انتخاب از کلیاتِ ناصر کاظمی
1۔
او میرے مصروف خدا
۔۔
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
اتنی خلقت کے ہوتے
شہروں میں ہے سنّاٹا
جھونپڑی والوں کی تقدیر
بجھا بجھا سا ایک دیا
خاک اڑاتے ہیں دن رات
میلوں پھیل گۓ صحرا
زاغ و زغن کی چیخوں سے
سوٗنا جنگل چیخ اُٹھا
پیاسی دھرتی جلتی ہے
سوکھ گۓ بہتے دریا
فصلیں جل کر راکھ ہوئیں
نگری نگری کال پڑا
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
2-
ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب
ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے اَلمِ حسن آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ
اشکوں میں ڈھل گئی تری صورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ یہ بھی قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا
یوں بھی گزر گئ شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست ہم نے ترکِ محبّت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
3-
محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار
یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی
پرساں نہ تھا کوئی تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی
دن بھی اُداس اور مری رات بھی اداس
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی
دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے
میں جیسے آشنائے بہاراں نہ تھا کبھی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بے کیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
۔۔۔۔۔۔
4-
کیا دن مجھے عشق نے دکھائے
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
اُس پیکرِ ناز کا فسانہ
دل ہوش میں آۓ تو سُنائے
وہ روحِ خیال و جانِ مضموں
دل اس کو کہاں سے ڈھونڈھ لائے
آنکھیں تھیں کہ دو چھلکتے ساغر
عارض کہ شراب تھرتھرائے
مہکی ہوئ سانس نرم گفتار
ہر ایک روش پہ گل کھلائے
راہوں پہ ادا ادا سے رقصاں
آنچل میں حیا سے منہ چھپائے
اُڑتی ہوئ زلف یوں پریشاں
جیسے کوئی راہ بھول جائے
کچھ پھول برس پڑے زمیں پر
کچھ گیت ہوا میں لہلہائے
5-
مایوس نہ ہو اداس راہی
پھر آۓ گا دورِ صبح گاہی
اے منتظرِ طلوعِ فردا
بدلے گا جہانِ مرغ و ماہی
پھر خاک نشیں اُٹھائیں گے سر
مٹنے کو ہے نازِ کج کلاہی
انصاف کا دن قریب تر ہے
پھر داد طلب ہے بے گناہی
پھر اہلِ وفا کا دور ہوگا
ٹوٹے گا طلسمِ جم نگاہی
آئینِ جہاں بدل رہا ہے
بدلیں گے اوامر و نواہی
6-
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
اب کی فصلِ بہار سے پہلے
رنگ تھے گلستاں میں کیا کیا کچھ
کیا کہوں اب تمھیں خزاں والو
جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ
دل ترے بعد سو گیا ورنہ
شور تھا اس مکاں میں کیا کیا کچھ
7-
حاصلِ عشق ترا حُسنِ پشیماں ہی سہی
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
حُسن بھی حُسن ہے محتاجِ نظر ہے جب تک
شعلۂ عشق چراغِ تہِ داماں ہی سہی
کیا خبر خاک ہی سے کوئ کرن پھوٹ پڑے
ذوقِ آوارگیِ دشت و بیاباں ہی سہی
پردۂ گُل ہی سے شاید کوئ آواز آئے
فرصتِ سیر و تماشاے بہاراں ہی سہی
8-
ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
بہاریں لے کے آۓ تھے جہاں تم
وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں
یہاں تک بڑھ گۓ آلامِ ہستی
کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں
کہاں تک لاۓ ناتواں دل
کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں
نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں
انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
جنھیں ہک دیکھ کر جیتے تھے ناصر
وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
9-
کچھ کہہ کے خموش ہو گئے ہم
قصّہ تھا دراز کھو گئے ہم
تو کون ہے تیرا نام کیا ہے
کیا سچ ہے کہ تیرے ہو گئے ہم
زلفوں کے دھیان میں لگی آنکھ
پُر کیف ہوا میں سو گئے ہم
10۔
پہنچے گور کنارے ہم
نس غمِ دوراں ہارے ہم
سب کچھ ہار کے رستے میں
بیٹھ گئے دکھیارے ہم
ہر منزل سے گزرے ہیں
تیرے غم کے سہارے ہم
دیکھ خیالِ خاطرِ دوست
بازی جیت کے ہارے ہم
آنکھ کا تارا آنکھ میں ہے
اب نہ گِنیں گے تارے ہم
11-
گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
مٹی مٹی سی امیدیں تھکے تھکے سے خیال
بجھے بجھے سے نگاہوں میں غم کے افسانے
ہزار شکر کہ ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
یہ اور بات کہ پوچھا نہ اہلِ دنیا نے
بقدرِ تشنہ لبی پرسشِ وفا نہ ہوئی
چھلک کے رہ گئے تیری نظر کے پیمانے
خیال آگیا مایوس رہ گزاروں کا
پلٹ کے آ گئے منزل سے تیرے دیوانے
کہاں ہے تو کہ ترے انتظار میں اے دوست
تمام رات سلگتے ہیں دل کے ویرانے
امیدِ پرسشِ غم کس سے کیجیے ناصر
جو اپنے دل پہ گزرتی ہے کوئی کیا جانے
12-
عشق میں جیت ہوئی یا مات
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
یوں آیا وہ جانِ بہار
جیسے جگ میں پھیلے بات
رنگ کھُلے صحرا کی دھوپ
زلف گھنے جنگل کی رات
کچھ نہ کہا اور کچھ نہ سُنا
دل میں رہ گئی دل کی بات
یار کی نگری کوسوں دور
کیسے کٹے گی بھاری رات
بستی والوں سے چھپ کر
رو لیتے ہیں پچھلی رات
سنّاٹوں میں سنتے ہیں
سُنی سُنائی کوئ بات
پھر جاڑے کی رُت آئی
چھوٹا دن اور لمبی رات
13-
دیکھ محبّت کا دستور
توٗ مجھ سے میں تجھ سے دور
تنہا تنہا پھرتے ہیں
دل ویراں آنکھیں بے نور
دوست بچھڑتے جاتے ہیں
شوق لیے جاتا ہے دور
ہم اپنا غم بھول گئے
آج کسے دیکھا مجبور
دل کی دھڑکن کہتی ہے
آج کوئی آۓ گا ضرور
کوشش لازم ہے پیارے
آگے جو اس کو منظور
سورج ڈوب چلا ناصر
اور ابھی منزل ہے دور
14-
نہ آنکھیں ہی برسیں نہ تم ہی ملے
بہاروں میں اب کی نئے گُل کھِلے
نہ جانے کہاں لے گئے قافلے
مسافر بڑی دور جا کر ملے
وہی وقت کی قید ہے درمیاں
وہی منزلیں اور وہی فاصلے
جہاں کوئ بستی نظر آ گئی
وہیں رک گئے اجنبی قافلے
تمھیں دل گرفتہ نہیں ساتھیو
ہمیں بھی زمانے سے ہیں کچھ گِلے
