اندازِ بیان ۔ حسنِ تقریر پر اردو اشعار

اندازِ بیان ۔ حسنِ تقریر پر اردو اشعار
اندازِ بیان ۔ حسنِ تقریر پر اشعار :

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات
(اقبال)

دل میں کچھ چبھتی ہوئی تقریر ہونی چاہیے
نالہ کیسا بات میں تاثیر ہونی چاہیے
(بیخود دھلوی)

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
(مرزا غالب)

بات وہ کہیے کہ جس بات کے سو پہلو ہوں
کوئی پہلو تو رہے بات بدلنے کے لیے
(بیخود دھلوی)

منھ میں زبان۔ زبان میں لطفِ بیاں رہے
لب پر سخن، سخن میں لطافت عیاں رہے
(مفتون دھلوی)

عالم ہے مست، لوٹ ہے بلبل بیان پر
ہر لفظ ایک پھول ہے میری زبان پر
(بے نظیر وارثی)

نہیں ہوتی تو دعا میں نہیں ہوتی تاثیر
اور جو ہوتا ہے تو باتوں میں اثر ہوتا ہے
(مائل دھلوی)

سنا کرتے ہیں پہروں دل لگا کر میرے شیون کو
سخن سنجی سکھاتا ہوں نواسنجانِ گلشن کو
(مائل دھلوی)

سمجھ لیتے ہیں مطلب اپنے اپنے طور پر سامع
اثر رکھتی ہے آتشؔ کی غزل مجذوب کی بڑکا
(آتش لکھنوی)

قابلِ صحبتِ خوباں تو نہیں ہوں لیکن
ربط کے جتنے ہیں انداز مجھے یاد ہیں سب
(اسیر لکھنوی)

اعجازِ جاں وہی ہے ہمارے کلام کو
زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو
(اسیر لکھنوی)

کچھ عجب طرز کا اندازِ بیاں رکھتے ہیں
لوٹ ہیں جس پہ فرشتے وہ زباں رکھتے ہیں
(وصف اکبر آبادی)

نہ ہو کیوں عشق میں ڈوبی ہوئی طرزِ بیاں میری
جوانی گو نہیں لیکن طبیعت ہے جواں میری
(ذبیح)

کیڑا زرا سا اور وہ پتھر میں گھر کرے
انسان وہ کیا نہ جو دلِ دلبر میں گھر کرے
(ذوقؔ دھلوی)