ٹیڑھی لکیر ناول از عصمت چغتائی
اپنے اس ناول "ٹیڑھی لکیر" کے بارے میں عصمت چغتائی لکھتی ہیں:
"کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹیڑھی لکیر میری آپ بیتی ہے ۔ مجھے خود یہ آپ بیتی ہی لگتی ہے۔ میں نے اِس ناول کو لکھتے وقت بہت کچھ محسوس کیا ہے میں نے شمن کے دل میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ آنسو بہائے ہیں اور قہقہے لگائے ہیں۔ اُس کی کمزوریوں سے جل اٹھی ہوں، اس کی ہمت کی داد دی ہے۔ اس کی نادانیوں پر رحم بھی آیا ہے۔ اور شرارتوں پر پیار بھی آیا ہے۔ اس کے عشق و محبت کے کارناموں پر چٹخارے بھی لیے ہیں اور حسرتوں پر دکھ بھی ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر میں کہوں کہ یہ میری آب بیتی ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ تو نہیں؛
{getButton} $text={Download} $icon={download}
ٹیڑھی لکیر پر لوگ کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں لیکن عصمت کی سچائی، جرات، بے باکی، ناقابلِ تقلید حد تک فنی چابکدستی اور تحریر کی سطر سطر میں جاری و ساری خلوص کی لہروں سے انکار بجائے خود معترض کی ذہنی نا پختگی کی دلیل ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مریض کا علاج چاہنے والے مرض کی تشخیص سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسباب کی اس دنیا میں سب سے آنکھیں چرالیں اور ہوالشافی کہہ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں۔
(اکبر علی خاں)
عصمت کو سماج سے نہیں شخصیتوں بلکہ اشخاص سے شغف ہے ان کے جوش و ہوس اُن کی تھرتھراہٹ اور کپکپی سے ان کی کش مکش سے عداوت اور فریب کاری سے، جو انسان پر جب طاری ہوتی ہے تو جسم بھڑکنے لگتا ہے اس کے فن میں خاموش آسودگی یا مسرت عالیہ کہیں نہیں ملے گی۔ بلکہ انسانی خون آپ کو رگوں میں دورٹا نظر آئے گا جیسے پہاڑی ندی کا پانی دوڑتا ہے۔ لبالب اور ابلتا ہوا ٹکراتا ہوا اور رستہ چیرتا ہوا۔
"کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹیڑھی لکیر میری آپ بیتی ہے ۔ مجھے خود یہ آپ بیتی ہی لگتی ہے۔ میں نے اِس ناول کو لکھتے وقت بہت کچھ محسوس کیا ہے میں نے شمن کے دل میں اترنے کی کوشش کی ہے۔ اس کے ساتھ آنسو بہائے ہیں اور قہقہے لگائے ہیں۔ اُس کی کمزوریوں سے جل اٹھی ہوں، اس کی ہمت کی داد دی ہے۔ اس کی نادانیوں پر رحم بھی آیا ہے۔ اور شرارتوں پر پیار بھی آیا ہے۔ اس کے عشق و محبت کے کارناموں پر چٹخارے بھی لیے ہیں اور حسرتوں پر دکھ بھی ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر میں کہوں کہ یہ میری آب بیتی ہے تو کچھ زیادہ مبالغہ تو نہیں؛
{getButton} $text={Download} $icon={download}
ٹیڑھی لکیر پر لوگ کتنی ہی ناک بھوں چڑھائیں لیکن عصمت کی سچائی، جرات، بے باکی، ناقابلِ تقلید حد تک فنی چابکدستی اور تحریر کی سطر سطر میں جاری و ساری خلوص کی لہروں سے انکار بجائے خود معترض کی ذہنی نا پختگی کی دلیل ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مریض کا علاج چاہنے والے مرض کی تشخیص سے گھبراتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسباب کی اس دنیا میں سب سے آنکھیں چرالیں اور ہوالشافی کہہ کر اپنی ذمے داریوں سے سبکدوش ہو جائیں۔
(اکبر علی خاں)
عصمت کو سماج سے نہیں شخصیتوں بلکہ اشخاص سے شغف ہے ان کے جوش و ہوس اُن کی تھرتھراہٹ اور کپکپی سے ان کی کش مکش سے عداوت اور فریب کاری سے، جو انسان پر جب طاری ہوتی ہے تو جسم بھڑکنے لگتا ہے اس کے فن میں خاموش آسودگی یا مسرت عالیہ کہیں نہیں ملے گی۔ بلکہ انسانی خون آپ کو رگوں میں دورٹا نظر آئے گا جیسے پہاڑی ندی کا پانی دوڑتا ہے۔ لبالب اور ابلتا ہوا ٹکراتا ہوا اور رستہ چیرتا ہوا۔
(پطرس بخاری)
Tags:
عصمت چغتائی