ہمیں بھی کریں یاد اہلِ چمن
چمن میں اگر کوئی غنچہ کھِلے
ابھی اور کتنی ہے میعادِ غم
کہاں تک ملیں گے وفا کے صِلے
15-
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کر بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
اک طرف خونِ دل بھی تھا نایاب
اک طرف جشنِ جم منائے گئے
کیا کہوں کس طرح سرِ بازار
عصمتوں کے دئیے بجھائے گئے
آہ وہ خلوتوں کے سرمائے
مجمعِ عام میں لُٹاۓ گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر
خار و خس کی طرح بہائے گئے
16-
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
تڑپ رہے ہیں زباں پر کئی سوال مگر
مرے لئے کوئی شایانِ التماس نہیں
ترے جلو میں بھی دل کانپ کانپ اُٹھتا ہے
مرے مزاج کو آسودگی بھی راس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب اُن دنوں کا تصّور بھی میرے پاس نہیں
گزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دیدہ و دل
سحر کی آس تو ہے زندگی کی آس نہیں
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مِٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
17-
یہ شب یہ خیال و خواب تیرے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
شعلے میں ہے ایک رنگ تیرا
باقی ہیں تمام رنگ میرے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
دیتے ہیں سراغ فصلِ گل کا
شاخوں پہ جلے ہوئے بسیرے
منزل نہ ملی تو قافلوں نے
رستے میں جما لئے ہیں ڈیرے
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو
بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے
رودادِ سفر نہ چھیڑ ناصر
پھر اشک نہ تھم سکیں گے میرے
18-
دن پھر آئے ہیں باغ میں گُل کے
بوۓ گل ہے سُراغ میں گُل کے
دلِ ویراں میں دوستوں کی یاد
جیسے جگنو ہوں داغ میں گُل کے
کیسی آئی بہار اب کے برس
بوۓ خوں ہے ایاغ میں گُل کے
اب تو رتوں میں خاک اڑتی ہے
سب کرشمے تھے باغ میں گُل کے
آنسوؤں کے دئیے جلا ناصر
دم نہیں اب چراغ میں گُل کے
19-
کوئی جیے یا کوئی مرے
تم اپنی سی کر گزرے
دل میں تیری یادوں نے
کیسے کیسے رنگ بھرے
اب وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل
کون اب تجھ کو یاد کرے
پیار کی ریت نرالی ہے
کوئی کرے اور کوئی بھرے
پھول تو کیا کانٹے بھی نہیں
کیسے اُجڑے باغ ہرے
بادل گرجا پون چلی
پھلواری میں پھول ڈرے
پت جھڑ آنے والی ہے
رس پی کر اُڑ جا بھنورے
20-
یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی
لب پہ مشکل سے تیری بات آئی
صبح سے چپ ہیں ترے ہجر نصیب
ہاۓ کیا ہوگا اگر رات آئی
بستیاں چھوڑ کے برسے بادل
کس قیامت کی یہ برسات آئی
کوئ جب مل کے ہوا تھا رخصت
دلِ بے تاب وہی رات آئی
سایۂ زلفِ بتاں میں ناصر
ایک سے ایک نئ رات آئی
21-
نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا
آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے
عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا
یاد ہیں مرحلے محبّت کے
ہائے اس بے کلی میں کیا کچھ تھا
کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
رات بھر ہم نہ سو سکے ناصر
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
22-
کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
مری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غمِ صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں شعلوں کے انبار
بس اے دورِ زماں دیکھا نہ جائے
در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
بھری برسات خالی جا رہی ہے
سرِ ابرِ رواں دیکھا نہ جائے
کہیں تم، اور کہیں ہم، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے
وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصر
اُسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے
23-
صدائے رفتگاں پھر دل سے گزری
نگاہِ شوق کس منزل سے گزری
کبھی روئے کبھی تجھ کو پکارا
شبِ فرقت بڑی مشکل سے گزری
ہواۓ صبح نے چونکا دیا یوں
تری آواز جیسے دل سے گزری
مرا دل خو گرِ طوفاں ہے ورنہ
یہ کشتی بار ہا ساحل سے گزری
24-
گلی گی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ
بستی اب کے ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
سارا سارا دن گلیوں میں پھرتے ہیں بے کار
راتوں اٹھ اٹھ کر روتے ہیں اس نگری کے لوگ
سہمے سہمے سے بیٹھے ہیں راگی اور فنکار
بھور بھۓ اب ان گلیوں میں کون سنائے جوگ
جب تک ہم مصروف رہے یہ دنیا تھی سنسان
دن ڈھلتے ہی دھیان میں آۓ کیسے کیسے لوگ
ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہی پرانی باتیں اس کی وہی پرانا روگ
25-
خموشی انگلیاں چٹکا رہی ہے
تری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے لیکن
ہوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
ترے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دوراں
دلوں کی آگ بجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سنّاٹے میں لیکن
تری آواز اب تک آ رہی ہے
طنابِ خیمۂ گل تھام ناصر
کوئی آندھی اُفق سے آ رہی ہے
26-
کم فرصتیِ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ، وہ شب یاد رہے گی
ہر چند ترا عہدِ وفا بھول گۓ ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شوخیِ یک جنبشِ لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمیِ صحبتِ شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت سخت تھے لیکن
ہر بات بعنوانِ طرب یاد رہے گی
27-
نصیب عشق دلِ بے قرار بھی تو نہیں
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
تلافیِ ستمِ روزگار کون کرے
تو ہم سخن بھی نہیں، راز دار بھی تو نہیں
زمانہ پرسشِ غم بھی کرے تو کیا حاصل
کہ اپنے دل پہ مجھے اختیار بھی تو نہیں
تو ہی بتا کہ تری خاموشی کو کیا سمجھوں
تری نگاہ سے کچھ آشکار بھی تو نہیں
وفا نہیں نہ سہی، رسم و راہ کیا کم ہے
تری نظر کا مگر اعتبار بھی تو نہیں
اگرچہ دل تری منزل نہ بن سکا اے دوست!
