سوار اور دوسرے افسانے از شمس الرحمن فاروقی

سوار اور دوسرے افسانے - شمس الرحمن فاروقی
شمس الرحمٰن فاروقی نے ادبی تنقید اور ادبی مطالعات میں جو شہرت حاصل کی ہے وہ بے سبب نہیں۔ ان کی تصنیفات اس کی گواہ ہیں۔ وہ ادبی تاریخ سے بھی شغف رکھتے ہیں اور اس تاریخ کو اپنے وسیع مطالعے کے پس منظر میں دیکھنا جانتے ہی "سوار اور دوسرے افسانے" افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جسے افسانوی بیان کی ایک نئی جہت کہا جا سکتا ہے۔ اس کے افسانوں نے تہذیب و تاریخ کو یکجا کر دیا اور اسے داستانی دلکشی بخشی ہے۔ اس دلکشی سے تہذیبی نقوش ہی کو زبان نہیں ملی ہے، شہر بھی بولتے معلوم ہوتے ہیں اور افرادِ قصہ خواب و حقیقت کا پیکر بن جاتے ہیں۔ بعض مقامات پر ادبی بحثیں بے ضرورت معلوم ہوتی ہیں اور کہیں کہیں شعری ذوق کا اختلاف اشعار کے انتخاب میں نمایاں معلوم ہوتا ہے۔ مگر ان کے بیان کی روانی ایسی ہے کہ یہ مقامات جلد گزر جاتے ہیں اور قصے پر استعجاب و تحیر کی فضا حاوی آ جاتی ہے۔ جہاں کہیں اشعار بیان کا حصہ بن جاتے ہیں وہاں ایک نیا انداز پیدا ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر "سوار" میں یہ شعر:

سوارِ دولتِ جاوید ہر گزار آمد
عنانِ اُو نہ گرفتند از گزار برفت

نہ صرف بیان کا حصہ بن گیا ہے بلکہ مفہوم کی کئی تہوں کا حامل ہے۔ اسی طرح بعض دیگر مقامات پر بھی اشعار نے بیان ک دلکشی میں اضافہ کیا ہے۔ داستانی رنگ کی جاذبیت ایسی ہے کہ بعض محیر العقول باتیں بھی قابلِ قبول اور لائق یقین نظر آنے لگتی ہیں، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس قت جب اردو افسانے سے بیانیہ کو خارج کرنے کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں، شمس الرحمٰن فاروقی نے بتا دیا کہ بیانیہ اپنے اندر کیسی حیرت انگیز قوت رکھتا ہے۔