آمد / آورد کی تعریف اور امثال

آمد / آورد کی تعریف اور امثال

شعری اصطلاح ہے۔ آورد آمد کی نقیض ہے۔ یعنی آمد کے برعکس ہے۔ جب شاعر ارادی طور پر فکرِ سُخن میں بیٹھے اور شعر کہنے کے بعد اس کے لفظ و بیان اور ترتیب پر غور کرے الفاظ میں رد و بدل کر کے اسے صاف رواں اور بہتر پیرایہ میں ڈھالنے کی کوشش کرے اسے آورد کہتے ہیں۔ 

وہ کلام جو بے ساختہ اور برجستہ شاعر کی زبان سے وارد ہوتا ہے، آمد کہلاتا ہے اور جو کلام مشق و مہارت کا نتیجہ ہوتا ہے اسے آورد کہتے ہیں۔{alertInfo}
غالبؔ شعر کو آمد و القا قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

اس کے برعکس خواجہ حیدر علی آتشؔ شاعری کو صنعت گری سے تعبیر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

کھینچ دیتا ہے شبیہہِ شعر کا خاکہ خیال
فکرِ رنگیں کام اس پر کرتی ہے پرواز کا
بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا

حالیؔ نے عام رائج خیال کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ جو شعر شاعر کی زبان یا قلم سے فوراََ ٹپک پڑتا ہے وہ اس شعر سے زیادہ لطیف اور با مزہ ہوتا ہے جو بہت دیر میں غور و فکر کے بعد مرتب کیا گیا ہو۔ پہلی صورت کا نام انہوں نے آمد رکھا ہے اور دوسری کا آورد۔ (مقدمہ شعر و شاعری از مولانا الطاف حسین حالی){alertInfo}