انتخاب از کلیاتِ ناصر کاظمی (حصہ دوم)

انتخاب از کلیاتِ ناصر کاظمی (حصہ دوم)
85
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے

86
مسلسل بے کلی دل کو رہی ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے

میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سور رہی ہے

چلے دل سے امیدوں کے مسافر
یہ نگری آج خالی ہو رہی ہے

نہ سمجھو تم اسے شور ِبہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کے رو رہی ہے

ہمارے گھر کی دیواروں پر ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے

انتخاب از کلیاتِ ناصر کاظمی (حصہ اول)

87
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے

کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے وہ کل مٹ جائے گا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے

کل یہ تاب و تواں نہ رہے گی ٹھنڈا ہو جائے گا لہو
نامِ خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے

کیا جانے کیا رت بدلے حالات کا کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصرؔ گھر میں رہو تو بہتر ہے

88
اپنی دھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں

او پچھلی رت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں

تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں

مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں

میرا دیا جلائے کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں

تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں

آتی رت مجھے روئے گی
جاتی رت کا جھونکا ہوں

اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں

89
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاوں کا پانی

یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں‌کی زبانی

یہاں اک شہر تھا شہرِ نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی

میں وہ دل ہوں دبستانِ الم کا
جسے روئے گی صدیوں شادمانی

تصور نے اُسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی

خیالوں ہی میں‌اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی

ہجومِ نشّۂ فکرِ سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی

بتا اے ظلمتِ صحرائے امکاں
کہاں ہوگا مرے خوابوں‌کا ثانی

اندھیری شام کے پردوں میں‌ چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی

کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی

پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اُڑے جائے ہیں اوراقِ خزانی

نئی دنیا کے ہنگاموں میں‌ ناصر
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
90
رہ نوردِ بیابانِ غم صبر کر صبر کر
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر

بے نشاں ہے سفر رات ساری پڑی ہے مگر
آرہی ہے صدا دم بدم صبر کر صبر کر

تیری فریاد گونجے گی دھرتی سے آکاش تک
کوئی دن اور سہہ لے ستم صبر کر صبر کر

تیرے قدموں سے جاگیں گے اُجڑے دلوں کے ختن
پا شکستہ غزالِ حرم صبر کر صبر کر

شہر اجڑے تو کیا ہے کشادہ زمینِ خدا
اک نیا گھر بنائیں گے ہم صبر کر صبر کر

یہ محلاّتِ شاہی تباہی کے ہیں منتظر
گرنے والے ہیں ان کے علم صبر کر صبر

دف بجائیں گے برگ و شجر صف بہ صف ہر طرف
خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر

لہلہا ئیں گی پھر کھیتیاں کارواں کارواں
کھل کے برسے گا ابر کرم صبر کر صبر کر

کیوں پٹکتا ہے سر سنگ سے جی جلا ڈھنگ سے
دل ہی بن جائے گا خود صنم صبر کر صبر کر

پہلے کھل جائے دل کا کنول پھر لکھیں گے غزل
کوئی دم اے صریر قلم صبر کر صبر کر

درد کے تار ملنے تو دے ہونٹ ہلنے تو دے
ساری باتیں کریں گے رقم صبر کر صبر کر

دیکھ ناصرؔ زمانے میں کوئی کسی کا نہیں
بھول جا اُس کے قول و قسم صبر کر صبر کر

91
دکھ کی لہر نے چھیڑا ہوگا
یاد نے کنکر پھینکا ہوگا

آج تو میرا دل کہتا ہے
تو اس وقت اکیلا ہوگا

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے
اوروں کو خط لکھتا ہوگا

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں
تو اب تھک کے سویا ہوگا

ریل کی گہری سیٹی سن کر
رات کا جنگل گونجا ہوگا
شہر کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہوگا

آنگن میں پھر چڑیاں بولیں
تو اب سو کر اٹھا ہوگا

یادوں کی جلتی شبنم سے
پھول سا مکھڑا دھویا ہوگا
موتی جیسی شکل بنا کر
آئینے کو تکتا ہوگا

شام ہوئی اب تو بھی شاید
اپنے گھر کو لوٹا ہوگا

نیلی دھندلی خاموشی میں
تاروں کی دھن سنتا ہوگا

میرا ساتھی شام کا تارا
تجھ سے آنکھ ملاتا ہوگا

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو
میرا سلام تو بھیجا ہوگا

پیاسی کرلاتی کونجوں نے
میرا دکھ تو سنایا ہوگا

میں تو آج بہت رویا ہوں
تو بھی شاید رویا ہوگا

ناصرؔ تیرا میت پرانا
تجھ کو یاد تو آتا ہوگا

92
گل نہیں مے نہیں پیالہ نہیں
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں

فرصتِ شوق بن گئی دیوار
اب کہیں بھاگنے کا رستہ نہیں

ہوش کی تلخیاں مٹیں کیسے
جتنی پیتا ہوں اتنا نشّہ نہیں

دل کی گہرائیوں میں ڈوب کے دیکھ
کوئی نغمہ خوشی کا نغمہ نہیں

غم بہر رنگ دل کشا ہے مگر
سننے والوں کو تابِ نالہ نہیں

مجھ سے کہتی ہے موجِ صبح نشاط
پھول خیمہ ہے پیش خیمہ نہیں

ابھی وہ رنگ دِل میں پیچاں ہیں
جنہیں آواز سے علاقہ نہیں

ابھی وہ دشت منتظر ہیں مرے
جن پہ تحریر پائے ناقہ نہیں

یہ اندھیرے سلگ بھی سکتے ہیں
تیرے دل میں مگر وہ شعلہ نہیں

راکھ کا ڈھیر ہے وہ دل ناصر
جس کی دھڑکن صدائے تیشہ نہیں

93
اس سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
بھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے

یہ ٹھٹھری ہوئی لمبی راتیں کچھ کہتی ہیں
یہ خاموشی، آواز نما کچھ کہتی ہے

سب اپنے گھر وں میں لمبی تان کے سوئے ہیں
اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے

جب صبح کو چڑیاں باری باری بولتی ہیں
کوئی نامانوس اداس نوا کچھ کہتی ہے

جب رات کو تارے باری باری جاگتے ہیں
کئی ڈوبے ہوئے تاروں کی ندا کچھ کہتی ہے

کبھی بھور بھئے کبھی شام پڑے کبھی رات گئے
ہر آن بدلتی رت کی ہوا کچھ کہتی ہے

مہمان ہیں ہم مہمان سرائے یہ نگری
مہمانوں کو مہمان سرا کچھ کہتی ہے

بیدار رہو بیدار رہو بیدار رہو
اے ہم سفر و آوازِ ردا کچھ کہتی ہے

ناصر آشوبِ زمانہ سے غافل نہ رہو
کچھ ہوتا ہے جب خلقِ خدا کچھ کہتی ہے

94
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتاتھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل

95
جب ذرا تیز ہوا ہوتی ہے
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے

ہم نے دیکھے ہیں وہ سنّاٹے بھی
جب ہر اک سانس صدا ہوتی ہے

دل کا یہ حال ہوا تیرے بعد
جیسے ویران سرا ہوتی ہے

رونا آتا ہے ہمیں بھی لیکن
اس میں توہینِ وفا ہوتی ہے

منہ اندھیرے کبھی اُٹھ کردیکھو
کیا تروتازہ ہوا ہوتی ہے

اجنبی دھیان کی ہر موج کے ساتھ
کس قدر تیز ہوا ہوتی ہے

غم کی بے نور گزر گاہوں میں
اک کرن ذوق فزا ہوتی ہے

غمگسارِ سفرِ راہِ وفا
مژۂ آبلہ پا ہوتی ہے

گلشنِ فکر کی منہ بند کلی
شبِ مہتاب میں وا ہوتی ہے

جب نکلتی ہے نگارِ شبِ غم
منہ پہ شبنم کی ردا ہوتی ہے

حادثہ ہے کہ خزاں سے پہلے
بوئے گل ، گل سے جدا ہوتی ہے

اک نیا دور جنم لیتا ہے
ایک تہذیب فنا ہوتی ہے

جب کوئی غم نہیں‌ہوتا ناصر
بے کلی دل کی سوا ہوتی ہے

96
شہر سنسان ہے کدھر جائیں
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں

رات کتنی گزر گئی لیکن
اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں

یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں
جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں

اُن اجالوں کی دھن میں ‌پھرتا ہوں
چھب دکھاتے ہی جو گزر جائیں

رین اندھیری ہے اور کنارہ دور
چاند نکلے تو پار اتر جائیں

97
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریکِ سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آرہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر کی رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

98
اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں‌تازگی

بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی

وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

میٹھے تھے جن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی

بازار بند راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں ‌کوئی

گلیوں میں‌ اب تو شام سے پھرتے ہیں‌ پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی

اے روشنئ دیدہ و دل اب نظر بھی آ
دنیا ترے فراق میں ‌اندھیر ہو گئی

القصّہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو ابتدائے غم میں ‌بڑی احتیاط کی

اب جی میں ہے کہ سر کسی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری

بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی

ناصرؔ بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاوں وہ بے فکر زندگی

99-
پھول خوشبو سے جدا ہے اب کے
یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے

دوست بچھڑے ہیں کئی بار مگر
یہ نیا داغ کھلا ہے اب کے

پتّیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں
قتلِ گل عام ہوا ہے اب کے

شفقی ہو گئی دیوارِ خیال
کس قدر خون بہا ہے اب کے

منظرِ زخمِ وفا کس کو دکھائیں
شہر میں قحطِ وفا ہے اب کے

وہ تو پھر غیر تھے لیکن یارو
کام اپنوں سے پڑا ہے اب کے

کیا سنیں شورِ بہاراں ناصر
ہم نے کچھ اور سنا ہے اب کے

100
دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی

آج کھلنے ہی کو تھا دردِ محبت کا بھرم
وہ تو کہیے کہ اچانک ہی تری یاد آئی

نشۂ تلخئِ ایّام اترتا ہی نہیں
تیری نظروں نے گلابی تو بہت چھلکائی

یوں تو ہر شخص اکیلا ہے بھری دنیا میں
پھر بھی ہر دل کے مقدّر میں نہیں تنہائی

یوں تو ملنے کو وہ ہر روز ہی ملتا ہے مگر
دیکھ کر آج اُسے آنکھ بہت للچائی

ڈوبتے چاند پہ روئی ہیں ہزاروں آنکھیں
میں تو رویا بھی نہیں تم کو ہنسی کیوں آئی

رات بھر جاگتے رہتے ہو بھلا کیوں ناصر
تم نے یہ دولتِ بیدار کہاں سے پائی
101
سرِ مقتل بھی صدا دی ہم نے
دل کی آواز سنا دی ہم نے

پہلے اک روزنِ در توڑا تھا
اب کے بنیاد ہلا دی ہم نے

پھر سر صبح وہ قصہ چھیٹرا
دن کی قندیل بجھا دی ہم نے

آتش غم کے شرارے چن کر
آگ زنداں میں لگا دی ہم نے

رہ گئے دستِ صبا کمھلا کر
پھول کو آگ پلا دی ہم نے

آتش گل ہو کہ ہو شعلۂ ساز
جلنے والوں کو ہوا دی ہم نے

کتنے ادوار کی گم گشتہ نوا
سینۂ نے میں چھپا دی ہم نے

دم مہتاب فشاں سے ناصر
آج تو رات جگا دی ہم نے

102-
دھوپ نکلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے

کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل
ٹہنیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

اس قدر رویا ہوں‌ تیری یاد میں
آئینے آنکھوں کے دھندلے ہو گئے

ہم بھلا چپ رہنے والے تھے کہیں
ہاں مگر حالات ایسے ہو گئے

اب تو خوش ہو جائیں اربابِ ہوس
جیسے وہ تھے ہم بھی ویسے ہو گئے

حسن اب ہنگامہ آرا ہو تو ہو
عشق کے دعوے تو جھوٹے ہو گئے

اے سکوتِ شامِ غم یہ کیا ہوا
کیا وہ سب بیمار اچھے ہو گئے

دل کو تیرے غم نے پھر آواز دی
کب کے بچھڑے پھر اکھٹے ہو گئے

آو ناصرؔ ہم بھی اپنے گھر چلیں
بند اس گھر کے دریچے ہو گئے

103-
تو اسیر بزم ہے ہم سخن تجھے ذوقِ نالۂ نے نہیں
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں

ترا ہر کمال ہے ظاہری ترا ہر خیال ہے سرسری
کوئی دل کی بات کروں تو کیا ترے دل میں آگ تو ہے نہیں

جسے سن کے روح مہک اٹھے جسے پی کے درد چہک اٹھے
ترے ساز میں وہ صدا نہیں ترے میکدے میں وہ مے نہیں

کہاں اب وہ موسمِ رنگ و بو کہ رگوں میں بول اٹھے لہو
یونہی ناگوار چبھن سی ہے کہ جو شاملِ رگ و پے نہیں

ترا دل ہو درد سے آشنا تو یہ نالہ غور سے سن ذرا
بڑا جاں گسل ہے یہ واقعہ یہ فسانۂ جم و کےَ نہیں

میں ہوں ایک شاعرِ بے نوا مجھے کون چاہے مرے سوا
میں امیرِ شام و عجم نہیں میں کبیر کوفہ و رَے نہیں

یہی شعر ہیں مری سلطنت اسی فن میں ہے مجھے عافیت
مرے کاسۂ شب وروز میں ترے کام کی کوئی شے نہیں

104-
آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی

آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی

105-
جب تک نہ لہو دیدۂ انجم میں ٹپک لے
اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے

ذرّے ہیں ہوس کے بھی زرِنابِ وفا میں
ہاں جنسِ وفا کو بھی ذرا چھان پھٹک لے

پھر دیکھنا اُس کے لبِ لعلیں کی ادائیں
یہ آتشِ خاموش ذرا اور دہک لے

گونگا ہے تو لب بستوں سے آدابِ سخن سیکھ
اندھا ہے تو ہم ظلم رسیدوں سے چمک لے

ناصرؔ سے کہے کون کہ اللہ کے بندے
باقی ہے ابھی رات ذرا آنکھ جھپک لے

106-
پھر نئی فصل کے عنواں چمکے
ابر گر جا گلِ باراں چمکے

آنکھ جھپکوں تو شرارے برسیں
سانس کھینچوں تو رگِ جاں چمکے

کیا بگڑ جائے گا اے صبحِ جمال
آج اگر شامِ غریباں چمکے

اے فلک بھیج کوئی برقِ خیال
کچھ تو شامِ شب ہجراں چمکے

پھر کوئی دل کو دکھائے ناصر
کاش یہ گھر کسی عنواں چمکے

107
زندگی بھر وفا ہمیں سے ہوئی
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی

دل نے ہر داغ کو رکھا محفوظ
یہ زمیں خوشنما ہمیں سے ہوئی

ہم سے پہلے زمینِ شہرِ وفا
خاک تھی کیمیا ہمیں سے ہوئی
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمیں سے ہوئی

کون اٹھاتا شبِ فراق کے ناز
یہ بلا آشنا ہمیں سے ہوئی

بے غرض کون گنواتا ہے
تیری قیمت ادا ہمیں سے ہوئی

ستمِ ناروا تجھی سے ہوا
تیرے حق میں دعا ہمیں سی ہوئی

سعئِ تجدید دوستی ناصر
آج کیا بارہا ہمیں سے ہوئی

108
بدلی نہ اس کی روح کسی انقلاب میں
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں

لفظوں میں بولتا ہے رگِ عصر کا لہو
لکھتا ہے دستِ غیب کوئی اس کتاب میں

تو ڈھونڈتی ہے اب کسے اے شامِ زندگی
دو دن تو خرچ ہو گئے غم کے حساب میں

یارانِ زُود نشّہ کا عالم یہ ہے کہ آج
یہ رات ڈوب جائے گی جامِ شراب میں

نیندیں بھٹکتی پھرتی ہیں گلیوں میں ساری رات
یہ شہر چھپ کے رات کو سوتا ہے آب میں

یہ آج راہ بھول کے آئے کدھر سے آپ
یہ خواب میں نے رات ہی دیکھا تھا خواب میں

109
موسمِ گلزارِ ہستی ان دنوں کیا ہے نہ پوچھ
تو نے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ

ہاتھ زخمی ہیں تو پلکوں سے گلِ منظر اٹھا
پھول تیرے ہیں نہ میرے باغ کس کا ہے نہ پوچھ

رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا
قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ

جوترا محرم ملا اس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتہ کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ

110
تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں

خلوص و مہر وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں

یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں

ہر آدمی نہیں شائستۂ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں

جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زندگی حرام کریں

خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشیوں کا انتظام کریں

رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصر
متاعِ درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
111
اس دنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

یوں تو شبنم بھی دریا ہے
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے

یوں تو ہر ہیرا بھی کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے

منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے

تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اس شہر میں کیا رکھا ہے

بات نہ کر صورت تو دکھادے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے

دھیان کے آتش دان میں ناصر
بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے

112
تو ہے یا تیرا سایا ہے
بھیس خدائی نے بدلا ہے

دل کی حویلی پر مدت سے
خاموشی کا قفل پڑا ہے

چیخ رہے ہیں خالی کمرے
شام سے کتنی تیز ہوا ہے

دروازے سر پھوڑ رہے ہیں
کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے

تنہائی کو کیسے چھوڑوں
برسوں میں ایک یار ملا ہے

رات اندھیری ناو ساتھی
رستے میں دریا پڑتا ہے

ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصر
آج کسی نے یاد کیا ہے

113-
دل کے لیے درد بھی روز نیا چاہیئے
زندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیئے

میری نوائیں الگ، میری دعائیں الگ
میرے لیے آشیاں سب سے جدا چاہیے

نرم ہے برگِ سمن، گرم ہے میرا سخن
میری غزل کے لیے ظرف نیا چاہیے

سر نہ کھپا اے جرس، مجھ کو مرا دل ہے بس
فرصتِ یک دو نفس مثلِ صبا چاہیے

باغ ترا باغباں، تو ہے عبث بدگماں
مجھ کو تو اے مہرباں ، تھوڑی سی جا چاہیئے

خوب ہیں گل پھول بھی تیرے چمن میں مگر
صحن ِ چمن میں کوئی نغمہ سرا چاہیے

ہے یہی عینِ وفا دل نہ کسی کا دکھا
اپنے بھلے کے لیے سب کا بھلا چاہیئے

بیٹھے ہو کیوں ہار کے سائے میں دیوار کے
شاعرو، صورت گرو کچھ تو کیا چاہیے

مانو مری کاظمی تم ہو بھلے آدمی
پھر وہی آوارگی کچھ تو حیا چاہیے
۔۔۔۔۔۔۔


114
شعلہ سا پیچ وتاب میں دیکھا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا

گل کدوں کے طلسم بھول گئے
وہ تماشا نقاب میں دیکھا

آج ہم نے تمام حسنِ بہار
ایک برگِ گلاب میں دیکھا

سر کھلے، پابرہنہ، کھوٹے پر
رات اُسے ماہتاب میں دیکھا

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب، خواب میں دیکھا

115
جو گفتنی نہیں وہ بات بھی سنادوں گا
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹادوں گا

مجال کیا، کوئی مجھ سے تجھے جدا کر دے
جہاں بھی جائے گا تو میں تجھے صدا دوں گا

تری گلی میں بہت دیر سے کھڑا ہوں مگر
کسی نے پوچھ لیا تو جواب کیا دوں گا

مری خموش نگاہوں کو چشم کم سے نہ دیکھ
میں رو پڑا تو دلوں کے طبق ہلا دوں گا

یونہی اداس رہا میں تو دیکھنا اک دن
تمام شہر میں تنہائیاں بچھا دوں گا

بہ پاس صحبتِ دیرینہ کوئی بات ہی کر
نظر ملا تو سہی میں تجھے دعا دوں گا

بلاؤں گا نہ ملوں گا نہ خط لکھوں گا تجھے
تری خوشی کے لیے خود کو یہ سزا دوں گا

وہ درد ہی نہ رہا ورنہ اے متاعِ حیات
مجھے گماں بھی نہ تھا میں تجھے بھلا دوں گا

ابھی تو رات ہے کچھ دیر سو ہی لے ناصر
کوئی بلائے گا تو میں تجھے جگا دوں گا

116
درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

اڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھو ل ہے

اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھو ل ہے

تختۂ ریگ پر کوئی دیکھے اسے
سانپ کے زہر میں رس ہے، پھن پھول ہے

میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دمن
میرے گیتوں کا دیوانہ پن پھول ہے

117
تجھے کہنا ہے کچھ مگر خاموش
دیکھ اور دیکھ کے گزر خاموش

یوں ترے راستے میں‌ بیٹھا ہوں
جیسے اک شمعِ رہگزر خاموش

تو جہاں ایک بار آیا تھا
ایک مدت سے ہے وہ گھر خاموش

اس گلی کے گزرنے والوں کو
تکتے رہتے ہیں بام و در خاموش

اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش

یہ زمیں کس کے انتظار میں ہے
کیا خبر کیوں ہے یہ نگر خاموش

شہر سوتا ہے رات جاگتی ہے
کوئی طوفاں ہے پردہ در خاموش

اب کے بیڑا گزر گیا تو کیا
ہیں ابھی کتنے ہی بھنور خاموش

چڑھتے دریا کا ڈر نہیں یارو
میں ہوں ساحل کو دیکھ کر خاموش

ابھی وہ قافلے نہیں آئے
ابھی بیٹھیں نہ ہم سفر خاموش

ہر نفس اک پیام تھا ناصر
ہم ہی بیٹھے رہے مگر خاموش

118
چھپ جاتی ہیں آئینہ دکھا کر تری یادیں
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تیری یادیں

