پروین شاکر کی نظمیں | ماہِ تمام سے انتخاب

پروین شاکر کی نظمیں | ماہِ تمام  سے انتخاب

نشاطِ غم
۔
دسمبر کا کوئی یخ بستہ دن تھا
میں یورپ کے نہایت دُور افتادہ علاقے کی
کسی ویران طیراں گاہ میں
بلکل اکیلی بینچ پر بیٹھی تھی
اعلانِ سفر کی منتظر تھی
جہاں تک آنکھ شیشے کے ادھر جاتی
اداسی سے گلے ملتی
مسلسل برفباری ہو رہی تھی!

اچانک میں نے اپنے سے مخاطب
بہت مانوس اک آواز دیکھی
"آپ کیسی ہیں؟
اکیلی ہیں؟
گھنے بالوں بھوری آنکھوں
دلنشیں باتوں سے پُر
وہ پُر کشش لڑکا کہاں ہے؟
آپ دونوں ساتھ کتنے اچھے لگتے تھے!"

مرے چہرے پہ اک سایہ سا لہرایا تھا شاید
وہ آگے کچھ نہیں بولا!
میرا دل دکھ سے کیسا بھر گیا تھا
مگر تہہ میں خوشی کی لہر بھی تھی
پُرانے لوگ ابھی بھولے نہیں ہم کو
ہمیں بچھڑے ۔ اگرچہ
آج سولہ سال تو ہونے کو آئے ہیں
۔



حبس بہت ہے
۔
حبس بہت ہے
اشکوں سے یوں آنچل گیلے کر کے ہم
دل پر کب تک ہوا کریں
باغ کے دَر پہ قُفل پڑا ہے
اور خوشبو کے ہاتھ بندھے ہیں
کسے صدا دیں
لفظ سے معنی بچھر چکے ہیں
لوگ پرانے اجڑ چکے ہیں
نابینا قانون وطن میں جاری ہے
آنکھیں رکھنا
جرمِ قبیح ہے
قابلِ دست اندازیِ حاکمِ اعلیٰ ہے!
حبس بہت ہے!

۔


کشف
۔
ہونٹ بے بات ہنسے
زلف بے وجہ کھلی
خواب دکھلا کے مجھے
نیند کس سمت چلی
خوشبو لہرائی مرے کان میں سرگوشی کی
اپنی شرمیلی ہنسی میں نے سنی
اور پھر جان گئی
میری آنکھوں میں ترے نام کا تارہ چمکا!
۔



کانچ کی سرخ چُوڑی
کانچ کی سرخ چوڑی
مرے ہاتھ میں
آج ایسے کھنکنے لگی
جیسے کل رات شبنم سے لکھی ہوئی
ترے ہاتھ کی شوخیوں کو
ہواؤں نے سُر دے دیا ہو!



گماں
۔
میں کچی نیند میں ہوں
اور اپنے نیم خوابیدہ تنفس میں اُترتی
چاندنی کی چاپ سنتی ہوں
گماں ہے
آج بھی شاید
مرے ماتھے پہ تیرے لب، ستارے ثبت کرتے ہیں!

۔


پیار
۔
ابر نے 
پھول کا چہرہ 
اپنے بنفشی ہاتھ میں لے کر
ایسے چُوما
پھول کے سارے دکھ
خوشبو بن کر بہہ نکلے ہیں


۔
نوید
سماعتوں کو نوید ہو ۔ کہ
ہوائیں خوشبو کے گیت لے کر
دریچہء گل سے آ رہی ہیں!

۔

پہلے پہل
۔
شک چپ ہے
بند خاموش ہے
گالوں پہ ویسی تمتماہٹ بھی نہیں، لیکن
میں گھر سے کیسے نکلوں گی
ہوا، چنچل سہیلی کی طرح باہر کھڑی ہے
دیکھتے ہی مسکرائے گی!
مجھے چھو کر تری ہر بات پا لے گی
تجھے مجھ سے چرا لے گی
زمانے بھر سے کہہ دے گی، میں تجھ سے مل کے آئی ہوں!
ہوا کی شوخیاں یہ
اور میرا بچپنا ایسا
کہ اپنے آپ سے بھی میں
تری خوشبو چھپاتی پھر رہی ہوں
۔

واہمہ
۔
تمہارا کہنا ہے
تم مجھے بے پناہ شدت سے چاہتے ہو
تمہاری چاہت
وصال کی آخری حدوں تک
مرے۔ فقط میرے نام ہوگی
مجھے یقیں ہے۔ مجھے یقیں ہے،
مگر قسم کھانے والے لڑکے!
تمہاری آنکھوں میں ایک تِل ہے!
۔

اُس وقت
۔
جب آنکھ میں شام اُترے
پلکوں پہ شفق پھولے
کاجل کی طرح، میری
آنکھوں کی دھنگ چھو لے
اس وقت کوئی، اس کو
آنکھوں سے مری دیکھے
پلکوں سے مری چُومے!

