وہ جو چاند تھا سرِ آسمان بیادِ شمس الرحمٰن فاروقی از اشعر نجمی

وہ جو چاند تھا سرِ آسمان بیادِ شمس الرحمٰن فاروقی از اشعر نجمی
کووڈ19 کے سبب سال 2020ء بدترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ حارث خلیق نے اس سال کو اسلامی تاریخ کے سال 619ء کی طرز پر عام الحزن کہا ہے کہ اس برس کتنے ہی اہم اور ممتاز ادیب ایک ایک کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سب اموات ہی بھاری ہوتی ہیں اور کچھ زیادہ ہی بھاری ہوتی ہیں۔ انہیں برداشت کرنے کے لیے دیوتاؤں کا سا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے جس سے فانی انسان محروم ہیں۔ شمس الرحمٰن فاروقی کا سانحہء ارتحال، ان سب سے سانحوں سے سب سے بڑا ہے جنہیں ہم یاد کرسکتے ہیں یا سوچ سکتے ہیں۔ ایک عام آدمی کی موت بھی سانحہ ہے مگر ایسے شخص کی مرگ سانحے سے کہیں بڑھ کر ہے جس نے اپنی تخلیقی، ذہنی صلاحیتوں کی مدد سے پورے عہد کو متاثر کیا ہو اور جس کی ہستی ایک ادارے اور تہذیب کے مرتبے کو پہنچ گئی ہو۔ فاروقی صاحب ایسے ہی شخص تھے، حقیقی معنوں میں بڑے اور عہد ساز ادیب۔ (ناصر عباس نیر)

مجھے ان کے انتقال کی روح فرسا خبر جب ملی تو مجھے یوں لگا کہ جیسے میرے ہاں نقب لگی ہے اور کوئی میرے گھر کا صفایا ہی کر گیا ہے۔ یہاں تک کہ میں اس کی کہیں رپٹ بھی درج نہیں کروا سکتا۔ سینکڑے کی دہائی میں داخل ہو چکا ہوں۔ حافظے کی تختی سے بہت کچھ محو ہو چکا ہے۔ کچھ یادیں باقی رہ گئیں ہیں، دھندلی اور نامکمل۔ میرا ان کے ساتھ تعلق کم و بیش نصف صدی کو محیط ہے۔ مجھے ان کے جریدے "شب خون" نے بھارت میں متعارف اور پروموٹ کیا ورنہ وہاں مجھے کوئی نہیں جانتا تھا۔ اس نابغۂ روزگار ہستی کے کمالات اور کنٹری بیوشن کیا تھے، یہ بتانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ ساری دنیا جانتی ہے۔ وہ ایک لیجنڈ ایک فینامینا تھے۔ جدید اردو ادب کے لیے ان کی خدمات رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ یہ رسمی جملے ہیں، ان کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ (ظفر اقبال)