تو جیسے مرے پاس ہے اور محوِ سخن ہے
محفل سی جما دیتی ہیں اکثر تیری یادیں

میں کیوں نہ پھروں تپتی دوپہروں میں ہراساں
پھرتی ہیں تصوّر میں کھُلے سر تری یادیں

جب تیز ہوا چلتی ہے بستی میں سرِ شام
برساتی ہیں اطراف سے پتھر تیری یادی

119
رات ڈھل رہی ہے
ناؤ چل رہی ہے

برف کے نگر میں
آگ جل رہی ہے

لوگ سو رہے ہیں
رت بدل رہی ہے

آج تو یہ دھرتی
خوں اگل رہی ہے

خواہشوں کی ڈالی
ہاتھ مل رہی ہے

جاہلوں کی کھیتی
پھول پھل رہی ہے

120
میں ہوں رات کا ایک بجا ہے
خالی رستہ بول رہا ہے

آج تو یوں خاموش ہے دنیا
جیسے کچھ ہونے والا ہے

کیسی اندھیری رات ہے دیکھو
اپنے آپ سے ڈر لگتا ہے

آج تو شہر کی روش روش پر
پتوں کا میلہ سا لگا ہے

آو گھاس پہ سبھا جمائیں
میخانہ تو بند پڑا ہے

پھول تو سارے جھڑ گئے لیکن
تیری یاد کا زخم ہرا ہے

تو نے جتنا پیار کیاتھا
دکھ بھی مجھے اتنا ہی دیا ہے

یہ بھی ہے ایک طرح کی محبت
میں تجھ سے تو مجھ سے جدا ہے

یہ تری منزل وہ مرا رستہ
تیرا میرا ساتھ ہی کیا ہے

میں نے تو اک بات کہی تھی
کیا تو سچ مچ روٹھ گیا ہے

ایسا گاہک کون ہے جس نے
سکھ دے کر دکھ مول لیا ہے

تیرا رستہ تکتے تکتے
کھیت گگن کا سوکھ چلا ہے

کھڑکی کھول کے دیکھ تو باہر
دیر سے کوئی شخص کھڑا ہے

ساری بستی سو گئی ناصر
تو اب تک کیوں جاگ رہا ہے
122
گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آگئی درختوں میں

چاند نکلا افق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں

مینہہ برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں

یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں

ہم ادھر گھر میں ہو گئے بے چین
دور آندھی چلی درختوں میں

لیے جاتے ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجبنی درختوں میں

کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور
جاکے دیکھو کبھی درختوں میں

نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں

خوشبوؤں کی اداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں

دیر تک اُس کی تیز آنکھوں میں
روشنی سی رہی درختوں میں

چلتے چلتے ڈگر اجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں

سہمے سہمے تھے رات اہل چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں

123
کہیں اجڑی اجڑی سی منزلیں کہیں ٹوٹے پھوٹے سے بام و در
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر

میں بھٹکتا پھرتا ہوں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا مرا قافلہ کہاں رہ گئے مرے ہم سفر

جنہیں زندگی کا شعور تھا انہیں بے زری نے بچھا دیا
جو گراں تھے سینۂ چاک پر وہی بن کے بیٹھے ہیں معتبر

مری بیکسی کا نہ غم کرو مگر اپنا فائدہ سوچ لو
تمہیں جس کی چھاؤں عزیز ہے میں اُسی درخت کا ہوں ثمر

یہ بجا ہے آج اندھیرا ہے ذرا رت بدلنے کی دیر ہے
جو خزاں کے خوف سے خشک ہے وہی شاخ لائے گی برگ وبر

124
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے

جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سوجاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے

کردیا آج زمانے نے انہیں بھی مجبور
کبھی یہ لوگ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے

دیکھ کر جو ہمیں چپ چاپ گزر جاتا ہے
کبھی اُس شخص کو ہم پیار کیا کرتے تھے

اتفاقاتِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے

125
دل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا درد چھپا رکھا ہے

اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دیپ جلا رکھا ہے

دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے

اس نگری کے کچھ لوگوں نے
دکھ کا نام دوا رکھا ہے

وعدۂ یار کی بات نہ چھیڑو
یہ دھوکا بھی کھا رکھا ہے

بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے

چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے

126
چہرہ افروز ہوئی پہلی جھڑی ہم نفسو شکر کرو
دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو

آو پھر یادِ عزیزاں ہی سے میخانۂ جاں گرم کریں
دیر کے بعد یہ محفل تو جمی ہم نفسو شکر کرو

آج پھر دیر کی سوئی ہوئی ندی میں نئی لہر آئی
دیر کے بعد کوئی ناؤ چلی ہم نفسو شکر کرو

رات بھر شہر میں بجلی سی چمکتی رہی ہم سوئے رہے
وہ تو کہیے کہ بلا سر سے ٹلی ہم نفسو شکر کرو

درد کی شاخِ تہی کاسہ میں اشکوں کے نئے پھول کھلے
دل جلی شام نے پھر مانگ بھری ہم نفسو شکر کرو

آسماں لالۂ خونیں کی نواؤں سے جگر چاک ہوا
قصرِ بیدار کی دیوار گری ہم نفسو شکر کرو

127
حسن کہتا ہے اک نظر دیکھو
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو

سن کے طاؤس رنگ کی جھنکار
ابر اٹھا ہے جھوم کر دیکھو

پھول کو پھول کا نشاں جانو
چاند کو چاند سے ادھر دیکھو

جلوۂ رنگ بھی ہے اک آواز
شاخ سے پھول توڑ کردیکھو

جی جلاتی ہے اوس غربت میں
پاؤں جلتے ہیں گھاس پر دیکھو

جھوٹی امید کا فریب نہ کھاؤ
رات کالی ہے کس قدر دیکھو

نیند آتی نہیں تو صبح تلک
گردِ مہتا ب کا سفر دیکھو

اک کرن جھانک کر یہ کہتی ہے
سونے والو ذرا ادھر دیکھو

خمِ ہر لفظ ہے گلِ معنی
اہل تحریر کا ہنر دیکھو

128
ایسا بھی کوئی سپنا جاگے
ساتھ مرے اک دنیا جاگے

وہ جاگے جِسے نیند نہ آئے
یا کوئی میرے جیسا جاگے

ہوا چلی تو جاگے جنگل
ناؤ چلے تو ندیا جاگے

راتوں میں یہ رات امر ہے
کل جاگے تو پھر کیا جاگے

داتا کی نگری میں ناصر
میں جاگوں یا داتا جاگے

129
ہنستے گاتے روتے پھول
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول

اور بہت کیا کرنے ہیں
کافی ہیں یہ تھوڑے پھول

وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں ہیں ایسے پھول

اس دھرتی کی رونق ہیں
میرے کانٹے تیرے پھول

کسیے اندھے ہیں وہ ہاتھ
جن ہاتھوں نے توڑے پھول

اُن پیاسوں پر میرا سلام
جن کی خاک سے نکلے پھول

ایک ہری کونپل کے لیے
میں نےچھوڑے کتنے پھول

اونچے اونچے لمبے پیڑ
سادے پتے پیلے پھول

مٹی ہی سے نکلے تھے
مٹی ہو گئے سارے پھول

مٹی کی خوشبو لینے
نیل گگن سے اترے پھول

چادر اوڑھ کے شبنم کی
نکلے آنکھوں ملتے پھول

شام ہوئی اب گلیوں میں
دیکھو چلتے پھرتے پھول

سونا جسم سفید قمیص
گورے ہاتھ سنہرے پھول

کچی عمریں کچے رنگ
ہنس مکھ بھولے بھالے پھول

آنکھ آنکھ میں بھیگی نیند
ہونٹ ہونٹ سے جھڑتے پھول

گورے گورے ننگے پیر
جھلمل جھلمل کرتے پھول

جیسا بدن ویسا ہی لباس
جیسی مٹی ویسے پھول

مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کب کے پھول

شام کے تارے تو ہی بتا
آج کدھر سے گزرے پھول

کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول

دھیان میں پھرتے ہیں ناصر
اچھی آنکھوں والے پھول

130
درد کم ہونے لگا آؤ کہ کچھ رات کٹے
غم کی معیاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے

ہجر میں آہ و بکا رسمِ کہن ہے لیکن
آج یہ رسم ہی دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

یوں توتم روشنئ قلب و نظر ہو لیکن
آج وہ معجزہ دکھلاؤ کہ کچھ رات کٹے

دل دکھاتا ہے وہ مل کر بھی مگر آج کی رات
اُسی بے درد کو لے آؤ کہ کچھ رات کٹے

دم گھٹا جاتا ہے ہے افسردہ دلی سے یارو
کوئی افواہ ہی پھیلاؤ کہ کچھ رات کٹے

میں بھی بیکار ہوں اور تم بھی ہو ویران بہت
دوستو آج نہ گھر جاؤ کہ کچھ رات کٹے

چھوڑ آئے ہو سرشام اُسے کیوں ناصر
اُسے پھر گھر سے بلا لاؤ کہ کچھ رات کٹے
131
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے

جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے

وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے

اب شہر میں اُس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایوانِ غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤں کس کے لیے

مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاؤں کس کے لیے

132
جرمِ انکار کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے

شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب
جر ترا نازِ کم نگاہی دے

تو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری
مجھ کو اک اشکِ صبح گاہی دے

تو نے بنجر زمیں کو پھول دیے
مجھ کو اک زخمِ دل کشا ہی دے

بستیوں کو دیے ہیں تو نے چراغ
دشتِ دل کو بھی کوئی راہی دے

عمر بھر کی نواگری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے

زرد رو ہیں ورق خیالوں کے
اے شبِ ہجر کچھ سیاہی دے

گر مجالِ سخن نہیں‌ ناصر
لبِ خاموش سے گواہی دے

133
قصے ہیں خموشی میں نہاں اور طرح کے
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے

تھی اور ہی کچھ بات کہ تھا غم بھی گوارا
حالات ہیں اب درپۓ جاں اور طرح کے

اے راہروِ راہِ وفا دیکھ کے چلنا
اس راہ میں ہیں سنگِ گراں اور طرح کے

کھٹکا ہے جدائی کا نہ ملنے کی تمنا
دل کو ہیں مرے وہم و گماں اور طرح کے

پر سال تو کلیاں ہی جھڑی تھیں مگر اب کے
گلشن میں ہیں آثارِ خزاں اور طرح کے

دنیا کو نہیں تاب مرے درد کی یارب
دے مجھ کو اسالیبِ فغاں اور طرح کے

ہستی کا بھرم کھول دیا ایک نظر نے
اب اپنی نظر میں ہیں جہاں اور طرح کے

لشکر ہے نہ پرچم ہے نہ دولت ہے نہ ثروت
ہیں خاک نشینوں کے نشاں اور طرح کے

مرتا نہیں اب کوئی کسی کے لیے ناصر
تھے اپنے زمانے کے جواں اور طرح کے

134
صبح کا تارا ابھر کر رہ گیا
رات کا جادو بکھر کر رہ گیا

ہم سفر سب منزلوں سے جاملے
میں نئی راہوں میں مر کر رہ گیا

کیا کہوں اب تجھ سے اے جوئے کم آب
میں بھی دریا تھا اتر کر رہ گیا

135
اب اُن سے اور تقاضائے بادہ کیا کرتا
جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا
بھلا ہوا کہ ترے راستے کی خاک ہوا
میں یہ طویل سفر پا پیادہ کیا کرتا

مسافروں کی تو خیر اپنی اپنی منزل تھی
تری گلی کو نہ جاتا تو جادہ کیا کرتا

تجھے تو گھیرے ہی رہتے ہیں رنگ رنگ کے لوگ
ترے حضور مرا حرفِ سادہ کیا کرتا

بس ایک چہرہ کتابی نظر میں ہے ناصر
کسی کتاب سے میں استفادہ کیا کرتا

136
دیارِ دل کی رات میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں توکیا ہوا وہ شکل تو دکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم دردِ زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسماں کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

یہ کس خوشی کی ریت پر غموں کو نیند آگئی
وہ لہر کس طرف گئی یہ میں کہاں سما گیا

گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اُٹھو کہ آفتاب سر پہ آگیا

137
کب تک بیٹھے ہاتھ ملیں
چل ساتھی کہیں‌ اور چلیں

اب کس گھاٹ پہ باندھیں ناؤ
اب یہ طوفاں کسیے ٹلیں

اب یہ مانگیں کون بھرے
اب یہ پودے کیسے پھلیں

جگ جگ جئیں مرے ساتھی
جلنے والے اور جلیں

تجھ کو چین ملے ناصر
تیرے دکھ گیتوں میں ڈھلیں

138
ایک نگر میں ایسا دیکھا دن بھی جہاں اندھیر
پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر

ہوا چلی تو پنکھ پنکھیرو بستی چھوڑ گئے
سونی رہ گئی کنگنی، خالی ہوئے منڈیر

بچپن میں بھی وہی کھلاڑی بنا ہے اپنا میت
جس نے اونچی ڈال سے توڑے زرد سنہری بیر

یارو تم تو ایک ڈگر پر ہار کے بیٹھ گئے
ہم نے تپتی دھوپ میں کاٹے کڑے کوس کے پھیر

اب تو اس دیس میں یوں آیا سیلاب
کب کی کھڑی حویلیاں پل میں ہوگئیں ڈھیر

139
کل جنہیں زندگی تھی راس بہت
آج دیکھا انہیں‌ اداس بہت

رفتگاں کا نشاں نہیں ملتا
اُگ رہی ہے زمیں پہ گھاس بہت

کیوں نہ روؤں تری جدائی میں
دن گزرتے تھے تیرے پاس بہت

چھاؤں مل جائے دامنِ گل کی
ہے غریبی میں یہ لباس بہت

وادیِ دل میں پاؤں دیکھ کے رکھ
ہے یہاں درد کی اُگاس بہت

سوکھے پتوں کو دیکھ کر ناصر
یاد آتی ہے گل کی باس بہت

140
یہ خوابِ سبز ہے یا رت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی

کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں ‌تھی پلٹ آئی

تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی، پلٹ آئی

خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی

کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی
141
دل میں آؤ عجیب گھر ہے یہ
عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ

سنگِ منزل سے کیوں نہ سر پھوڑیں
حاصلِ زحمتِ سفر ہے یہ

رنجِ غربت کے ناز اُٹھاتا ہوں
میں ہوں اب اور دردِ سر ہے یہ

ابھی رستوں کی دھوپ چھاوں نہ دیکھ
ہمسفر دور کا سفر ہے یہ

دن نکلنے میں کوئی دیر نہیں
ہم نہ سو جائیں اب تو ڈر ہے یہ

کچھ نئے لوگ آنے والے ہیں
گرم اب شہر میں خبر ہے یہ

اب کوئی کام بھی کریں ناصر
رونا دھونا تو عمر بھر ہے یہ

142
تو ہے دلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن
تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن

