راحت اندوری شخص اور شاعر
راحت اندوری کو تقسیم ملک کے بعد ابھرنے والے غزل گو شعراء میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک کا شاعر نہیں مگر ترقی پسند ہے، جدید شاعر بھی نہیں ہے مگر اپنے موضوعات اور فکر کے اعتبار سے جدید ہے۔ اس کی شاعری کی دو بنیادیں ہیں، ایک اس کا احساس اور دوسرا سوچ کا انفرادی رنگ۔ یہ دونوں چیزیں اس کے یہاں اتنی شدت سے پائی جاتی ہیں کہ اسے اس قبیل کا پہلا شاعر کہا جا سکتا ہے۔ اس کا ذہن ایک ایسا ہمہ جہت پرندہ ہے جو صرف ایک ہی رخ پر اڑنے کا قائل نہیں ہے۔ وہ اپنی پرواز کے دوران ایسی بلندی پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے ماضی کے خوش رنگ آثار بھی نظر آتے ہیں اور وہ قلعہ بھی دکھائی دیتا ہے جو ملک و ملت کی شکست و ریخت کے بعد ہر جگہ بکھرا ہوا ہے۔ وہ عظمتِ گم شدہ کے محل بھی دیکھتا ہے اور حال کا حالِ زار بھی ۔۔۔ وہ اپنی تاریخ کے درد سمیٹتا ہے اور موجودہ دور کے سیاسی، معاشرتی اور تہذیبی زوال کا گرد و غبار بھی بٹورتا اور انہیں اپنے شعر کی اساس بناتا ہے۔ وہ اپنے شعری پیکر میں جذبے کی حرارت اس انداز سے سموتا ہے کہ شعر ایک چیخ بن جاتا ہے جس کا مقصد صرف خلا میں کھو جانا نہیں ہوتا بلکہ سامع کی روح کو بیدار کرنا ہوتا ہے۔ راحتؔ غمِ ذات کا شاعر نہیں وہ شعر کہتے وقت خود کو جیسے بھولا ہوا ہوتا ہے۔ وہ اجتماعی درد کا شاعر ہے۔ اس کے شعر میں اس کی اپنی زندگی کا عکس کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ رمز و اشارہ ایک ایسی داستان بن جاتے ہیں جس میں پورے معاشرے کے ٹوٹے ہوئے انسان کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ استحصال، جبر، فریب، سیاسی لوٹ، اور کمینگی غرض کہ دورِ حاضر کی ساری برہنگی اس کے یہاں موضوع بن کر ابھرتی ہے جسے وہ بڑی خوب صورتی سے اپنے شعر میں پرو کر پیش کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ ایسا شعر جسے پھیلایا جائے تو افسانہ بن جائے، ایک سچا افسانہ۔
راحت اندوری جن موضوعات پر انگلی اٹھاتے ہیں ان کی سچائی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی فکر میں ایک اضطراب ہے ایسا اضطراب جو ان کو رومانوی اندازِ سخن سے دور ہٹا دیتا ہے اور زخموں کو کریدنے کا سلیقہ عطا کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جو کمان ہے بہت سفاک ہے۔ وہ شاعر پر بھی تیز چلاتی نظر آتی ہے۔ ان کے شعر میں ایک درد ناک تحیر اور ایک خوش آئند درد منعکس ہوتا رہتا ہے۔
راحت اندوری کے یہاں ایک اور خوبی بہت نمایاں ہے وہ پرانی لفظیات سے گریز کرتے ہیں۔ ہر بات دو ٹوک کہنے کے عادی ہیں مگر معنوی تہہ داری کے ساتھ۔ زندگی کے کھردرے پہلو اس کا موضوعِ سخن ہوتے ہیں۔ مگر اندازِ سخن کی شگفتگی ایک خوب صورت پردے کی طرح فکر پر پھیلی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے مزاج کا وہ والہانہ طنز جو اس کی شاعری میں معنوی لہر بن کر پھیلا ہوا ہے بہت نوکیلا تو نہیں ہے مگر ذہن کی سطح کو چھو کر اس طرح گزر جاتا ہے کہ قاری ایک انبساط آمیز درد میں ڈوب جاتا ہے۔ یہ اس کی شاعری کی بہت اہم شناخت ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس طنز کو اتنا ہی ہونا چاہیے اس سے آگے بڑھے تو تو مصلح کا طنز ہو جائے گا۔ وہ نہ رومانوی شاعر ہے نہ انقلابی۔ نہ جدید نہ قدیم، وہ حالات کا ماتم گسار ہے اور اس عہدِ حاضر کا سفاک شاعر۔ راحت اندوری کے یہاں غزل نے اپنا مزاج بدلا ہے اور عشق و رومان سے اپنا دامن چھڑایا ہے۔ اس کے یہاں خیال و الفاظ میں اتنی اپنائیت ملتی ہے کہ معانی کسی تہ نشین آب جو کی طرح پھوٹ نکلتے ہیں۔ غزل کا یہ رنگ و آہنگ بالکل نیا ہے جو اس کی شاعری کو دانش ورانہ جسارت اور درویشانہ انانیت کا شاہکار بنا گیا ہے۔
Tags:
راحت اندوری