انتخاب انشاؔ از ناصر کاظمی
انشاؔ کا مختصر سوانحی خاکہ
سید انشا اللہ خاں نام انشاؔ تخلص، 1756ء اور 1757ء کے درمیان مرشد آباد میں پیدا ہوئے۔ بزرگ نجفِ اشرف سے آ کر دِلی میں بس گئے تھے۔ اِنشاؔ کے والد میر ماشا اللہ خاں صدرؔ بڑے عالم و فاضل اور حاذق طبیب تھے۔ باپ کے دامنِ تربیت میں پرورش پا کر انشاؔ بھی عالم، فاضل، طبیب اور شاعر ہوئے۔ شاعری میں کسی کی شاگردی اختیار نہیں کی۔ ابتدا میں والد سے اصلاح لی۔ عربی، فارسی، اردو اور ہندی زبانوں میں نظم کی یکساں مہارت رکھتے تھے۔ مرشد آباد سے دلی آئے اور شاہ عالم ثانی کے درباریوں میں جگہ پائی۔ شعراء کی چشمک اور حالات کی ناسازگاری سے بد دل ہو کر 1791ء میں لکھنؤ چلے گئے۔ مرزا سلیمان شکوہ کے دربار میں رہے، پھر نواب سعادت علی خاں کے دربار میں رسائی حاصل کی اور ظرافت، بذلہ سنجی، اور شوخ مزاجی سے نواب اس قدر اپنا گرویدہ بنایا کہ ان کے بغیر اُسے ایک دم چین نہ آتا تھا۔ آخر میں نواب سے کسی بات پر اَن بَن ہو گئی اور عمر کا آخری زمانہ گوشہ نشینی اور کس مپرسی کی حالت میں گزار کر بمقام لکھنؤ 1817ء میں وفات پائی۔
فطری ظرافت اور درباری زندگی نے ہزل اور تمسخر کو انشاؔ کی شاعری کا جزوِ لازم بنا دیا تھا۔ ان کو زبان پر جو حیرت انگیز قدرت حاصل تھی اگر وہ صحیح طور پر استعمال ہوتی تو ان کا جواب اردو شاعری میں مشکل سے ملتا۔ تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور قصیدے نسبتاََ سنجیدہ انداز میں کہے۔ ریختی یعنی عورتوں کے جذبات و خیالات عورتوں کی زبان میں بڑی خوبی سے ادا کرتے تھے۔
1-
دروازے سے جو آپ نہ نکلے تو ہم نے آہ
سر کو پٹک کے رات کو چوکھٹ سے غش کیا
2-
موجِ نسیم سر پہ اڑاتی ہے آج خاک
شاید کسی اسیرِ سلاسل نے غش کیا
3-
رہا ہے ہوش کچھ باقی اسے بھی اب نبیڑے جا
یہی آہنگ اے مطرب پسر ٹک اور چھیڑے جا
مجھے اس درد میں لذت ہے اے جوشِ جنوں اچھا
مرے زخمِ جگر کے ہر گھڑی ٹانکے ادھیڑے جا
4-
انکھڑیاں سرخ ہو گئیں چٹ سے
دیکھ لیجے کمال بوسے کا
5-
دستِ جنوں سے اے وائے ویلا
سونے نہ پائے ٹک پاؤں پھیلا
جامِ مے عشق موند آنکھ پی جا
ہے ایک ہی گھونٹ کڑوا کسیلا
وہ صاف مکھڑا ہے قہر انشاؔ
کیونکر نہ اپنا دل ہووے میلا
6-
محشر کی تشنگی سے کیا خوف سید انشاؔ
کوثر کا جام دے گا مجھ کو امام میرا
7-
کہانی ایک سنائی جو ہیر رانجھا کی
تو اہلِ درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
کسی طرح سے نہیں نیند آتی انشاؔ کو
اُسی خیال میں بے خوابیوں نے لوٹ لیا
8-
پُھنکا جاتا ہوں سوزِ عشق کی گرمی سے اے انشاؔ
خدا نے کیا بلا یہ دل بنایا آگ کو جوڑا
