جون ایلیا کے سو اشعار
1۔
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
2۔
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سُرخی مرے رُخسار کی
3۔
آپ اب پوچھنے کو آئے ہیں
دل مری جان مر گیا کب کا
4۔
کبھی خود سے مُکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
5۔
خون کردوں ترے شباب کا میں
مجھ سا قاتل ترا شباب نہیں
6۔
وہ شے جو صرف ہندوستان کی تھی
وہ پاکستان لائی جا رہی ہے
7۔
کیا بتاؤں بچھڑ گیا یاراں
اک بلقیس سے صبا میرا
8۔
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اُس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی
9۔
سو گئی ہوگی وہ شفق اندام
سبز قندیل جل رہی ہوگ
10۔
میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اُٹھا دو تو مزا آ جائے
11۔
کہاں لذت وہ سوزِ جستجو کی
یہاں ہر چیز پائی جا رہی ہے
12۔
مینا بہ مینا، مے بے مے، جام بہ جام، جم بہ جم
ناف پیالے کی ترے، یاد عجب سہی گئی
13۔
اے فقیرو! گلی کے اُس گل کی
تم ہمیں اپنی خاکِ پا بھیجو
14۔
مُنشیانِ شہود نے تا حال
ذکرِ غیب و حجاب ہی رکھا
15۔
دور بہ دور، دل بہ دل، درد بہ درد، دَم بہ دَم
تیرے یہاں رعایتِ حال نہیں رکھی گئی
16۔
کیا وہ گماں نہیں رہا؟ ہاں وہ گماں نہیں رہا
کیا وہ اُمید بھی گئی؟ ہاں وہ اُمید بھی گئی
17۔
کتنی دلکش ہو تم، کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
18۔
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اُس عمارت میں
19۔
میں کیا ہوں بس ملالِ ماضی
اُس شخص کو حال چاہیے تھا
20۔
تھا رَن بھی زندگی کا عجب طُرفہ ماجرا
یعنی اٹھے تو پاؤں مگر ۔ جونؔ سر گئے
21۔
مجھ کو خواہش ہی ڈھونڈنے کی نہ تھی
مجھ میں کھویا رہا خدا میرا
22۔
سُنا دیں عصمتِ مریم کا قصہ؟
پر اَب اُس باب کو وا کیوں کریں ہم
23۔
برہنہ ہیں سرِ بازار تو کیا
بھلا اندھوں سے پردہ کیوں کریں ہم
24۔
یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی
یہاں کارِ مسیحا کیوں کریں ہم
25۔
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
26۔
اے نغمہ طرازانِ بَراَفروختہ اے شہر!
واسوخت کہیں گے غزل انشا نہ کریں گے
27۔
مجھ میں آ کے گرا تھا اک زخمی
جانے کب تک پڑا رہا مجھ میں
28۔
ہے تو بارے یہ عالمِ اسباب
بے سبب چیخنے لگا کیجے
آج ہم کیا گلہ کریں اس سے
گلہء تنگیِ قبا کیجے
مجھ سے کہتی تھیں وہ شراب آنکھیں
آپ یہ زہر مت پیا کیجے
29۔
لاکھ جنجال مانگے میں ہیں
کچھ نہ مانگو فقط دُعا مانگو
30۔
اے عزادارو! کرو مجلس پیا
آدمی ۔ انسان کو مار آئے تو
31۔
ہائے وہ شوق جو نہیں تھا کبھی
ہائے وہ زندگی جو تھی ہی نہیں
32۔
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم مری زندگی ہو گیا
33۔
تھا ستم بار بار کا ملنا
لوگ بھاتے چلے گئے ہوں گے
34۔
فکر اپنے شرابیوں کی نہ کر
لڑکھڑاتے چلے گئے ہوں گے
35۔
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نئیں
36۔
سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے
37۔
کیا ستم ہے کہ اب تری صورت
غور کرنے پہ یاد آتی ہے
38۔
اب یہی طے ہوا کہ ہم تجھ سے قریب تر نہیں
آج ترے تکلفات دل پہ گراں گزر گئے
39۔
کوئی حاصل نہ تھا آرزو کا مگر، سانحہ یہ ہے اب آرزو بھی نہیں
وقت کی اس مسافت میں بے آرزو، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
40۔
ہم ہیں رُسوا کنِ دلی و لکھنؤ، اپنی کیا زندگی اپنی کیا آبرو
میرؔ دلی سے نکلے گئے لکھنؤ، تم کہاں جاؤ گے ہم کہاں جائیں گے
41۔
ہم کہ اے دل سخن تھے سر تا پا
ہم لبوں پر نہیں رہے آباد
شہرِ دل میں عجب محلے تھے
ان میں اکثر نہیں رہے آباد
جانے کیا واقعہ ہوا کیوں لوگ
اپنے اندر نہیں رہے آباد
42۔
کوئی حالت نہیں یہ حالت ہے
یہ تو آشوب ناک صورت ہے
43۔
قابلِ رحم ہیں وہ دیوانے
جن کو حاصل نہیں ہیں ویرانے
ہم ہلاکِ ستم نہیں اے دوست!
