وامق جونپوری کا تعارف اور منتخب کلام

وامق جونپوری کا تعارف اور منتخب کلام

وامقؔ جونپوری کا پورا نام سید احمد مجتبی زیدی ہے۔ وہ زیدی النسب سیدوں کے ایک ممتاز گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے بزرگوار زمیندار تھے۔  وامقؔ غزل اور نظم میں یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں کا جمال اور نظموں کا جلال ان کے سکہء فن کے دو رُخ ہیں۔ 

شعر کی تہہ داری وامقؔ کا خاص فن ہے اور ان تہوں تک پہنچنے کے لیے فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔ 

وامق کا کلام تغزل اور جمالیاتی حسن سے بھی رنگا رنگ ہے۔ وہ اپنے محبوبِ انقلاب سے غزل کے پردوں میں بھی کبھی کبھی باتیں کرتے ہیں۔ وامقؔ ایک گرم مزاج اور جرات مند شخصیت کا نام ہے اور یہ شخصیت ان کے کلام کی رگ و پے میں خون کی طرح دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کے ڈکشن اور اسلوب میں بڑی انفرادیت ہے۔ 

وامقؔ کو اگر ایک عظیم شاعر، مفکر اور فلسفی کی حیثیت سے پرکھنا ہو تو اُن کی نظم "وقت" کا غائر مطالعہ کیجیے۔ 

1-
دیارِ شوق نگاہوں سے دو قدم بھی نہیں
مگر یہ فاصلہء چند گام کم بھی نہیں

2-
ضبطِ غم آج بہت کام آیا
ہنس دیے ہم جو ترا نام آیا

3-
دیکھیے آج گزرتی ہے مری شام کہاں
گردشِ جام کہاں گردشِ ایام کہاں

4-
حسرتوں کا ہمیں نہ پُرسہ دو
ہم نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے

5-
دل مغموم کے قصے بہت پُر درد ہیں وامقؔ
مگر اس دور میں اپنا فسانہ کون کہتا ہے

6-
آہن نہیں کہ چاہیے جب موڑ دیجیے
شیشہ ہوں مُڑ تو سکتا نہیں توڑ دیجیے

7-
نالہ کرنا مرا دستور نہیں
آسماں ورنہ بہت دور نہیں

زندگی جن کو میسر نہیں آج
ان کو مرنا بھی تو منظور نہیں

8-
بدلتی ہیں قدریں برنگ زمانہ
فسانہ حقیقت، حقیقت فسانہ

9-
پی لیا کرتے ہیں جینے کی تمنا میں کبھی
ڈگمگانا بھی ضروری ہے سنبھلنے کے لیے

ہر تغیر کے لیے قدر نئی بنتی ہے
دل بدل جاتے ہیں معیار بدلنے کے لیے

10-
جب مرا ذکر آ گیا سرِ بزم
آپ نے کس لیے جھکا لی نگاہ

کس کی باری ہے آج مقتل میں
لیجیے نام میرا بسم اللہ

11-
ہمارے ضبط کا یارا بھلا کسے معلوم
ہمیں تو ہیں جو محبت کی تاب لائے ہیں

12-
رات بھی مرجھا چلی چاند بھی کمہلا گیا
پھر بھی ترا انتظار دیکھیے کب تک رہے

13-
نہ پوچھو بے بسی اُس تشنہ لَب کی
کہ جس کی دسترس میں جام بھی ہے

14-
نگاہوں کا تصادم کس نے دیکھا
مگر یہ راز طشت از بام بھی ہے

15-
اے چارہ گرو بولو کیا نام ہے اس غم کا
دل جب بھی سنبھلتا ہے آرام نہیں ہوتا

16-
میخانے کو ہم چھوڑ کے کعبہ سے گزرتے
وہ راہ مگر کہتے ہیں سنسان بہت ہے

17-
ہوتے رہے ہم قتل ترے کوچہ میں اکثر
لیکن ترے کشتوں میں ابھی جان بہت ہے


18-
تقصیر کیا ہے حسرتِ دیدار ہی تو ہے
پاداش اس کی حسن کا پندار ہی تو ہے

19-
بندِ قبا چٹکتا ہوا غنچہء گلاب
پہلوئے یار نکہتِ گلزار ہی تو ہے

20-
اس دور کی تخلیق بھی کیا شیشہ گری ہے
ہر آئینہ میں آدمی اُلٹا نظر آئے

21-
بڑھتے رہے سرابوں پہ مانندِ تشنگی
پانی ملا تو خشک شجر ہو کے رہ گئے

22-
شعورِ حسن ہے مضمر جحاب میں وامقؔ
برہنہ چہروں سے بے چہرگی نہیں جاتی

23-
آؤ علاجِ تلخیِ کام و گلو کریں
کچھ دیر شغلِ جام رہے گفتگو کریں

23-
کچھ فیصلہ نہ ہو سکا اب کی بہار میں
دامن کو تار تار کریں یا رفو کریں

24-
کہہ رہا ہوں زباں نہ کھلواؤ
بات کے زخم کی دوا ہی نہیں

25-
جو ہنسا وہ ہنسا گیا وامقؔ
یہ مقولہ غلط ہوا ہی نہیں

26-
بہانہ ساز خرد کو جنوں کو یار کہو
حبابِ سنگ کو شیشے کو سخت تر جانو

27-
اُلٹ کے جام بات سن
پلٹ رہی ہے رات سن

28-
شوقِ سامانی میں گرتے نہیں معیار سے ہم
بارہا رقص کُناں گزرے ہیں بازار سے ہم

دوپہر ہو گی تو خس خانے کو دیکھیں گے ترے
ابھی تو خوش ہیں بہت سایہء دیوار سے ہم

29-
ہم کہ بہت بے تیغ لڑے ہیں
اب بھر مگر مقتل میں کھڑے ہیں

Ad blocker detected!

We have detected that you are using adblocking plugin in your browser.
The revenue we earn by the advertisements is used to manage this website, we request you to whitelist our website in your adblocking plugin.