مگر چراغِ سرِ رہگزار بھی تو نہیں
بہت فسردہ ہے دل، کون اس کو بہلائے
اُداس بھی تو نہیں، بے قرار بھی تو نہیں
تو ہی بتا ترے بے خانماں کدھر جائیں؟
کہ راہ میں شجرِ سایہ دار بھی تو نہیں
فلک نے پھینک دیا برگِ گل کی چھاؤں سے دور
وہاں پڑے ہیں جہاں خارزار بھی تو نہیں
جو زندگی ہے تو بس تیرے درد مندوں کی
یہ جبر بھی تو نہیں، اختیار بھی تو نہیں
وفا ذریعۂ اظہارِ غم سہی ناصر
یہ کاروبار کوئی کاروبار بھی تو نہ نہیں
28-
دور فلک جب دہراتا ہے موسمِ گل کی راتوں کو
کنجِ قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
ریگِ رواں کی نرم تہوں کو چھیڑتی ہے جب کوئی ہوا
سونے صحرا چیخ اٹھتے ہیں آدھی آدھی راتوں کو
آتشِ غم کے سیلِ رواں میں نیندیں جل کر راکھ ہوئیں
پتھّر بن کر دیکھ رہا ہوں آتی جاتی راتوں کو
مے خانے کا افسردہ ماحول تو یوں ہی تکتا ہے
خشک لبوں کی خیر مناؤ کچھ نہ کہو برساتوں کو
ناصر میرے منہ کی باتیں یوٗں تو سچّے موتی ہیں
لیکن ان کی باتیں سن کر بھُول گۓ سب باتوں کو
29-
سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں
اوّلیں قُرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں
کیسی ویراں ہے گزرگاہِ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں
ایسا اُلجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اُس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
یاد ہے سیرِ چراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
30-
یاد آتا ہے روز و شب کوئی
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لبِ جُو چھاؤں میں درختوں کی
وہ ملاقات تھی عجب کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسمِ طرب کوئی
کچھ خبر لے کہ تیری محفل سے
دور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یوں ہی سی ہے طلب کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیار دے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھائی ہے بار ہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کو مِٹنا تھا مِٹ چکے ناصر
اُن کو رسوا کرے نہ اب کوئی
31-
یاس میں جب کوئی آنسو نکلا
اک نئی آس کا پہلو نکلا
لے اُڑی سبزۂ خود رو کی مہک
پھر تری یاد کا پہلو نکلا
میٹھی بولی میں پپیہے بولے
گنگناتا ہوا جب تو نکلا
آئیں ساون کی اندھیری راتیں
کہیں تارا کہیں جگنو نکلا
نئے مضمون سُجھاتی ہے صبا
کیا ادھر سے وہ سمن بو نکلا
پاؤں چھلنے لگی جلتی ہوئی ریت
دشت سے جب کوئی آہو نکلا
کئی دن رات سفر میں گزرے
آج تو چاند لبِ جو نکلا
طاقِ میخانہ میں چاہی تھی اماں
وہ بھی تیرا خمِ ابرو نکلا
اہلِ دل سیرِ چمن سے بھی گئے
عکسِ گل سایۂ گیسو نکلا
واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
32-
کرتا اسے بےقرار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
کیا روئیں فریبِ آسماں کو
اپنا نہیں اعتبار کچھ دیر
آنکھوں میں کٹی پہاڑ سی رات
سو جا دلِ بے قرار کچھ دیر
اے شہرِ طرب کو جانے والو
کرنا مرا انتظار کچھ دیر
بے کیفیِ روز و شب مسلسل
سر مستیِ انتظار کچھ دیر
تکلیفِ غمِ فراق دائم
تقریبِ وصالِ یار کچھ دیر
یہ غنچہ و گل ہیں سب مسافر
ہے قافلۂ بہار کچھ دیر
دنیا تو سدا رہے گی ناصر
ہم لوگ ہیں یادگار کچھ دیر
33-
ٹھہرا تھا وہ گلعذار کچھ دیر
بھر پور رہی بہار کچھ دیر
اک دھوم رہی گلی گلی میں
آباد رہے دیار کچھ دیر
پھر جھوم کے بستیوں پہ برسا
ابرِ سرِ کوہسار کچھ دیر
پھر لالہ و گل کے مے کدوں میں
چھلکی مۓ مشکبار کچھ دیر
پھر نغمہ و مے کی صحبتوں کا
آنکھوں میں رہا خمار کچھ دیر
پھر شامِ وصالِ یار آئی
بہلا غمِ روزگار کچھ دیر
پھر جاگ اُٹھے خوشی کے آنسو
پھر دل کو ملا قرار کچھ دیر
پھر ایک نشاطِ بے خودی میں
آنکھیں رہیں اشک بار کچھ دیر
پھر ایک طویل ہجر کے بعد
صحبت رہی خوشگوار کچھ دیر
پھر ایک نگار کے سہارے
دنیا رہی سازگار کچھ دیر
34-
اوّلیں چاند نے کیا بات سُجھائی مجھ کو
یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو
سرِ ایوانِ طرب نغمہ سرا تھا کوئی
رات بھر اس نے تری یاد دلائی مجھ کو
دیکھتے دیکھتے تاروں کا سفر ختم ہوا
سو گیا چاند مگر نیند نہ آئی مجھ کو
انہی آنکھوں نے دکھاۓ کئی بھر پور جمال
انھیں آنکھوں نے شبِ ہجر دکھائ مجھ کو
ساۓ کی طرح مرے ساتھ رہے رنج و الم
گردشِ وقت کہیں راس نہ آئی مجھ کو
دھوپ اُدھر ڈھلتی تھی۔ دل ڈوب اِدھر جاتا تھا
آج تک یاد ہے وہ شامِ جدائی مجھ کو
شہر لاہور تری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو
35-
کبھی کبھی تو جذبِ عشق مات کھا کے رہ گیا
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا
جدائیوں کے مرحلے بھی حُسن سے تہی نہ تھے
کبھی کبھی تو شوق آئنے دکھا کے رہ گیا
کسے خبر کہ عشق پر قیامتیں گزر گئیں
زمانہ اس نگاہ کا فریب کھا کے رہ گیا
یہ کیا مقامِ شوق ہے، نہ آس ہے کہ یاس ہے
یہ کیا ہوا کہ لب پہ تیرا نام آ کے رہ گیا
کوئی بھی ہم سفر نہ تھا شریکِ منزلِ جنوں
بہت ہوا تو رفتگاں کا دھیان آ کے رہ گیا
چراغِ شامِ آرزو بھی جھلملا کے رہ گئے
ترا خیال راستے سُجھا سُجھا کے رہ گیا
چمک چمک کے رہ گئیں نجوم و گل کی منزلیں
میں درد کی کہانیاں سُنا سُنا کے رہ گیا
ترے وصال کی امید اشک بن کے بہہ گئی