۔

پیشکش
۔
اتنے اچھے موسم میں
رُوٹھنا نہیں اچھا
ہار جیت کی باتیں
کل پہ ہم اٹھا رکھیں
آج دوستی کر لیں!

۔

خلش
۔
عجیب طرزِ ملاقات اب کے بار رہی
تمہی تھے بدلے ہوئے یا مری نگاہیں تھیں!

تمہاری نظروں سے لگتا تھا جیسے میری بجائے
تمہارے گھر میں کوئی اور شخص آیا ہے
تمہارے عہدے کی دینے تمہیں مبارکبار
سو تم نے میرا سواگت اسی طرح سے کیا
جو افسرانِ حکومت کے ایٹی کیٹ میں ہے!

تکلفاََ مرے نزدیک آ کے بیٹھ گئے
پھر اہتمام سے موسم کا ذکر چھیڑ دیا
کچھ اس کے بعد سیاست کی بات بھی نکلی
ادب پہ بھی کوئی دو چار تبصرے فرمائے
مگر نہ تم نے ہمیشہ کی طرح یہ پوچھا
کہ وقت کیسا گزرتا ہے تیرا، جانِ حیات!
پہاڑ دن کی اذیت میں کتنی شدت ہے
اُجاڑ رات کی تنہائی کیا قیامت ہے!
شبوں کی سُست روی کا تجھے بھی شکوہ ہے؟
غمِ فراق کے قصے، نشاطِ وصل کا ذکر
روایتاََ ہی سہی، کوئی بات تو کرتے!
۔

بس اتنا یاد ہے
دُعا تو جانے کون سی تھی
ذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے 
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جن میں ایک میری تھی
اور اک تمہاری!
۔



اُس کے مسیحا کے لیے ایک نظم
۔
اجنبی!
کبھی زندگی میں اگر تو اکیلا ہو
اور درد حد سے گزر جائے
آنکھیں تری
بات بے بات رو پڑیں
تب کوئی اجنبی
تیری تنہائی کے چاند کا نرم ہالہ بنے
تیری قامت کا سایہ بنے
تیرے زخموں پہ مرہم رکھے
تیری پلکوں سے شبنم چنے
تیرے دُکھ کا مسیحا بنے!
۔



تشکر
۔
دشتِ غربت میں جس پیڑ نے
میرے تنہا مسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے
اس کی شادابیوں کے لیے
میری سب اُنگلیاں
ہوا میں دُعا لکھ رہی ہیں
۔



موسم کی دُعا
۔
پھر ڈسنے لگی ہیں سانپ راتیں
برساتی ہیں آگ پھر ہوائیں
پھیلا دے کسی شکستہ تن پر
بادل کی طرح سے اپنی بانہیں!
۔



صرف ایک لڑکی
۔
اپنے سرد کمرے میں 
میں اداس بیٹھی
نیم وا دریچوں سے
نم ہوائیں آتی ہیں
میرے جسم کو چھو کر
آگ سی لگاتی ہیں
تیرا نام لے لے کر
مجھ کو گدگداتی ہیں
کاش میرے پر ہوتے
تیرے پاس اُڑ آتی
کاش میں ہوا ہوتی
تجھ کو چھو کے لوٹ آتی
میں نہیں مگر کچھ بھی
سنگ دل رواجوں کے
آہنی حصاروں میں
عمر قید کی ملزم
صرف ایک لڑکی ہوں!
۔



توقع
۔
جب ہوا
دھیمے لہجوں میں کچھ گنگناتی ہوئی
خواب آسا، سماعت کو چھو جائے، تو
کیا تمہیں کوئی گزری ہوئی بات یاد آئے گی؟

۔



چاند رات
۔
گئے برس عید کا دن کیا اچھا تھا
چاند کو دیکھ کے اس کا چہرہ دیکھا تھا
فضا میں کیٹس کے لہجے کی نرماہٹ تھی
موسم اپنے رنگ میں فیضؔ کا مصرعہ تھا
دُعا کے بے آواز، اُلوہی لمحوں میں
وہ لمحہ بھی کتنا دلکش لمحہ تھا
ہاتھ اُٹھا کر جب آنکھوں ہی آنکھوں میں
اس نے مجھ کو اپنے رَب سے مانگا تھا
پھر میرے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر
کتنے پیار سے میرا ماتھا چُوما تھا!

ہوا! کچھ آج کی شب کا بھی احوال سُنا
کیا وہ اپنی چھت پر آج اکیلا تھا؟
یا کوئی میرے جیسی تھی، اور اس نے
چاند کو دیکھ کے اُس کا چہرہ دیکھا تھا؟
۔



مقدر
میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گھونگھٹ اٹھا کے یہ کہہ دے
میرا سب کچھ ترا ہے، دل کے سوا!

