امیر علی ٹھگ از منجو قمر
1805ء میں جب سکندر جاہ سریر آرائے سلطنت تھے امیر علی ٹھگ نے دکن کی راہ لی اور رعایا کو خوب لوٹا، جھالون میں قیام کیا اور 1815ء میں لکھنو پہنچا اور وہاں گرفتار کر لیا گیا اور عمر قید کی سزا پائی۔ بارہویں سال 1827ء میں سلطان ناصر الدین کی تخت نشینی کی خوشی میں رہا ہوا۔ ٹھگی سے توبہ کر لینے کے باوجود گنیشا سے اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینے کا خیال اس کے دل میں چٹکیاں لینے لگا اس لیے سہ بار اس نے ایک اور ٹھگ کی سرکردگی میں ساگر کی راہ لی اور انگریزوں کے ہاتھوں 1832ء میں گرفتار ہوا تو کرنل سلیمن نے اسے گواہ معافی گواہ قرار دیا تا کہ جمیع ٹھگوں کا حال معلوم کر کے انہیں ختم کیا جائے۔ یہ بات امیر علی کے لیے خوش آئند تھی چنانچہ وہ گواہ معافی بن گیا اور گنیشا کو اس کے قافلے کے ساتھ کرنل سلیمن کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندوستان کے سرغنہ ٹھگوں کا خاتمہ خود امیر علی ٹھگ نے کیا۔
1816ء سے 1827ء تک راجے مہاراجے نظام حیدر آباد اور نواب لکھنو نے ٹھگوں کا قلع قمع کر دیا تھا۔ حیدر آباد میں ٹھگی کا ایک باضابطہ محکمہ قائم کیا گیا بہت سے ٹھگ مارے گئے اور بہت سے ٹھگ قید کر لیے گئے۔
Tags:
منجو قمر