دلی کا دبستانِ شاعری اور اس کی خصوصیات

دبستانِ رامپور کی خصوصیات اور مثالیں

دلی کے دبستان کا آغاز 18ویں صدی میں ہوا اس کو عروج میر و مرزاؔ کے عہد میں حاصل ہوا۔ دبستانِ دلی مغلیہ اور دہلوی ہندی تہذیب و تمدن اور ترک و مغلیہ قومی کردار کا غماز ہے۔ جس کی تعمیر و تشکیل میں اٹھارویں صدی اور انیسویں صدی کے سیاسی و سماجی انتشار کو بڑا دخل حاصل ہے۔ نور الحسن ہاشمی دہلویت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

( میرے نزدیک ایک خاص افتاد و ذہنی یا مزاجِ شعری کا نام ہے جس کا ظہور مخصوص تمدنی و تہذیبی اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دلی کا شاعر غمِ روزگار کا ستایا اور غمِ عشق کا مارا ہے۔ (دلی کا دستانِ شاعری: نورالحسن، ص13){alertInfo}

منشی وجاہت حسین جھنجھانوی اور نورالحسن ہاشمی کے مطابق دبستانِ دہلوی کی مندرجہ ذیل خصوصیات ہیں:

معنوی خصوصیات:
 1۔ تصوف
2- تصوف و روحانیت یعنی واردات قبلی
3-داخلیت۔  
4-بلند خیال 
5-عشق و ہجر نصیبی،
6-غم و اندوہ کا بیان 
7-احساس 
8-انفرادیت 
9-امرد پرستانہ رجحان
لفظی خصوصیات: 
سادگی، صفائی، روانی، فصاحت، شگفتگی، متانت و سنجیدگی، شیرینی و گھلاوٹ، فارسی تراکیب کا استعمال

دہلوی شعراء کا زیادہ زور بیان کی تزئین کے بجائے کیفیت پیدا کرنے پر ہے۔
ہر قدم پر تھی اس کی منزل لیک
سے سے سودائے جستجو نہ گیا
(میر تقی میر)

حجابِ رُخِ یار تھے آپ ہی ہم
کھلی آنکھ جب کوئی پردہ نہ دیکھا
(خواجہ میر دردؔ)

جو گزری ہم پہ مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
بلاکشانِ محبت پہ جو ہوا سو ہوا

(مرزا سوداؔ)