اور ڈان بہتا رہا از میخائل شولوخوف مترجم مخمور جالندھری
ہماری کھیتوں کی یہ زر افشانی، یہ شادابی ــــ نہیں ہونہی
جواں اور تُند گھوڑوں کے سموں سے ہل چلے ـــ ان پر
یہاں بوئی گئیں پہیم
وطن پر مرنے والوں کے مقدس خون کی بُوندیں
یہ لہریں، اپنے پیارے ڈان کی یہ جھومتی لہریں ــــــ نہیں یونہی
جوان بیواؤں کی دلدوز آہیں گھل چکیں ـــــ ان میں
لبِ دریا یہ گل بوٹے
یہ محفل، رنگ و ریشم کی، یتیموں کی اُمنگیں تھیں
ہمارے ڈان کی ان جگمگاتی، نرم لہروں میں
کسی ماضی کے خونیں آنسوؤں کی جھلملاہٹ ہے
وہ آنسو، قیمتی آنسو
جو غمگیں ماؤں کی ناشاد آنکھوں نے بہائے تھے
جو بوڑھے، غمزدہ باپوں کی پلکوں پر در آئے تھے
مقدس ڈان! ـــــــــــــــ تو بہتے ہوئے کیوں تلملاتا ہے؟
مری رفتا میں یہ تلملاہٹ کیوں نہ ہو ہمدم!
کہ میری روح میں پوشیدہ ہیں وہ سرد تر چشمے
جہاں قربانیوں کی سیمیائی مچھلیاں پیہم
عمل کی بجلیاں بن کر پیا پے رقص کرتی ہیں
(ایک پرانا کاسک گیت)
Tags:
مخمود جالندھری