اسلم کولسری کی شاعری

اسلم کولسری کی شاعری

اسلم کولسری صبح کی لطافتوں، شام کی رنگینوں، صبا کے جھونکوں، عطر بیز فضاؤں اور رومان انگیز چاندنی راتوں کا شاعر نہیں، اس کی شاعری میں ریشمی اندھیروں اور بد مست فضاؤں کا کوئی مقام نہیں۔ کیونکہ وہ بزمِ طرب کا مغنی نہیں۔ وہ تو دکھیاروں کا ترجمان ہے، جو بزمِ طرب سجانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ یہ تفصیل اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی شاعری میں مظاہرِ فطرت کی رنگینیوں اور زندگی کی بعض سرشاریوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اسلم کے ہاں صبح کی لطافتیں نہیں۔ ان لطافتوں کی یاد، نفی یا تمنا ملتی ہے۔ عطر بیز ہوائیں نہیں، ان ہواؤں کی یاد ہے یا آرزو۔ مثال کے طور پر چاندنی ہی کو لے لیجیے۔
آنسوؤں کے سُرخ موتی رات بھر
چاندنی کی زرد ٹھنڈک میں جلے

غم کی سوغات ہے خموشی ہے
چاندنی رات ہے خموشی ہے

وقت نے کیا کیا مقدس روپ گھائل کر دیے
چاندنی، برکھا، پون، گاگر، ندی، ہمجولیاں

کچھ لوگ منہ میں چاندی کا چمچہ لے کر عظمتوں کی سیج پر پیدا ہوتے ہیں۔ حصولِ مسرت، ان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی میں ذاتی آلام و مصائب کا خانہ خالی ہوتا ہے اور دوسروں کے رنج و محن کو اپنانے یا کم از کم محسوس کرنے کے لیے جس دردمندی کی ضرورت ہے وہ ان کی سرشت میں موجود نہیں ہوتی چنانچہ وہ شاعر سے شعر کی نہیں لطیفے کی توقع کرتے ہیں۔ اسلم ان عظمت مآب خواص کا شاعر نہیں بلکہ یہ خواص تو اس کے دائرہ خطاب سے بالکل ہی خارج ہیں۔ وہ تو عوام کا شاعر ہے۔ ذیل میں اسلم کولسری کے کچھ اشعار منتخب کیے گئے ہیں امید واثق ہے کہ قارئینِ کرام قبول فرمائیں گے :)

1-
زمیں، دودھ، ہوا، چاندنی، شفق، شبنم
کوئی نہیں جسے کہہ دوں کہ ماؤں جیسا ہے

2-
مجھ کو یاد ہے جب اس گھر میں آگ لگی
اوپر سے بادل کا ٹکڑا گزرا تھا 

3-
شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

4-
لطفِ بہار جب ہے کہ شاخوں سے جا لگیں
پتے جو گر پڑے تھے خزاں میں جلے ہوئے

جس انجمن میں تیری رسائی نہیں وہاں
اسلمؔ تری غزل پہ تو کچھ تبصرے ہوئے

5-
مسئلوں کی جھاڑیوں میں پھنس گیا
خواہشِ دیدار کا زخمی ہرن

6-
لاش کے پہلو سے چوری ہو گئے
ایک ٹوٹی سائیکل، خالی ٹِفن

7-
پھر یوں ہوا کہ خود ہی اندھیروں میں کھو گئے
اِک عمر بانٹتے رہے لوگوں میں نُور ہم

8-
میں خدا ہوں تو لامکاں ہی سہی
آدمی ہوں تو پھر مکاں تو ملے

9-
نہ ملے لطفِ جاوداں بن کر
صورتِ مرگِ ناگہاں تو ملے

10-
ایک باسی نان کے ٹکڑے پہ آخر بِک گئی
سانولی مالن کے تازہ پھول بکتے ہی نہ تھے

11-
میرے قاتل کرب میں ہیں اے مرے خالق بتا!
جتنی تلواریں تھیں، کیوں مجھ کو نہ اتنے سر ملے

12-
درس و تدریس، عشق، مزدوری
جو بھی مل جائے کام کرتا ہوں

13-
کاٹے گی ایک نسل، غمِ تیرگی کی فصل
یارانِ شب نواز عجب بیج بو گئے

14-
گر دوستی عزیز ہے اسلمؔ تو اشکِ غم
جلدی سے پونچھ ڈال کوئی دوست آ نہ جائے

15-
چاندنی رات سے وفا کی ہے
اِک مری بے چراغ کُٹیا نے

16-
اپنی دستارِ دریدہ کو بچانے کے لیے
میں نے اسلمؔ سر اٹھایا تھا کہ گردن بھی گئی

17-
میں بہت انمول ہوں لیکن بہت بے مول بھی
میرے سر پر تاج بھی ہے ہاتھ میں کشکول بھی

18-
خوامخواہ کا مشیر مر جائے
کاش میرا ضمیر مَر جائے

19-
ہر صبح زندگی نئے اخبار کی طرح
میرے نحیف جسم کو دفتر میں پھینک دے


20-
موت محنت کشوں کی عادت ہے
زندگی شغل ہے لٹیروں کا

21-
روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں
اور میں مصروف تھا، جا کر منایا بھی نہیں

22-
مسکراتا ہوں عادتاََ اسلمؔ
کون سمجھے مرا غمیں رہنا

23-
یُوں تو چار قدم پر میری منزل تھی
لیکن چلتے چلتے جیون بیت گیا

24-
جسم سے پھوٹنے لگیں کرنیں
یونہی اُس کا خیال آیا تھا

25-
آپ آئے اور تنہائی بڑھی
چارہ سازو، غم گسارو، دوستو

پتیوں میں چھپ کے جگنو سو گئے
وہ نہیں آئے گا اسلمؔ گھر چلو

26-
الم، سوغات ہے شاید
شعورِ ذات ہے شاید

پوَن، مہتاب، خاموشی
غزل کی رات ہے شاید

دھواں اٹھا مرے گھر سے
بھری برسات ہے شاید

یہ دل، میرے ہی پہلو میں
عدو کی گھات ہے شاید

شرافت؟ میں نہیں سمجھا
پرانی بات ہے شاید

27-
جاں، برگِ خزاں ہوئی اسلمؔ
سانس، گویا ہوا کا جھونکا ہے

28-
شہر میں قمقمے چک اُٹھے
گاؤں میں شام ہو گئی ہوگی

پھر حسیں ماہتاب گہنایا
وہ بھی سوچوں میں کھو گئی ہوگی

29-
ہستی کا مفہوم ابھی
اپنی سمجھ سے بالا ہے

30-
آفتابِ حشر سر پر آ گیا
خفتہ بختی سے کہو آنکھیں ملے