ہم کو مارا ہے لطفِ بیجا نے
کشتہء اعتماد ہیں ہم لوگ
ہم کو دھوکا دیا ہے دنیا نے
تلخ گو مخلصوں کی محفل میں
جونؔ کس بات کا بُرا مانے
44۔
نگھروں کو تو راس آئے گی
کوئی بلقیسِ بے سبا تو ہو
45۔
اے مرے صبح و شامِ دل کی شفق
تو نہاتی ہے اب بھی بان میں کیا
46۔
شام ہوئی ہے یار آئے ہیں یاروں کے ہمراہ چلیں
آج وہاں قوالی ہوگی، جونؔ چلو درگارہ چلیں
47۔
خیرہ سرانِ شوق کا کوئی نہیں ہے جنبہ دار
شہر میں اس گروہ نے کس کو خفا نہیں کیا
48۔
مستقل بولتا ہی رہتا ہوں
کتنا خاموش ہوں میں اندر سے
49۔
ہے مجھے تیری جستجو کرنا
تو عجب آدمی لگا، تُو جا
50۔
سپہرِ خامشی ہے، شام ہے اور صحنِ ویرانی
وہ شامِ فصلِ سرسبزی، حکایت ہو گئی آخر
51۔
جونؔ! اس آن تک بخیر ہوں میں
زندگی داؤ چَل گئی ہوگی
52۔
پائے کوبانِ فرشِ لالہ و گل
بَر دمِ نیشتر گئے ہوتے
53۔
ہم ہیں محرومِ وسعتِ یک گام
میرؔ کو لکھنؤ ملا جاناں
54۔
کس سے ہم اپنے دل کی بات کریں
شہرِ دِلی نہیں رہا جاناں
ہم وہاں ہیں ہمارے ساتھ جہاں
میرؔ بھی خون تھوکتا جاناں
55۔
شوق کا بار اُتار آیا ہوں
آج میں اُس کو ہار آیا ہوں
56۔
تُو میاں دل کو اندر آ کے دیکھ
یوں کرایے پہ گھر نہیں اُٹھتے
تجھ محلے کو یہ ہوا کیا ہے
واں سے اب نامور نہیں اٹھتے
وقت کا رَن بھی اک تماشا ہے
پاؤں اٹھتے ہیں سر نہیں اٹھتے
حالتِ احوالی کیا بتائیں کہ ہم
اٹھنے لگتے ہیں، پر نہیں اٹھتے
سیل لے جائے گا بہا کے تمہیں
تم یہاں سے اگر نہیں اٹھتے
57۔
دوپہر! بادِ تُند! کوچہء یار!