وہ تو بس ایک موج تھی آئی ادھر اُدھر گئی
آنکھوں میں ہے مگر ابھی رات کے خواب کی تھکن

پھر وہی دشتِ بے اماں پھر وہی رنجِ‌ رائیگاں
دل کو جگا کے سو گئی تیرے خیال کی کرن

آیا گیا نہ میں کہیں‌ صبح سے شام ہو گئی
جلنے لگے ہیں‌ ہاتھ کیوں ٹوٹ رہا ہے کیوں ‌بدن

کس سے کہوں کوئی نہیں سو گئے شہر کے مکیں
کب سے پڑی ہے راہ میں میّتِ شہرِ بے کفن

میکدہ بجھ گیا تو کیا رات ہے میری ہمنوا
سایہ ہے میرا ہم سبو چاند ہے میرا ہم سخن

دل ہے مرا لہو لہو تاب نہ لاسکے گا تو
اے مرے تازہ ہمنشیں تو مرا ہم سبو نہ بن

143
یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے بھی

یہ پیش خیمۂ بیدادِ تازہ ہو نہ کہیں
بدل رہی ہے ہوا سازگار اگر ہے بھی

لہو کی شمیں جلاؤ قدم بڑھاتے چلو
سروں پہ سایۂ شب ہائے تار اگر ہے بھی

ابھی تو گرم ہے میخانہ جام کھنکاؤ
بلا سے سر پہ کسی کا ادھار اگر ہے بھی

حیاتِ درد کو آلودۂ نشاط نہ کر
یہ کاروبار کوئی کاروبار اگر ہے بھی

یہ امتیاز من و تو خدا کے بندوں سے
وہ آدمی نہیں طاعت گزار اگر ہے بھی

نہ پوچھ کیسی گزرتی ہے زندگی ناصر
بس ایک جبر ہے یہ اختیار اگر ہے بھی

144
پھر لہو بول رہا ہے دل میں
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں

تاب لائیں گے نہ سننے والے
آج وہ نغمہ چھڑا ہے دل میں

ہاتھ مَلتے ہی رہیں گے گل چیں
آج وہ پھول کھلا ہے دل میں

دشت بھی دیکھے چمن بھی دیکھا
کچھ عجب آب و ہوا ہے دل میں

رنج بھی دیکھے خوشی بھی دیکھی
آج کچھ درد نیا ہے دل میں

چشم تر ہی نہیں محوِ تسبیح
خوں بھی سرگرمِ دعا ہے دل میں

پھر کسی یاد نے کروٹ بدلی
کوئی کانٹا سا چبھا ہے دل میں

پھر کسی غم نے پکارا شاید
کچھ اجالا سا ہوا ہے دل میں

کہیں چہرے کہیں‌ آنکھیں کہیں ہونٹ
اک صنم خانہ کھلا ہے دل میں

اُسے ڈھونڈا وہ کہیں بھی نہ ملا
وہ کہیں بھی نہیں یا ہے دل میں

کیوں بھٹکتے پھریں دل سے باہر
دوستو شہر بسا ہے دل میں

کوئی دیکھے تو دکھاؤں ناصر
وسعتِ‌ ارض و سما ہے دل میں

145
جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے

خیال ہی نہیں‌ آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم ربا سی ہے

جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں‌ اداسی ہے

دلِ غمیں سے بھی جلتے ہیں‌شادمانِ حیات
اسی چراغ سے اب شہر میں‌ ہوا سی ہے

ہمیں‌ سے آنکھ چُراتا ہے اس کا ہر ذرہ
مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے

ادس پھرتا ہوں میں جس کی دھن میں برسوں سے
یونہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے

چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصر
کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے

146
سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آجا کہ رات بھیگ چلی

کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی

کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں‌ دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی

تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی

مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی

میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے کبھی

میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جاۓ گا تو بھی

ایسی جلدی بھی کیا ، چلے جانا
مجھے اک بات پوچھنی ہے ابھی

آبھی جامیرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی

میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی

147
شعاعِ حسن ترے حسن کو چھپاتی تھی
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی

کسے ملیں کہاں جائیں کہ رات کالی ہے
وہ شکل ہی نہ رہی جو دیے جلاتی تھی

وہ تو دن تھے حقیقت میں عمر کا حاصل
خوشا وہ دن کہ ہمیں روز موت آتی تھی

ذرا سی بات سہی تیرا یاد آجانا
ذرا سی بات بہت دیر تک رلاتی تھی

اداس بیٹھے ہو کیوں ہاتھ توڑ کر ناصر
وہ نَے کہاں ہے جو تاروں کی نیند اڑاتی تھی

148
برف گرتی رہے آگ جلتی رہے
آگ جلتی رہے رات ڈھلتی رہے

رات بھر ہم یونہی رقص کرتے رہیں
نیند تنہا کھڑی ہاتھ ملتی رہے

برف کے ہاتھ پیانو بجاتے رہیں
جام چلتے رہیں مے اچھلتی رہے

149
کُنج کُنج نغمہ زن بسنت آگئی
یاب سجے گی انجمن بسنت آگئی

اُڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ
جگمگا اٹھا گگن بسنت آگئی

موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ
دیکھنا چمن چمن بسنت آگئی

سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آگیا
لے کے زرد پیرہن بسنت آگئی

بچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے
لے کے پھر نئی چبھن بسنت آگئی

150
کہاں گئے وہ سخنور جو میرِ محفل تھے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے

بھلا ہوا کہ ہمیں یوں بھی کوئی کام نہ تھا
جو ہاتھ ٹوٹ گئے ٹوٹنے کے قابل تھے

حرام ہے جو صراحی کو منہ لگایا ہو
یہ اور بات کہ ہم بھی شریکِ محفل تھے

گزر گئے ہیں جو خوشبوئے رائگاں کی طرح
وہ چند روز مری زندگی کا حاصل تھے

پڑے ہیں سایۂ گل میں جو سرخرو ہو کر
وہ جاں نثار ہی اے شمع تیرے قاتل تھے

اب اُن سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہم نوا جو مرے رتجگوں میں شامل تھے
151
شوق کیا کیا دکھائے جاتا ہے
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے

اگلے وقتوں کی یادگاروں کو
آسماں کیوں مٹائے جاتا ہے

سوکھتے جارہے ہیں گل بوٹے
باغ کانٹے اگائے جاتا ہے

جاتے موسم کو کس طرح روکوں
پتّہ پتّہ اڑائے جاتا ہے

حال کس سے کہوں کہ ہر کوئی
اپنی اپنی سنائےجاتا ہے

کیا خبر کون سی خوشی کے لیے
دل یونہی دن گنوائے جاتا ہے

رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصر
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے

152
کیا لگے آنکھ پھر دل میں سمایا کوئی
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی

فکر یہ تھی کہ شبِ ہجر کٹے گی کیوں کر
لطف یہ ہے کہ ہمیں یاد نہ آیا کوئی

شوق یہ تھا کہ محبت میں جلیں گے چپ چاپ
رنج یہ ہے کہ تماشا نہ دکھایا کوئی

شہر میں ہمدمِ دیرینہ بہت تھے ناصر
وقت پڑنے پہ مرے کام نہ آیا کوئی

153
چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے

باہر کی مٹی کے بدلے
گھر کا سونا بیچ دیا ہے

سب کا بوجھ اٹھانے والے
تو اس دنیا میں تنہا ہے

میلی چادر اڑھنے والے
تیرے پاؤں تلے سونا ہے

گہری نیند میں جاگو ناصر
وہ دیکھو سورج نکلا ہے

154
بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جانکلے
یہ ہم سفر مرے کتنے گریز پا نکلے