خوشی کا چاند شام ہی سے جھلملا کے رہ گیا
وہی اداس روز و شب، وہی فسوں، وہی ہوا
ترے وصال کا زمانہ یاد آ کے رہ گیا
36-
رنگ برسات نے بھرے کچھ تو
زخم دل کے ہرے کچھ تو
فرصتِ بے خودی غنیمت ہے
گردشیں ہو گئیں پرے کچھ تو
کتنے شوریدہ سر تھے پروانے
شام ہوتے ہی جل مرے کچھ تو
ایسا مشکل نہیں ترا ملنا
دل مگر جستجو کرے کچھ تو
آؤ ناصر کوئی غزل چھیڑیں
جی بہل جائے گا اے کچھ تو
37-
دن ڈھلا رات پھر آ گئی، سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئ خامشی، سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ اِرم بن گئی سو رہو سو رہو
رزم گاہِ جہاں بن گئی جاۓ امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو
کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا جنبی اجنبی سو رہو سو رہو
تھک گۓ ناقہ و سارباں، تھم گۓ کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئ سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات ہیں
پھر کہاں یہ ہوا، یہ نمی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھو گئے
دور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گۓ
چاند میں سو گئ چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و در راہ تک تک کے شل ہو گۓ
اب نہ آۓ گا شاید کوئ سو رہو سو رہو
سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل پڑے
دور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو
38-
تنہا عیش کے خواب نہ بُن
کبھی ہماری بات بھی سُن
تھوڑا غم بھی اُٹھا پیارے
پھول چُنے ہیں خار بھی چُن
سکھ کی نیندیں سونے والے
محرومی کے راگ بھی سُن
ق
تنہائی میں تیری یاد
جیسے ایک سریلی دھُن
جیسے چاند کی ٹھنڈی لَو
جیسے کرنوں کی کُن مُن
جیسے جل پریوں کا ناچ
جیسے پائل کی جھُن جھُن
39-
ترے خیال سے لَو دے اٹھی ہے تنہائی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
تو کس خیال میں ہے منزلوں کے شیدائی
اُنھیں بھی دیکھ جِنھیں راستے میں نیند آئی
پُکار اے جرسِ کاروانِ صبحِ طرب
بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں تیرے سودائی
ٹھہر گۓ ہیں سرِ راہ خاک اُڑانے کو
مسافروں کو نہ چھیڑ اے ہوائے صحرائی
رہِ حیات میں کچھ مرحلے تو دیکھ لیے
یہ اور بات تری آرزو نہ راس آئی
یہ سانحہ بھی محبّت میں بارہا گزرا
کہ اس نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
دلِ فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اُٹھا
یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی
میں سوتے سوتے کئ بار چونک چونک پرا
تمام رات ترے پہلوؤں سے آنچ آئی
جہاں بھی تھا کوئ فتنہ تڑپ کے جاگ اُٹھا
تمام ہوش تھی مستی میں تیری انگڑائی
کھُلی جو آنکھ تو کچھ اور ہی سماں دیکھا
وہ لوگ تھے، نہ وہ جلسے، نہ شہرِ رعنائی
وہ تابِ درد وہ سوداۓ انتظار کہاں
اُنہی کے ساتھ گئ طاقتِ شکیبائی
پھر اس کی یاد میں دل بے قرار ہے ناصر
بچھڑ کے جس سے ہوئ شہر شہر رسوائی
40-
اداسیوں کا سماں محفلوں میں چھوڑ گئی
بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی
بچھڑ کے تجھ سے ہزاروں طرف خیال گیا
تری نظر مجھے کن منزلوں میں چھوڑ گئی
کہاں سے لائیے اب اُس نگاہ کو ناصر
جو ناتمام امنگیں دلوں میں چھوڑ گئی
41-
بسا ہوا ہے خیالوں میں کوئی پیکرِ ناز
بلا رہی ہے ابھی تک وہ دل نشیں آواز
وہی دلوں میں تپش ہے، وہی شبوں میں گداز
مگر یہ کیا کہ مری زندگی میں سوز نہ ساز
نہ چھیڑ اے خلشِ درد، بار بار نہ چھیڑ
چھپاۓ بیٹھا ہوں سینے میں ایک عمر کا راز
بس اب تو ایک ہی دھن ہے کہ نیند آ جائے
وہ دن کہاں کہ اٹھائیں شبِ فراق کے ناز
گزر ہی جاۓ گی اے دوست تیرے ہجر کی رات
کہ تجھ سے بڑھ کے تیرا درد ہے مرا ہم ساز
یہ اور بات کہ دنیا نہ سن سکی ورنہ
سکوتِ اہلِ نظر ہے بجاۓ خود آواز
یہ بے سب نہیں شام و سحر کے ہنگامے
اٹھا رہا ہے کوئ پردہ ہاۓ راز و نیاز
ترا خیال بھی تیری طرح مکمّل ہے
وہی شباب، وہی دل کشی، وہی انداز
شراب و شعر کی دنیا بدل گئی لیکن
وہ آنکھ ڈھونڈ ہی لیتی ہے بے خودی کا جواز
عروج پر ہے مرا درد ان دنوں ناصر
مری غزل میں دھڑکتی ہے وقت کی آواز
42-
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر ترا وعدۂ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیمانِ وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
حالِ دل ہم بھی سُناتے لیکن
جب وہ رُخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایۂ گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
43-
یہ کہہ رہا ہے دیارِ طرب کا نظّارا
یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا
خیالِ حسن میں کتنا بہار پرور ہے
شبِ خزاں کی خنک چاندنی کا نظّارا
چلے تو ہیں جرسِ گل کا آسرا لے کر
نہ جانے اب کہاں نکلے گا صبح کا تارا
چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر بہار کی لایا ہے کوئی گُل پارا
چلے چلو انھیں گم نام برف زاروں میں
عجب نہیں یہیں مل جاۓ درد کا چارا
کسے مجال کہ رُک جاۓ سانس لینے کو
رواں دواں لۓ جاتا ہے وقت کا دھارا
بگولے یوں اُڑے پھرتے ہیں خشک جنگل میں
تلاشِ آب میں جیسے غزالِ آوارا
ہمیں وہ برگِ خزاں دیدہ ہیں جنھیں ناصر
چمن میں ڈھونڈتی پھرتی ہے بوئے آوارا
44-
تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے ترے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری بستی میں ہوں یا خوابِ طرب ہے کوئی
گیت بُنتی ہے ترے شہر کی بھرپور ہوا
اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی
لیے جاتی ہیں کسی دھیان کی لہریں ناصر
دور تک سلسلۂ تاکِ طرب ہے کوئی
45-
خیالِ ترکِ تمنّا نہ کر سکے تو بھی
اداسیوں کا مداوا نہ کر سکے تو بھی
کبھی وہ وقت بھی آئے کہ کوئی لمحۂ عیش
مرے بغیر گوارا نہ کر سکے تو بھی
خدا وہ دن بھی دکھائے تجھے کہ میری طرح
مری وفا پہ بھروسا نہ کر سکے تو بھی
میں اپنا عقدۂ دل تجھ کو سونپ دیتا ہوں
بڑا مزا ہو اگر وا نہ کر سکے تو بھی
تجھے یہ غم کہ مری زندگی کا کیا ہوگا
مجھے یہ ضد کہ مداوا نہ کر سکے تو بھی
نہ کر خیالِ تلافی کہ میرا زخمِ وفا
وہ زخم ہے جسے اچھا نہ کر سکے تو بھی
47-
فکرِ تعمیرِ آشیاں بھی ہے
خوفِ بے مہریِ خزاں بھی ہے
خاک بھی اُڑ رہی ہے رستوں میں
آمدِ صبح کا سماں بھی ہے
رنگ بھی اڑ رہا ہے پھولوں کا
غنچہ غنچہ شرر فشاں بھی ہے
اوس بھی ہے کہیں کہیں لرزاں
بزمِ انجم دھواں دھواں بی ہے
کچھ تو موسم بھی ہے خیال انگیز
کچھ طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ ترا حسن بھی ہے ہوش ربا
کچھ مری شوخیِ بیاں بھی ہے
ہر نفس شوق بھی ہے منزل کا
ہر قدم یادِ رفتگاں بھی ہے
وجہِ تسکین بھی ہے ا س کا خیال
حد سے بڑھ جا ۓ تو گراں بھی ہے
زندگی جس کے دم سے ہے ناصر
یاد اس کی عذابِ جاں بھی ہے
48-
رنگ صبحوں کے راگ شاموں کے
جیسے سپنا کوئی اداس اداس
کیسا سنسان ہے سحر کا سماں
پتّیاں محوِ یاس، گھاس اداس
خیر ہو شہرِ شبنم و گل کی
کوئ پھرتا ہے آس پاس اداس
بیٹھے بیٹھے برس پڑیں آنکھیں
کر گئ پھر کسی کی آس اداس
کوئ رہ رہ کے یاد آتا ہے
لیے پھرتی ہے کوئ باس اداس
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھرو اداس اداس
صبح ہونے کو ہے اٹھو ناصر
گھر میں بیٹھے ہو کیوں نراس اداس
49-
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آنکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرسِ گل اداس کر کے مجھے
میں سو رہا تھا کسی یاد کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قافلے سحر کے مجھے
میں رو رہا تھا مقدّر کی سخت راہوں میں
اُڑا کے لے گۓ جادو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیانیوں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھولیں گی
مزے ملے انہی راتوں میں عمر بھر کے مجھے
ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غمِ دنیا
بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے
پھر آج آئ تھی اک موجۂ ہواۓ طرب
ستا گئ ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے
50-
سازِ ہستی کی صدا غور سے سُن
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سُن
دن کے ہنگاموں کو بیکار نہ جان
شب کے پردوں میں ہے کیا غور سے سُن
چڑھتے سورج کی ادا کو پہچان
ڈوبتے دن کی ندا غور سے سُن
کیوں ٹھہر جاتے ہیں دریا سرِ شام
روح کے تار ہِلا غور سے سُن
یاس کی چھاؤں میں سونے والے
جاگ اور شورِ درا غور سے سُن
ہر نفس دامِ گرفتاری ہے
تو گرفتارِ بلا غور سے سُن
دل تڑپتا ہے کیوں آخرِ شب
دو گھڑی کان لگا غور سے سُن
اسی منزل میں ہیں سب ہجر و وصال
رہروِ آبلہ پا غور سے سُن
اسی گوشے میں ہیں سب دیر و حرم
دل صنم ہے کہ خدا غور سے سُن
کعبہ سنسان ہے کیوں اے واعظ!
ہاتھ کانوں سے اُٹھا غور سے سُن
موت اور زیست کے اسرار و رموز
آ مری بزم میں آ غور سے سُن
کیا گزرتی ہے کسی کے دل پر
تو بھی اے جانِ وفا غور سے سُن
کبھی فرصت ہو تو اے صبحِ جمال
شب گزیدوں کی دعا غور سے سُن
ہے یہی ساعتِ ایجاب و قبول
صبح کی لَے کو ذرا غور سے سُن
کچھ تو کہتی ہیں چٹک کر کلیاں
کیا سناتی ہے صبا غور سے سُن
برگِ آوارہ بھی اک مطرب ہے
طائرِ نغمہ سرا غور سے سُن
رنگ منّت کشِ آواز نہیں
گُل بھی ہے ایک نوا غور سے سُن
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سُن
آئنہ دیکھ کے حیران نہ ہو
نغمۂ آبِ صفا غور سے سُن
عشق کو حُسن سے خالی نہ سمجھ
نالۂ اہلِ وفا غور سے سُن
دل سے ہر وقت کوئی کہتا ہے
میں نہیں تجھ سے جدا غور سے سُن
ہر قدم راہِ طلب میں ناصر
جرسِ دل کی صدا غور سے سُن
51-
بے مِنّتِ خضرِ راہ رہنا
منظور ہمیں تباہ رہنا
یاروں کو نصیبِ سرفرازi
مجھ کو تری گردِ راہ رہنا
دل ایک عجیب گھر ہے پیارے
اس گھر میں بھی گاہ گاہ رہنا
گر یوں ہی رہ دلوں کی رنجش
مشکل ہے بہم نباہ رہنا
بھر آئے گی آنکھ بھی کسی دن
خالی نہیں صرفِ آہ رہنا
میں ہاتھ نہیں اسے لگایا
اے بے گنہی گواہ رہنا
ناصر یہ وفا نہیں جنوں ہے
اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا
52-
قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے
یک بیک آ کے دکھا دو جھمکی
کیوں پھراتے ہو پریشان مجھے
ایک سے ایک نئ منزل میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے
سُن کے آوازۂ گل کچھ نہ سنا
بس اسی دن سے ہوۓ کان مجھے
جی ٹھکانے نہیں جب سے ناصر
شہر لگتا ہے بیابان مجھے
53-
وا ہوا پھر درِ مے خانۂ گُل
پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گُل
زمزمہ ریز ہوۓ اہلِ چمن
پھر چراغاں ہوا کاشانۂ گُل
