چہرہ بچہرہ رو برو ناول از جمیلہ ہاشمی

چہرہ بچہرہ رو برو ناول از جمیلہ ہاشمی
جمیلہ ہاشمی اردو ادب کی ایک مایہ ناز فکشن نگار ہیں۔ انہوں نے افسانہ نویسی اور ناول نگاری میں خاصی مقبولیت حاصل کی۔ ناول نگاری میں انہوں نے انفرادیت کے وہ نقوش چھوڑے ہیں کہ ادبی حلقے کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ناول کے وسیع کینوس سے فائدہ اٹھا کر انہوں نے معاشرے کے مختلف پہلوؤں کو خوب صورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے جن میں عورت پر مرد کی بالادستی ایک اہم پہلو کی صورت سامنے آتا ہے۔ جمیلہ ہاشمی کے کئی ناول منظر عام پر آ چکے ہیں۔ ان کے معاشرتی ناولوں میں "تلاشِ بہاراں"، "جوگ کی رات"، "آتشِ رفتہ" اور "روہی" شامل ہیں۔ تلاشِ بہاراں ان کا سب سے بہترین ناول ہے جس پر انہیں آدم جی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 

معاشرتی ناولوں کے ساتھ ساتھ جمیلہ ہاشمی نے "چہرہ بہ چہرہ روبرو" اور "دشتِ سوس" کے عنوان سے دو کامیاب تاریخی ناول بھی لکھے ہیں۔ "چہرہ بہ چہرہ روبرو" 1977ء میں شائع ہوا۔ یہ ایران کی تاریخی شخصیت اور بابی تحریک کی ایک رکن رکین فاطمہ زریں قرۃ العین طاہرہ کی زندگی پر مشتمل ہے۔ اس میں ایران کے متوسط طبقے کی طرزِ زندگی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ام سلمٰی یعنی قرۃ العین طاہرہ ہے۔
 
جمیلہ ہاشمی نے اپنے اس ناول میں ایک ایسی متنازعہ لیکن عظیم ہستی کو موضوع بنایا ہے جس کا نام آج تک خود ایک افسانہ ہے۔ ام سلمٰی جسے ہم قرۃ العین طاہرہ کے نام سے جانتے ہیں، ایک ایسی بے قرار روح کی مالک تھی جس کے پاس دل بھی بڑا اور دماغ بھی۔ 

قرۃ العین طاہرہ ایک عظیم شخصیت کی مالک تھی جو اصلاح نسواں کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کرنا چاہتی تھی لیکن وہ بابیوں کے فریب میں آ گئی اور اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ جمیلہ ہاشمی نے اپنے ناول میں دکھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر قرۃ العین اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی سیاسی یا مذہبی گروہ کا سہارا نہیں لیتی بلکہ آزاد ہو کر عورتوں کے حقوق کے لیے رائے عامہ ہموار کرتی تو شاید اسے کامیابی نصیب ہوتی۔ لیکن ان گروہوں سے وابستگی نے ان کے سپنوں کو پورا نہیں ہونے دیا۔