کئی چاند تھے سر آسمان ایک تجزیاتی مطالعہ

کئی چاند تھے سر آسمان ایک تجزیاتی مطالعہ
شمس الرحٰمن فاروقی کا ناول "کئی چاند تھے سر آسماں" مٹتی ہوئی مغل تہذیب و ثقافت کے بعض نایاب و زندہ نقوش کو جن میں اعلیٰ طبقۂ اشرافیہ کے Romance کو مرکزیت حاصل ہے، تخلیقی صورت میں باز آفرینی کے ذریعے منصۂ شہود پر لانا چاہتی ہے۔ 
فاروقی صاصب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دو تین صدیوں پر پھیلے ہوئے ان شکستہ آئینوں کی کرچیوں کو جس تخلیقی و فنی صلابت اور اختراعی بصیرت سے جوڑنے کی کوشش کی ہے اس کے باعث یہ کارنامہ فکشن ہو کر بھی تاریخی دستاویز بن گیا ہے۔ اِس اعلٰی فن کارانہ کارگزاری کی ایک جہت جو بے حد قابلِ توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کے مرکزی کردار (Protagonist) وزیر خانم کی حیثیت ناول میں ایک ایسے سیر بین (Kaleidoscope) کی بن گئی ہے جس کے گرد گزشتہ ادوار کی تمام تر زندگی معہ اپنی ادنٰی جزیات کے وقفہ وقفہ سے ڈرامائی انداز سے نئے نئے مناظر کی صورت میں اپنی جھلک دکھلاتی ہے، جس میں معاشرتی، سیاسی، اقتصادی، ادبی اور مذہبی زندگی کے بے شمار مظاہر واقعات و حادثات کے ماسوا، کرداروں کی نفسیاتی، جذباتی اور ذہنی زندگی کی کشمکش کا عکس بھی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہاں التباس اور حقیقت میں باہم آمیزش اس قدر دل فریب ہے کہ ہم اس کے سحر سے ناول کے اختتام تک بھی خود کو آزاد نہیں کر پاتے۔