9-
کچھ اشارا جو کیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگے دن ہے ابھی رات کے وقت
10-
گر نکہتِ بہار سے مل جائے پوچھیو
میری طرف سے بادِ سحر خیر و عافیت
11-
صد برگ گہ دکھائے ہے گہ ارغواں بسنت
لاتی ہے ایک تازہ شگوفہ یہاں بسنت
تُو اٹھ چلا تو زرد ہوئے سب کے رنگِ رُو
کل آ گئی بہار میں یہ ناگہاں بسنت
انشاؔ سے شیخ پوچھتا ہے کیا صلاح ہے
ترغیبِ بادہ و مے ہے مجھے اے جواں بسنت
12-
دھوم یہ بادہ کشوں کی ہے کہ مے خانے میں
مست جاتے ہیں صراحی کی غٹا غٹ سے لپٹ
جوں گلی میں مجھے آتے ہوئے دیکھا تو وہ شوخ
اپنی چوکھٹ سے اُچک جھٹ سے گیا پٹ سے لپٹ
13-
راتوں کو نہ نکلا کرو دروازہ سے باہر
شوخی میں دھرو پاؤں نہ اندازہ سے باہر
جرّاح نہ رکھ پنبہ و مرہم کہ یہاں آگ
نکلے ہے ہر اک زخمِ تر و تازہ سے باہر
14-
دامن سے میرے آ کے لپٹ ہمکنار ہو
اب بات وہ نہیں کہ مری آستیں نہ چھیڑ
15-
انشاؔ خیالِ محض ہے اس پر نہ بھولیو
ہرگز کسی کے ساتھ نہ ڈالے خدا غرض
16-
انشاؔ دماغِ شعر و سخن اب کہاں رہا
ہے سچ تو یوں کہ چاہیے اس کو دماغ شرط
17-
پاؤں اگر مراد تو چالیس دن تلک
بھیجوں مزارِ قیس پہ ہر شب چراغ و گل
18-
گرما گئی گر اپنی طبیعت تو کسی وقت
اے ابر دکھاویں گے ہم اپنا ہنرِ چشم
19-
شیخی اتنی نہ کر اے شیخ کہ رندانِ جہاں
انگلیوں پر تجھے چاہیں تو نچا سکتے ہیں
20-
کاٹے ہیں ہم نے یونہیں ایام زندگی کے
سیدھے سے سیدھے سادے اور کج سے کج رہے ہیں
گرما گئی طبیعت باہم جو مطربوں کی
تو الجھی سلجھی تانیں کیا کیا اُپج رہے ہیں
21-
نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں
کہاں گردش فلک کی چین دیتی ہے سنا انشاؔ
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دوچار بیٹھے ہیں
22-
گر یار مے پلائے تو پھر کیوں نہ پیجئے
زاہد نہیں میں شیخ نہیں کچھ ولی نہیں
23-
جی نہ لگ جائے کہیں تجھ سے اسی واسطے بس
رفتہ رفتہ ترے ہم ملنے کو کم کرتے ہیں
24-
آج عاشق کو ترے قبر میں رکھتے ہیں لوگ
دفن اک زلزلہ ہوتا ہے زمیں کی تہ میں
25-
لکھنے پڑھنے سے معاف مجھے رکھیے گا
طاقتِ نامہ بری میرے کبوتر میں نہیں
26-
تواضع آپ کی ہم کیا کریں بھلا صاحب
بقول شخصے اس اپنے جگر میں آہ نہیں
27-
انشاؔ تو اینڈتے ہیں پڑے میکدے کے بیچ
کہیو سلام زاہدِ شب زندہ دار کو
28-
شب خانہء رقیب میں تا صحب سو چکے
اب فائدہ مکرنے سے ہم دیکھ تو چکے
29-
سیر گلشن کی نہ تکلیف ہمیں دے انشاؔ
کنجِ عزلت ہی میں ہم اپنے بھلے بیٹھے ہیں
30-
تم نے تو نہیں، خیر یہ فرمائیے بارے
پھر کن نے لیا راحت و آرام ہمارا
Tags:
ناصر کاظمی