۔



مشورہ
۔
ہماری محبت کی کلینیکل موت واقع ہو چکی ہے!
معزرتوں اور عذر خواہیوں کا مصنوعی تنفس 
اسے کب تک زندہ رکھے گا
بہتر یہی ہے
کہ ہم منافقت کا پلگ نکال دیں
اور ایک خوبصورت جذبے کو باوقار موت مرنے دیں!

۔



I'LL MISS YOU
۔
جانے سے پہلے 
اس نے میرے آنچل سے ایک فقرہ باندھ دیا
I'LL MISS YOU
سارا سفر 
خوشبو میں بسا رہا!
۔




کتنے برس لگے۔۔
کتنے برس لگے
یہ جاننے میں
کہ میرے اندر تیرا ہونا کیا ہے
ایسا ہونا بھی چاہیے تھا
شام ہوتے ہی
چاند میں روشنی نہیں آ جاتی
رات ہوتے ہی
رات کی رانی مہک نہیں اٹھتی
شام اور روشنی کی بیچ
رات اور خوشبو کے بیچ
ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے
جس کا ہماری زمین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا
اس آسمانی لمحے نے
اب ہمیں چھو لیا ہے!

۔



کراچی
۔
کراچی
ایک ایسی بیسوا ہے
جس کے ساتھ
پہاڑوں، میدانوں اور صحراؤں سے آنے والا
ہر سائز کے بٹوے کا آدمی
رات گزارتا ہے
اور صبح اٹھتے ہی
اس کے داہنے رُخسار پر
ایک تھپڑ رسید کرتا ہے
اور دوسرے گال کی توقع کرتے ہوئے
کام پر نکل جاتا ہے
اگلی رات کے نشے میں سرشار!
۔




بشیرےؔ کی گھر والی
۔
ہے رے تیری کیا اوقات
دودھ پلانے والے جانوروں میں
سب سے کم اوقات
پُرش کی پسلی سے تو تیرا جنم ہوا
اور ہمیشہ پیروں میں تُو پہنی گئی
جب ماں جایا پھلواری میں تتلی ہوتا
تیرے پھول سے ہاتھوں میں
تیرے قد سے بڑی جھاڑو ہوتی
ماں کا آنچل پکڑے پکڑے
تجھ کو کتنے کام آ جاتے
اُپلے تھاپنا
لکڑی کاٹنا
پھر بھی مکھن کی ٹکیہ
ماں نے ہمیشہ بھیا کی روٹی پہ رکھی
تیرے لیے بس رات کی روٹی
رات کا سالن
روکھی سوکھی کھاتے
موٹا جھوٹا پہنتے
تجھ پہ جوانی آئی
تیرے باپ کی نفرت تجھ سے اور بڑھی
تیرے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر
ایسی کڑی نظر رکھی
جیسے زرا سی چُوک ہوئی
اور تو بھاگ گئی
سولھواں لگتے ہی
ایک مرد نے اپنے من کا بوجھ
دوسرے مرد کے تن پہ اتار دیا
بس گھر اور مالک بدلا
تیری چاکری وہی رہی
بلکہ کچھ اور زیادہ
اب تیرے ذمے شامل تھا
روٹی کھلانے والے کو
رات گئے خوش بھی کرنا
اور ہر ساون گابھن ہونا
پورے دنوں سے گھر کا کام سنبھالتی
پتی کا ساتھ
بس بستر تک
آگے تیرا کام!
کیسی نوکری ہے
جس میں کوئی دیہاڑی نہیں
جس میں کوئی چھٹی نہیں
جس میں الگ ہو جانے کی سرے سے کوئی ریت نہیں
ڈھوروں ڈنگروں کو بھی
جیٹھ اساڑھ کی دھوپ میں
پیڑ تلے سستانے کی آزادی ہوتی ہے
تیرے بھاگ میں ایسا کوئی سمے نہیں
تیری جیون پگڈنڈی پر کوئی پیڑ نہیں ہے
ہے رے
کن کرموں کا پھل ہے تُو
تن بیچے تو کسبی ٹھہرے
من کا سودا کرے اور پتنی کہلائے
سمے کے ہاتھوں ہوتا رہے گا
کب تک یہ اپمان
ایک نوالہ روٹی
ایک کٹورے پانی خاطر
دیتی رہے گی کب تک تُو بلیدان

۔

(سلسلہ ابھی جاری ہے)
گاہے گاہے وزٹ کرتے رہیے
:)

ماہِ تمام - کلیات پروین شاکر

تم نے تو تھک کے دشت میں خیمے لگا لیے
تنہا کٹے کسی کا سفر ۔ تم کو اس سے کیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پروین شاکر

 Download E-Book Here