کئی چاند تھے سر آسماں از شمس الرحمن فاروقی (پی ڈی ایف)

"کئی چاند تھے سرِ آسماں" شمس الرحمٰن فاروقی کا تخلیق کردہ ایک ایسا کوزہ ہے جس میں ناول نگار نے ہزاروں دریا سمو دیے ہیں۔ اس شاہکار ادب پارے کو پڑھ کر اردو کے مشہور و معروف ادیب انتظار حسین نے فاروقی سے کہا تھا کہ "آپ آدمی ہیں یا کہ جن؟"
یقیناََ مؤکل، شمس الرحمٰن فاروقی کے تابع ہیں جن سے وہ جب چاہیں، جیسا چاہیں کام لے لیتے ہیں۔ ویسے تو اس ناول کو دراز کرنے میں درجنوں کردار، مقامات، واقعات اور حادثات سبھی شریک ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں رول، جگت استاد، فصیح الملک نواب میرزا خاں داغ دھلوی کی والدہء گرامی، وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم زہرہؔ دھلوی کا ہے۔ وزیر خانم کا نام زبان پر آتے ہی اردو کے معروف استاد شاعر ثمرؔ دہلوی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے:
ازل سے تا ابد، نا محرم انجام ہے شاید
محبت، اک مسلسل ابتدا کا نام ہے شاید
"کئی چاند تھے سرِ آسماں" موضوع کے علاوہ زبان و بیان کے اعتبار سے بھی اردو کے چند اہم ناولوں میں شمار ہوتا ہے۔ فاروقی صاحب نے جو زبان استعمال کی ہے اور اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان سے بھی ان کی کماحقہ واقفیت کی دلالت ہے۔ اس ناول کی زبان وہ کلاسیکی اردو ہے جس کے نشان اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ یہ ناول فاروقی صاحب کی ہمہ جہت شخصیت اور مختلف النوع علوم و فنون اور کئی زبانوں پر دسترس رکھنے کا تاریخی دستاویز ہے۔  ناول کا نام احمد مشتاق کے اس شعر سے مستعار لیا گیا ہے
 کئی چاند تھے سرِ آسماں جو چمک چمک کے پلٹ گئے
نہ لہو مرے ہی جگر میں تھا نہ تمہاری زلف سیاہ تھی