رقص کرتی ہوئی شبنم کی پری
لے کے پھر آئی ہے نذرانۂ گُل
پھول برسائے یہ کہہ کر اس نے
میرا دیوانہ ہے دیوانۂ گُل
پھر کسی گُل کا اشارہ پا کر
چاند نکلا سرِ مے خانۂ گُل
پھر سرِ شام کوئی شعلہ نوا
سو گیا چھیڑ کے افسانۂ گُل
آج غربت میں بہت یاد آیا
اے وطن تیرا صنم خانۂ گُل
آج ہم خاک بسر پھرتے ہیں
ہم سے تھی رونقِ کاشانۂ گُل
ہم پہ گزرے ہیں خزاں کے صدمے
ہم سے پوچھے کوئی افسانۂ گُل
کل ترا دور تھا اے بادِ صبا
ہم ہیں اب سرخیِ افسانۂ گُل
54-
جب سے دیکھا ہے ترے ہات کا چاند
میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند
زلفِ شب رنگ کے صد راہوں میں
میں نے دیکھا ہے طلسمات کا چاند
رس کہیں روپ کہیں رنگ کہیں
ایک جادو ہے ملاقات کا چاند
55-
جب تلک دم رہا ہے آنکھوں میں
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
گریہ پیہم رہا ہے آنکھوں میں
رات بھر نم رہا ہے آنکھوں میں
اُس گُلِ تر کی یاد میں تا صبح
رقصِ شبنم رہا ہے آنکھوں میں
صبحِ رخصت ابھی نہیں بھولی
وہ سماں رم رہا ہے آنکھوں میں
دل میں اک عمر جس نے شور کیا
وہ بہت کم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی دیکھی تھی اس کی ایک جھلک
رنگ سا جم رہا ہے آنکھوں میں
56-
کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل یوں ہی انتظار کرتا ہے
دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے
دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے
شہرِ گُل میں کٹی ہے ساری رات
دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئ چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
57-
چمن در چمن وہ رمق اب کہاں
وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں
کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں
وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں
بجھی آتشِ گل، اندھیرا ہوا
وہ اجلے سنہرے ورق اب کہاں
برابر ہے ملنا نہ ملنا ترا
بچھڑنے کا تجھ سے قلق اب کہاں
58-
بے حجابانہ انجمن میں آ
کم سخن محفلِ سخن میں آ
اے مرے آہوۓ رمیدہ کبھی
دل کے اجڑے ہوۓ خُتن میں آ
دل کہ تیرا تھا، اب بھی تیرا ہے
پھر اسی منزلِ کہن میں آ
اے گلستانِ شب کے چشم و چراغ
کبھی اجڑے دلوں کے بَن میں آ
کبھی فرصت ملے تو پچھلے پہر
شب گزیدوں کی انجمن میں آ
صبحِ نورس کی آنکھ کے تارے
چاند مرجھا گیا گہن میں، آ
رنگ بھر دے اندھیری راتوں میں
جانِ صبحِ وطن! وطن میں آ
پھول جھڑنے کی شام آ پہنچی
نو بہارِ چمن! چمن میں آ
59-
دم گھُٹنے لگا ہے وضعِ غم سے
پھر زور سے قہقہہ لگاؤ
پھر دل کی بساط اُلٹ نہ جائے
امّید کی چال میں نہ آؤ
میں درد کے دن گزار لوں گا
تم جشنِ شبِ طرب مناؤ
کچھ سہل نہیں ہمارا ملنا
تابِ غمِ ہجر ہے تو آؤ
60-
تارے گنوائے یا سحر دکھلائے
دیکھۓ شامِ غم کہاں لے جائے
صبحِ نو رس کا راگ سنتے ہی
شبِ گل کے چراغ مرجھائے
صبح نکلے تھے فکرِ دنیا میں
خانہ برب اد دن ڈھلے آئے
کیوں نہ اس کم نما کو چاند کہوں
چاند کو دیکھ کر جو یاد آئے
61-
دور اس تیرہ خاکداں سے دور
دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور
آنے والی بہار کے افسوں
دیکھ ویرانۂ خزاں سے دور
پھول جلتے ہیں شاخچوں سے جدا
شمع روتی ہے شمع داں سے دور
شہر خلقِ خدا سے بیگانہ
کارواں میرِ کارواں سے دور
تیرے زندانیوں کی کون سنے
برق چمکی ہے آشیاں سے دور
چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں
چاند نکلا ہے آسماں سے دور
سو گیا پچھلی رات کا جادو
کوئ اب لے چلے یہاں سے دور
دل عجب گوشۂ فراغت ہے
کیوں بھٹکتے ہو اس مکاں سے دور
کوئ سُنتا نہیں یہاں ناصر
بات دل کی رہی زباں سے دور
62-
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
رس کے معنی جسے نہیں معلوم
ہم نے اس رس بھری کو چوم لیا
پھول سے ناچتے ہیں ہونٹوں پر
جیسے سچ مچ کسی کو چوم لیا
63-
لبِ معجز بیاں نے چھین لیا
دل کا شعلہ زباں نے چھین لیا
دل مرا شب چراغ تھا جس کو
مژۂ خوں چکاں نے چھین لیا
عمر بھر کی مسرّتوں کا خمار
خلشِ ناگہاں نے چھین لیا
تیرا ملنا تو خیر مشکل تھا
تیرا غم بھی جہاں نے چھین لیا
آ کے منزل پہ آنکھ بھر آئی
سب مزا رفتگاں نے چھین لیا
ہر گھڑی آسماں کو تکتا ہوں
جیسے کچھ آسماں نے چھین لیا
باغ سنسان ہو گیا ناصر
آج وہ گل خزاں نے چھین لیا
64-
آنکھوں میں ہیں دکھ بھرے فسانے
رونے کے پھر آ گئے زمانے
پھر درد نے آگ راگ چھیڑا
لَوٹ آۓ وہی سمَے پُرانے
پھر چاند کو لے اڑی ہوائیں
پھر بانسری چھیڑ دی ہوا نے
رستوں میں اداس خوشبوؤں کے
پھولوں نے لٹا دیے خزانے
65-
قفس کو چمن سے سوا جانتے ہیں
ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں
لہو رو کے سینچا ہے ہم نے چمن کو
ہر اک پھول کا ماجرا جانتے ہیں
جسے نغمۂ نَے سمجھتی ہے دنیا
اُسے بھی ہم اپنی صدا جانتے ہیں
اشارا کرے جو نئ زندگی کا
ہم اُس خود کُشی کو روا جانتے ہیں
تری دھُن میں کوسوں سفر کرنے والے
تجھے سنگِ منزل نما جانتے ہیں
66-
آہ پھر نغمہ بنا چاہتی ہے
خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے
آج پھر وسعتِ صحرائے جنوں
پرسشِ آبلہ پا چاہتی ہے
دیکھ کیفیّتِ طوفانِ بہار
بوۓ گل رنگِ ہوا چاہتی ہے
موت آرائشِ ہستی کے لیے
خندۂ زخمِ وفا چاہتی ہے
دل میں اب خارِ تمنّا بھی نہیں