چلے تھے اور کسی راستے کی دھن میں مگر
ہم اتفاق سے تیری گلی میں‌ آ نکلے

غمِ فراق میں‌کچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے

نصحیتیں ہمیں‌کرتے ہیں ترکِ الفت کے
یہ خیر خواہ ہمارے کدھر سے آنکلے

یہ خامشی تو رگ پے میں رچ گئی ناصر
وہ نالہ کر کہ دلِ سنگ سے صدا نکلے

155
شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے
ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے

کہتا، سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر
مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے

اے منصفو حقائق و حالات سے الگ
کچھ بحث خاص و عام نہیں آپ سے مجھے

یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیئے یہاں مگر
امیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے

فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے

156
جنت ماہی گیروں کی
ٹھنڈی رات جزیروں کی

سبز سنہرے کھیتوں پر
پھواریں سرخ لکیروں کی

اس بستی سے آتی ہیں
آوازیں زنجیروں کی

کڑوے خواب غریبوں کے
میٹھی نیند امیروں کی

رات گئے تیری یادیں
جیسے بارش تیروں کی

مجھ سے باتیں کرتی ہیں
خاموشی تصویروں کی

ان ویرانوں میں ناصر
کان دبی ہے ہیروں کی

157
کوئی اور ہے نہیں تو نہیں مرے روبرو کوئی اور ہے
بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے

یہ گناہگاروں کی سرزمیں ہے بہشت سے بھی سوا حسیں
مگر اس دیار کی خاک میں سببِ نمو کوئی اور ہے

جسے ڈھونڈتا ہوں گلی گلی وہ ہے میرے جیسا ہی آدمی
مگر آدمی کے لباس میں وہ فرشتہ خو کوئی اور ہے

کوئی اور شے ہے وہ بے خبر جو شراب سے بھی ہے تیز تر
مرا میکدہ کہیں اور ہے مرا ہم سبو کوئی اور ہے

158
غم ہے یا خوشی ہے تو
میری زندگی ہے تو

آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو

میری رات کا چراغ
میری نیند بھی ہے تو

میں خزاں کی شام ہوں
رُت بہار کی ہے تو

دوستوں کے درمیاں
وجہِ دوستی ہے تو

میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو

میں تو وہ نہیں رہا
ہاں مگر وہی ہے تو

ناصر اس دیار میں
کتنا اجنبی ہے تو

159
دیس سبز جھلیوں کا
یہ سفر ہے میلوں کا

راہ میں جزیروں کی
سلسلہ ہے ٹیلوں کا

کشتیوں کی لاشوں پر
جمگھٹا ہے چیلوں کا

رنگ اڑتا جاتا ہے
شہر کی فصیلوں کا

دیکھ کر چلو ناصر
دشت ہے یہ فیلوں کا

160
دھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر

یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر

صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر

یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دوسرے کنارے پر

یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر

اس انقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو
جو ناؤباندھ کے سوتے رہے کنارے پر

ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے
ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر

بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر
سنا ہے اُن میں سے کچھ آملے کنارے پر
161
کچھ یادگارِ شہر ستمگر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیالِ یار کی چادر ہی لے چلیں

رنجِ سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو
تھوڑی سی خاکِ کوچۂ دلبر ہی چلیں

یہ کہہ کے چھیٹرتی ہے ہمیں دل گرفتگی
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں

اس شہرِ بے چراغ میں جائے گی تو کہاں
آ اے شبِ فراق تجھے گھر ہی لے چلیں

162
رقم کریں گے ترا نام انتسابوں میں
کہ انتخابِ سخن ہے یہ انتخابوں میں

مری بھری ہوئی آنکھوں کو چشمِ کم سے نہ دیکھ
کہ آسمان مقیّد ہیں ان حبابوں میں

ہر آن دل سے الجھتے ہیں دو جہان کے غم
گھرا ہے ایک کبوتر کئی عقابوں میں

ذرا سنو تو سہی کان دھر کے نالۂ دل
یہ داستاں نہ ملے گی تمہیں کتابوں میں

نئی بہار دکھاتے ہیں داغِ دل ہر روز
یہی تو وصف ہے اس باغ کے گلابوں میں

پون چلی تو گل و برگ دف بجانے لگے
اداس خوشبوئیں لو دے اٹھیں نقابوں میں

ہوا چلی تو کھلے بادبانِ طبع رسا
سفینے چلنے لگے یاد کے سرابوں میں

کچھ اس ادا سے اُڑا جا رہا ہے ابلقِ رنگ
صبا کے پاوں ٹھہرتے نہیں رکابوں میں

بدلتا وقت یہ کہتا ہے ہر گھڑی ناصر
کہ یادگار ہے یہ وقت انقلابوں میں

163
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر
ستارۂ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہردم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں مرے تو دل میں اتر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ

بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ

مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اٹھا تھا رات دِل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ

وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ

وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ

164
زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا
سخن کدہ مری طرز سخن کو ترسے گا

نئے پیالےسہی تیرے دور میں ساقی
یہ دور میری شرابِ کہن کو ترسے گا

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی
وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا

انہی کے دم سے فروزاں ہیں ملتوں‌کے چراغ
زمانہ صحبتِ اربابِ فن کو ترسے گا

بدل سکو تو بدل دو یہ باغباں ‌ورنہ
یہ باغ سایۂ سرو سمن کو ترسے گا

ہوئے ظلم یہی ہے تو دیکھنا اک دن
زمین پانی کو، سورج کرن کو ترسے گا

165
وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے
وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے

وہ صبح آتے آتے رہ گئی کہاں
جو قافلے تھے آنے والے کیا ہوئے

میں اُن کی راہ دیکھتا ہوں رات بھر
وہ روشنی دکھانے والے کیا ہوئے

یہ کون لوگ ہیں مرے ادھر اُدھر
وہ دوستی نبھانے والے کیاہوئے

وہ دل میں کھبنے والی آنکھیں کیا ہوئیں
وہ ہونٹ مسکرانے والے کیا ہوئے

عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں
عمارتیں بنانے والے کیا ہوئے

اکیلے گھر سے پوچھتی ہے بے کسی
ترا دیا جلانے والے کیا ہوئے

یہ آپ ہم تو بوجھ ہیں زمین کا
زمیں کا بوجھ اٹھانے والے کیا ہوئے

166
جہاں تیرے غم نے قدم رکھ دیا
سرِ طاق دنیا کا غم رکھ دیا

دکھا کر ہمیں دو جہانوں کے خواب
دلوں میں غمِ بیش و کم رکھ دیا

سحر دم فلک نے مرے سامنے
بجاۓ سبو، خوانِ غم رکھ دیا

برستے ہیں اطراف سے ہم پہ تیر
یہ کس راستے میں قدم رکھ دیا

ذرا دیکھ تو اے قسیمِ ازل
یہ کس ہاتھ پر جامِ جم رکھ دیا

167
میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا

تو نے کیوں مترا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا

پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا

تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا

168
دھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

میں اس جانب تو اس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا

ایک پیڑ کے ہات تھے خالی
اک ٹہنی پر دیا جلا تھا

مجھ پر آگ حرام تھی لیکن
آگ نے اپنا کام کیا تھا

169
پل پل کانٹا سا چبھتا تھا
یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا

کانٹوں کے ویراں جنگل میں
میں کس مشکل سے پہنچا تھا

یہ جنگل اور تیری خوشبو
کیا میں سپنا دیکھ رہا تھا

آج وہ آنکھیں بجھی بجھی تھیں
میں جنھیں پہروں ہی تکتا تھا

کتنی باتیں کی تھیں لیکن
ایک بات سے جی ڈرتا تھا

تیرے ہاتھ کی چاۓ تو پی تھی
دل کا رنج تو دل میں رہا تھا

میں بھی مسافر، تجھ کو بھی جلدی
گاڑی کا بھی وقت ہوا تھا

تو نے بھی کوئ بات نہ پوچھی
میں بھی تجھے کچھ کہہ نہ سکا تھا

اک اجڑے سے اسٹیشن پر
تو نے مجھ کو چھوڑ دیا تھا

تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا

کیسے کہوں روداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا

170
دل میں اک ہوک سی اٹھی ہے ابھی
کوئ تازہ ہوا چلی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئ دیوار سی گری ہے ابھی

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ سوچ بھی لگی ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈھتی ہے ابھی
۔۔۔
171
گزارنی تھی ترے ہجر کی پہاڑ سی رات
میں تارِ ریشم و زر کا دوشالہ کیا کرتا
حکایتِ غمِ دنیا کو چاہیے دفتر
ورق ورق مرے دل کا رسالہ کیا کرتا

172
دھوپ نگلی دن سہانے ہو گئے
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے

کیا تماشا ہے کہ بے ایامِ گل
پتّیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے

آنچ کھا لکھا کر صداۓ رنگ کی
تتلیوں کے پر سنہرے ہو گئے

اس قدر رویا ہوں تیری یاد میں
آئینے آنکھوں لکے دھندلے ہو گئے

173
اے دردِ ہجر یار غزل کہہ رہا ہوں میں
بے موسمِ بہار غزل کہہ رہا ہوں میں

میرے بیانِ غم کا تسلسل نہ ٹوٹ جائے
گیسو ذرا سنوار غزل کہہ رہا ہوں میں

راز و نیازِ عشق میں کیا دخل ہے ترا
ہٹ فکرِ روزگار غزل کہہ رہا ہوں میں

ساقی بیانِ شوق میں رنگینیاں بھی ہو
لا جامِ خوشگوار غزل کہہ رہا ہوں میں

تجھ سا سخن شناس کو ئی دوسرا نہیں
سن لے خیالِ یار غزل کہہ رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔

متفرقات

چمن میں پھر رسن و طوق و دار کے دن ہیں
کہاں پڑے ہو اسیرو، بہار کے دن ہیں
یہ شور روزنِ زنداں سے صاف سنتا ہوں
کوئ کہے نہ کہے، یہ بہار کے دن ہیں
۔۔۔۔۔

اس کے آنے کی کچھ کہو یارو
نیند تو خیر آ ہی جاۓ گی
منہ لپیٹے پڑے رہو ناصر
ہجر کی رات ڈھل ہی جاۓ گی
۔۔۔۔۔۔۔

فرصتِ موسمِ نشاط نہ پوچھ
جیسے اک خواب خواب میں دیکھا
۔۔۔۔۔۔

یہ آج کون سے طوفاں میں ہے سفینۂ دل
کہ دور دور کنارے نظر نہیں آتے!!
ہجومِ یاس ہے اور منزلوں اندھیرا ہے
وہ رات ہے کہ ستارے نظر نہیں آتے
۔۔۔۔


ہم نے تجھ کو لاکھ پکارا تو لیکن خاموش رہا
آخر ساری دنیا سے ہم تیرے بہانے روٹھ گۓ
۔۔۔۔

بیٹھے بیٹھے گھبرائے ہم
جانے کس کو یاد آئے ہم
۔۔۔۔۔۔

اسیرو کچھ نہ ہوگا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
۔۔۔۔۔۔



کیا کمی آ گئ وفاؤں میں
وہ اثر ہی نہیں دعاؤں میں
۔۔۔۔۔

بھٹک رہا ہے جہاں قافلہ بگولوں کا
کبھی ہجوم تھا ان راستوں میں پھولوں کا
۔۔۔۔۔۔۔

کیا بلا آسمان سے اتری
اس کی صورت بھی دھیان سے اتری
گھر میں اس شعلہ رو کے آتے ہی
روشنی شمعدان سے اتری
۔۔۔۔۔۔۔

رین اندھیری ہے اور کنارا دور
چاند نکلے تو پار اُتر جائیں
یوں پریشاں ہوئیں تری یادیں
جیسے اوراقِ گُل بکھر جائیں
۔۔۔۔۔۔

گھر لٹا کر وطن میں جی نہ لگا
پھر کسی انجمن میں جی نہ لگا
۔۔۔۔

تم ہی کہو اے انجمِ شب
کتنی دور ہے شہرِ طرب
۔۔۔۔۔

اٹھی تھی آج دل سے پھر اک آواز
الجھ کر رہ گئی تارِ گلو سے
۔۔۔۔


گھُٹ کے مر جاؤں گا اے صبحِ جمال
میں اندھیرے میں ہوں، آواز نہ دے
۔۔۔۔۔

کوئی جھونکا جو سرِ شام آیا
میں یہ سمجھا ترا پیغام آیا
زندگی اس کے تصور میں کٹی
دور رہ کر بھی وہی کام آیا
۔۔۔۔۔

دن کا چراغ نکلا، گُل ہو گۓ ستارے
دنیا کے شور و غل میں دل اب کسے پکارے
۔۔۔۔۔۔۔

اے دل نہ تڑپ کہ قہر ہوگا
رسوا کوئی شہر شہر ہوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔

عالمِ خواب میں دکھائے گئے
کب کے ساتھی کہاں مِلائے گئے
۔۔۔۔۔۔۔
کیسی گردش میں اب کے سال پڑا
جنگ سر سے ٹلی تو کال پڑا
تجھ سے مل کر بھگی دل کو چین نہیں
درمیاں میں وہی سوال پرا
۔۔۔۔

نہ پھول جھڑتے ہیں ہم پر نہ برق گرتی ہے
پڑے ہوۓ ہیں بعنوانِ سبزۂ بیکار
۔۔۔۔۔۔۔

اب دل میں کیا رہا ہے، تری یاد ہو تو ہو
یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو
۔۔۔۔۔

اوّلیں شبِ گلشن کس قدر سہانی تھی
اجنبی مہک پا کر ہم نکل پڑے گھر سے
۔۔۔۔

ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ
ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے
روئے ہو موسمِ بہار کے بعد
اب کی پت جھڑ میں کتنے پھول کھلے
۔۔۔۔۔۔۔

سینۂ نَے میں صدا میری ہے
اس میں کچھ طرزِ ادا میری ہے
باغ تیرا ہی سہی اے گلچیں
پھول میرے ہیں صبا میری ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔

نہ پوچھو کس خرابے میں پڑے ہیں
تہِ ابرِ رواں پیاسے کھڑے ہیں
ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتّے جھڑے ہیں
۔۔۔۔

ویراں پڑا ہے مے کدہ حسنِ خیال کا
یہ دور ہے بہائے ہنر کے زوال کا
۔۔۔۔۔۔

ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفلِ سخن میں
ہر دور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا
۔۔۔