ہمارے لیے منٹو صاحب شمس الرحمٰن فاروقی

ہمارے لیے منٹو صاحب شمس الرحمٰن فاروقی
یہ منٹو کی بدقسمتی اور ہماری تنقید کا شرمناک عجز ہے کہ ہم منٹو کو صرف جنس نگار سمجھیں۔ یہ ہماری تنقید کی بد نصیبی اور ہمارے پڑھنے والوں کے ساتھ ظلم عظیم ہے کہ منٹو کو "رنڈیوں کا افسانہ نگار" اور "فحشیات کا ماہر" یا بہت سے بہت "فسادات کے موضوع پر چند شاق انگیز افسانوں کا مصںف" کہہ کر ٹال دیا جائے۔ اسی طرح ہم لوگوں نے داغ کو یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ وہ کوئی شاعری تھوڑی ہیں، صرف رنڈیاں ان کا کلام گاتی تھیں۔ اس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ داغؔ کا تو کچھ نہیں بگڑا، لیکن ہمارے یہاں ایسے شعرا کا بھی فقدان ہونے لگا جو صاف اور رواں زباں میں دو مربوط مصرعے موزوں کر سکیں۔

اسی طرح منٹو کا تو کچھ نہیں بگڑا (بلکہ اگر بازار بھاؤ کے تناظر میں بات کی جائے تو 
"رنڈیوں کے افسانہ نگار" اور "فحش نگار" کی کتابیں بے شمار تعداد میں اردو کے علاوہ ہندی اور برصغیر کی دوسری زبانوں میں چھپ رہی ہیں۔ انگریزی میں بھی منٹو بکثرت دستیاب ہیں۔ نقصان تو منٹو کی بعد کی نسلوں کا ہوا ہے۔ کچھ بگڑا تو ہمارے نوجوان قاری کا، کہ وہ منٹو کی حقیقی بصیرتوں، ان کے فن کی حقیقی گہرائیوں، افسانہ نگاری کے فن پر ان کی وسیع الذیل دسترس سے نا واقف رہ گئے۔