زندگی برگ و نوا چاہتی ہے
سوچ اے دشمنِ اربابِ وفا
کیوں تجھے خلقِ خدا چاہتی ہے
اک ہمیں بارِ چمن ہیں ورنہ
غنچے غنچے کو صبا چاہتی ہے
67-
ہر ادا آبِ رواں کی لہر ہے
جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے
پھر کسی ڈوبے ہوۓ دن کا خیال
پھر وہی عبرت سراۓ دہر ہے
اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور
اس گلستاں کی ہوا میں زہر ہے
68-
شبنم آلود پلک یاد آئی
گلِ عارض کی جھلک یاد آئی
پھر سلگنے لگے یادوں کے کھنڈر
پھر کوئ تاکِ صنک یاد آئی
کبھی زلفوں کی گھٹا نے گھیرا
کبھی آنکھوں کی چمک یاد آئی
پھر کسی دھیان نے ڈیرے ڈالے
کوئ آوارہ مہک یاد آئی
پھر کوئ نغمہ گلو گیر ہوا
کوئ بت نام کسک یاد آئی
ذرّے پھر مائلِ رَم ہیں ناصر
پھر اُنھیں سیرِ فلک یاد آئی
69-
عشق جب زمزمہ پیرا ہوگا
حسن خود محوِ تماشا ہوگا
سُن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہوگا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہوگا
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئ ہم سا ہوگا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہوگا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بے درد کوئ کیا ہوگا
پھر سلگنے لگا صحرائے حیات
ابر گھِر کر کہیں برسا ہوگا
پھر کسی دھیان کے صد راہے ہر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہوگا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہوگا
گل زمینوں کے خُنُک رمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہوگا
پھر نئ رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بوٗ چمن آرا ہوگا
گُلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہوگا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گُل کا بسیرا ہوگا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہوگی
اک شرر پھول میں لرزا ہوگا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہوگا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتّہ پتّہ لبِ گویا ہوگا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اترا ہوگا
70-
کچھ تو احساسِ زیاں تھا پہلے
دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے
اب تو جھونکے سے لرز اٹھتا ہوں
نشّۂ خوابِ گراں تھا پہلے
اب تو منزل بھی ہے خود گرمِ سفر
ہر قدم سنگِ نشاں تھا پہلے
سفرِ شوق کے فرسنگ نہ پوچھ
وقت بے قیدِ مکاں تھا پہلے
یہ الگ بات کہ غم راس ہے اب
اس میں اندیشۂ جاں تھا پہلے
یوں نہ گھبرائے ہوئے پھرتے تھے
دل عجب کنجِ اماں تھا پہلے
اب بھی تو پاس نہیں ہے لیکن
اس قدر دور کہاں تھا پہلے
ڈیرے ڈالے ہیں بگولوں نے جہاں
اُس طرف چشمہ رواں تھا پہلے
اب وہ دریا، نہ وہ بستی، نہ وہ لوگ
کیا خبر کون کہاں تھا پہلے
ہر خرابہ یہ صدا دیتا ہے
میں بھی آباد مکاں تھا پہلے
اُڑ گۓ شاخ سے یہ کہہ کے طیور
سرو ایک شوخ جواں تھا پہلے
کیا سے کیا ہو گئ دنیا پیارے
تو وہیں پر ہے جہاں تھا پہلے
ہم نے آباد کیا ملکِ سخن
کیسا سنسان سماں تھا پہلے
ہم نے بخشی ہے خموشی کو زباں
درد مجبورِ فغاں تھا پہلے
ہم نے ایجاد کیا تیشۂ عشق
شعلہ پتھّر میں نہاں تھا پہلے
ہم نے روشن کیا معمورۂ غم
ورنہ ہر سمت دھواں تھا پہلے
ہم نے محفوظ کیا حسنِ بہار
عطرِ گل صرفِ خزاں تھا پہلے
غم نے پھر دل کو جگایا ناصر
خانہ برباد کہاں تھا پہلے
71-
آئینہ لے لے صبا پھر آئی
بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئی
تازہ رس لمحوں کی خوشبو لے کر
گُل زمینوں کی ہوا پھر آئی
سرمئ دیس کے سپنے لے کر
شبنمِ زمزمہ پا پھر آئی
پھر چمکنے لگیں سونی راہیں
ساربانوں کی صدا پھر آئی
پھر کوئ قافلہ گزرا تھا یہاں
وہی آوازِ درا پھر آئی
72-
کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی
فکرِ وا ماندگاں کرے کوئی
تیرے آوارگانِ غربت کو
شاملِ کارواں کرے کوئی
زندگی کے عذاب کیا کم ہیں
کیوں غمِ لا مکاں کرے کوئی
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے
اب کسے راز داں کرے کوئی
اس چمن میں برنگِ نکہتِ گُل
عمر کیوں رائگاں کرے کوئی
شہر میں شور گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
یہ خرابے ضرور چمکیں گے
اعتبارِ خزاں کرے کوئی
73-
کس کے جلووں کی دھوپ برسی ہے
آج تو شام بھی سحر سی ہے
اہلِ غم ہیں کہ صبح کی تصویر
دل بجھا سا ہے آنکھ ترسی ہے
کیوں نہ کھینچے دلوں کو ویرانہ
اُس کی صورت بھی اپنے گھر کی سی ہے
بے ثمر ہی سہی ہے شاخِ مراد
برف پگھلی تو آگ برسی ہے
دل میں اب کیا رہا ہے تیرے بعد
ایک سنسان رہ گزر سی ہے
صبح تک ہم نہ سو سکے ناصر
رات بھر کتنی اوس برسی ہے
74-
نِت نئی سوچ میں لگے رہنا
ہمیں ہر حال میں غزل کہنا
صحنِ مکتب میں ہم سِنوں کے ساتھ
سنگ ریزوں کو ڈھونڈتے رہنا
گھر کے آنگن میں آدھی آدھی رات
مِل کے باہم کہانیاں کہنا
دن چڑھے چھاؤں میں ببولوں کی
رمِ آہو کو دیکھتے رہنا
ابر پاروں کو، سبزہ زاروں کو
دیکھتے رہنا، سوچتے رہنا
شہر والوں سے چھپ کے پچھلی رات
چاند میں بیٹھ کر غزل کہنا
ریت کے پھول آگ کے تارے
یہ ہے فصلِ مراد کا گہنا
سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے
چاندنی کا لباس کیوں پہنا
کیا خبر کب کوئی کرن پھوٹے
جاگنے والو جاگتے رہنا
75-
سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا
قصّۂ شوق سناؤں کس کو
راز داری کا زمانا نہ رہا
زندگی جس کی تمنّا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا
دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا
اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا
76-
مدّت ہوئی کہ سیرِ چمن کو ترس گئے
گُل کیا غبارِ بوئے سمن کو ترس گئے
ہاں اے سکوتِ تشنگیِ درد کچھ تو بول
کانٹے زباں کے آبِ سخن کو ترس گئے
دل میں کوئی صدا ہے نہ آنکھوں میں کوئ رنگ
تن کے رفیق صحبتِ تن کو ترس گئے
اس عہدِ نو میں دورِ متاعِ وفا نہیں
اس رسم و راہِ عہدِ کہن کو ترس گئے
منزلوں کی ٹھنڈکوں نے لہو سرد کر دیا
جی سست ہے کہ پاؤں چبھن کو ترس گئے
اندھیر ہے کہ جلوۂ جاناں کے باوجود
کوچے نظر کے ایک کرن کو ترس گئے
77-
خواب میں رات ہم نے کیا دیکھا
آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا
کیاریاں دھول سے اٹی پائیں
آشیانہ جلا ہوا دیکھا
فاختہ سر نگوں ببولوں میں
پھول کو پھول سے جدا دیکھا
اُس نے منزل پہ لا کے چھوڑ دیا
عمر بھر جس کا راستا دیکھا
ہم نے موتی سمجھ کے چوم لیا
سنگریزہ جہاں پڑا دیکھا
کم نما ہم بھی ہیں مگر پیارے
کوئی تجھ سا نہ خود نما دیکھا
78-
رنگ دکھلاتی ہے کیا کیا عمر کی رفتار بھی
بال چاندی ہو گئے، سونا ہوئے رخسار بھی
درد کے جھونکوں نے اب کی دل ہی ٹھنڈا کر دیا
آگ برساتا تھا آگے دیدۂ خوں بار بھی
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں بیتاب ہو جاتا ہے دل
پوچھتے کیا ہو میاں، اچھّا بھی ہوں بیمار بھی
شوقِ آزادی لئے جاتا ہے منزل سے پرے
روکتی ہے ہر قدم آوازِ پائے یار بھی
سادگی سے تم نہ سمجھے ترکِ دنیا کا سبب
ورنہ وہ درویش تھے پردے میں دنیا دار بھی
کس طرح گزرے گا ناصر فرصتِ ہستی کا دن
جم گیا دیوار بن کر سایۂ دیوار بھی
79-
بیگانہ وار اس سے ملاقات ہو تو ہو
اب دور دور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو
مشکل ہے پھر ملیں کبھی یارانِ رفتگاں
تقدیر ہی سے اب یہ کرامات ہو تو ہو
ان کو تو یاد آۓ ہوئے مدّتیں ہوئیں
جینے کی وجہ اور کوئ بات ہو تو ہو
کیا جانوں کیوں الجھتے ہیں وہ بات بات پر
مقصد کچھ اس سے ترکِ ملاقات ہو تو ہو
80-
حسن کو دل میں چھپا کر دیکھو
دھیان کی شمع جلا کر دیکھو
کیا خبر کوئی دفینہ مل جائے
کوئ دیوار گرا کر دیکھو
فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں
سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو
کیوں چمن چھوڑ دیا خوشبو نے
پھول کے پاس تو جا کر دیکھو
نہر کیوں سو گئ چلتے چلتے
کوئ پتھّر ہی گرا کر دیکھو
دل میں بیتاب ہیں کیا کیا منظر
کبھی س شہر میں آ کر دیکھو
ان اندھیروں میں کرن ہے کوئی
شب زدہ آنکھ اٹھا کر دیکھو
81-
وہ اس ادا سے جو آئے تو یوں بھلا نہ لگے
ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے
کبھی وہ خاص عنایت کہ سَو گُماں گزریں
کبھی وہ طرزِ تغافل کہ محرمانہ لگے
وہ سیدھی سادی ادائیں کہ بجلیاں برسیں
وہ دلبرانہ مروّت کہ عاشقانہ لگے
دکھاؤں داغِ محبّت جو نا گوار نہ ہو
سناؤں قصّۂ فرقت اگر برا نہ لگے
بہت ہی سادہ ہے تو اور زمانہ ہے عیّار
خدا کرے کہ تجھے شہر کی ہوا نہ لگے
بجھا نہ دیں یہ مسلسل اداسیاں دل کی
وہ بات کر کہ طبیعت کو تازیانہ لگے
جو گھر اجڑ گئے ان کا نہ رنج کر پیارے
وہ چارہ کر کہ یہ گلشن اُجاڑ سا نہ لگے
عتابِ اہلِ جہاں سب بھُلا دیے لیکن
وہ زخم یاد ہیں اب تک جو غائبانہ لگے
وہ رنگ دل کو دیے ہیں لہو کی گردش نے
نظر اُٹھاؤں تو دنیا نگار خانہ لگے
عجیب خواب دکھاتے ہیں ناخدا ہم کو
غرض یہ ہے کہ سفینہ کنارے جا نہ لگے
لیے ہی جاتی ہے ہر دم کوئی صدا ناصر
یہ اور بات سراغِ نشانِ پا نہ لگے
82-
آرائشِ خیال بھی ہو دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنجِ بے خمار کی اب انتہا بھی ہو
یہ کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
ٹوٹے کبھی تو خوابِ شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو
دیوانگئِ شوق کو یہ دھن ہے کہ ان دِنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوارسا بھی ہو
جز دل کوئی مکان نہیں دہر میں جہاں
رہزن کا خوف بھی نہ رہے درکھلا بھی ہو
ہر ذرہ ایک محملِ عبرت ہے دشت کا
لیکن کسے دکھاؤں کوئی دیکھتا بھی ہو
ہر شے پکارتی ہے پس پردۂ سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہم نوا بھی ہو
فرصت میں سن شگفتگیِ غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو
بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو
بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
83-
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصرؔ
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
84-
ممکن نہیں متاعِ سخن مجھ سے چھین لے
گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے سے چھین لے
گر احترام رسمِ وفا ہے تو اے خدا
یہ احترامِ رسمِ کہن مجھ سے چھین لے
منظر دل و نگاہ کے جب ہو گئے اداس
یہ بے فضا علاقۂ تن مجھ سے چھین لے
گل ریز میری نالہ کشی سے ہے شاخ شاخ
گل چیں کا بس چلے تو یہ فن مجھ سے چھین لے
سینچی ہیں دل کے خون سے میں نے یہ کیاریاں
کس کی مجال میرا چمن مجھ سے چھین لے
Tags:
ناصر کاظمی