وہ غبارِ ملال کس کا تھا
58۔
گلی میں اس نگارِ ناشنو کی
فغاں کرنا ہماری نوکری ہے
59۔
آرزو کے کنول کھلے ہی نہ تھے
فرض کر لو کہ ہم ملے ہی نہیں
60۔
آج بھی تشنگی کی قسمت میں
سمِ قاتل ہے سلسلبیل نہیں
سب کے خدا کے وکیل ہیں لیکن
آدمی کا کوئی وکیل نہیں
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں
61۔
مہک اُٹھا ہے آنگن اس خبر سے
وہ خوشبو لوٹ آئی ہے سفر سے
میں اِس دیوار پر چڑھ تو گیا تھا
اتارے کون اب دیوار پر سے
62۔
میرِ محفل بنے بیٹھے ہیں بڑے ناز سے ہم
ہمیں محفل سے اٹھا دو تو مزہ آ جائے
63۔
مسکراتے ضرور ہیں لیکن
زیرِ لَب آہ بھرتے جاتے ہیں
64۔
جونؔ یہ زخم کتنا کاری ہے
یعنی کچھ زخم بھرتے جاتے ہیں
65۔
ہے نصفِ شب، وہ دیوانہ ابھی تک گھر نہیں آیا
کسی سے چاندنی راتوں کا قصہ چھڑ گیا ہوگا
66۔
کوئے جاناں کی ناکہ بندی ہے
دلِ ہنگامہ جُو! کدھر چلیے
67۔
بابا الف نے شب کہا، نشہ بہ نشہ کر گلے
جرعہ بہ جرعہ رنج ہے، جام بہ جام رنج ہے
68۔
کر رہا ہوں میں عمرِ فن برباد
لوگ کہتے ہیں کام کرتا ہوں
یہ تو عالم ہے خوش مزاجی کا
گھر میں ہر شخص سے الجھتا ہوں
دشمنوں تم کو خوف کس کا ہے
مار ڈالو کہ میں اکیلا ہوں
69۔
رہن سرشاریِ فضا کے ہیں
آج کے بعد ہم ہوا کے ہیں
70۔
اب کوئی گفتگو نہیں ہوگی
ہم فنا کے تھے ہم فنا کے ہیں
71۔
وہ بھی پڑھتا نہیں ہے اب دل سے
ہم بھی نالے کو نم نہیں کرتے
72۔
جبر پُر اختیار ہے، اماں ہاں
بیقراری قرار ہے، اماں ہاں
یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے، اماں ہاں
لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے، اماں ہاں
73۔
ایک ہی بار بار ہے، اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے، اماں ہاں
74۔
کسی صورت انہیں نفرت ہو ہم سے
ہم اپنے عیب خود گنوا رہے ہیں
75۔
ہم سنے اور سنائے جاتے تھے
رات بھر کی کہانیاں تھے ہم
76۔
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
77۔
دریغا! تیری نزدیکی میاں جان
تری دُوری پہ واری جا رہی ہے
78۔
شہرِ غدار جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے
79۔
پسند آیا بہت ہمیں پیشہ
خود ہی اپنے گھروں کو ڈھانے کا
80۔
کر رہے ہیں یاد اسے ہم روز و شب
ہیں بھلانے کی اسے تیاریاں
81۔
شوق کی اِک امیدواری ہے
ورنہ کس کو خبر ہماری ہے
82۔
ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جاؤں میں اپنے درمیاں سے
83۔
رونقِ بزمِ زندگی طُرفہ ہیں تیرے لوگ بھی
اک تو کبھی نہ آئے تھے، آئے تو روٹھ کر گئے
84۔
روح پیاسی کہاں سے آتی ہے
یہ اُداسی کہاں سے آتی ہے
85۔
تخلیہ دوستو! مجھے ڈسنے
ایک ناگن بَلا سی آتی ہے
86۔
جونؔ یوں ہے کہ آج کے موسٰی
آب بس آگ لائے جائیں گے
87۔
زخم پہلے کے اب مُفید نہیں
اب نئے زخم کھائے جائیں گے
88۔
بیٹھ مت ایک آستاں پہ ابھی
عمر ہے یہ اٹھان کی، اُٹھ چل
89۔
کسی بستی کا ہو نہ پابستہ
سیر کر اس جہان کی، اُٹھ جل
90۔
برباد ہو چکا ہے ہُنر اِک ہُنر کے ساتھ
اور اپنے صاحبانِ ہُنر خیریت سے ہیں
91۔
جانا نہیں ہے گھر سے نکل کے کہیں مگر
ہر ماہ رُو کے گھر کا پتا چاہیے ہمیں
92۔
کیا ہے جو بدل گئی ہے دُنیا
میں بھی تو بہت بدل گیا ہوں
93۔
کل پر ہی رکھو وفا کی باتیں
میں آج بہت تھکا ہوا ہوں
94۔
شاعر ہیں آپ یعنی سستے لطیفہ گو
رشتوں کو دل سے روئیے، سب کو ہنسائیے
95۔
اک لال قلعہ تھا جو میاں زرد پڑ گیا
اب رنگ ریز کون سے کس جا سے لائیے
96۔
بس فائلوں کا بوجھ اُٹھایا کریں جناب
مصرع یہ جونؔ کا ہے اسے مت اُٹھائیے
97۔
جانے وہ کون شخص ہو، کیا ہو
تو کسی کو کبھی بُلائیو مت
98۔
وار کاری ہے ساتھیو یارو
لو سنبھالو! چلے گئے سب کیا
99۔
میرِ محفل کا طور ہے بے طور
بیچ محفل پڑا تڑپتا ہے
100۔
کیا پوچھتے ہو نام و نشانِ مسافراں
ہندوستاں میں آئے ہیں، ہندوستاں کے تھے
Tags:
جون ایلیا