافی بن گیا اور گنیشا کو اس کے قافلے کے ساتھ کرنل سلیمن کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان کے سرغنہ ٹھگوں کا خاتمہ خود امیر علی ٹھگ نے کیا۔ 

1816ء سے 1827ء تک راجے مہاراجے نظام حیدر آباد اور نواب لکھنو نے ٹھگوں کا قلع قمع کر دیا تھا۔ حیدر آباد میں ٹھگی کا ایک باضابطہ محکمہ قائم کیا گیا بہت سے ٹھگ مارے گئے اور بہت سے ٹھگ قید کر لیے گئے۔