محسن نقوی کے تمام قطعات | حصہ اول

محسن نقوی کے تمام قطعات (حصہ اول)
مقروضِ غمِ دیدہء تر ہے ترا محسن،
مُدت سے یونہی خاک بسر ہے ترا محسنؔ
شاید کسی رستے کی ہوا تیری خبر دے
اس واسطے مصروفِ سفر ہے ترا محسنؔ

کتنا چپ چاپ ہے ماحول مری بستی کا
ماتمی خانہ بدوشوں کے بسیروں جیسا
کیا کہیں اب کے عجب عشق ہوا ہے محسنؔ
سرد شاموں کی طرح گرم سویروں جیسا

کبھی جو غم نے گھڑی بھر کو تھک کے سانس لیا
میں خوش ہوا کہ شبِ ہجرِ یار ڈھلنے لگی
شہیدِ مقتلِ کرب و بلا کا ضبط نہ پوچھ
کہ ضربِ خنجرِ قاتل بھی ہاتھ ملنے لگی!

دن بھر خفا تھی مجھ سے مگر چاند رات کو
مہندی سے میرا نام لکھا اس نے ہاتھ پر
یوں ہم سے ہر گھڑی ہے گریزاں یہ کائنات
جیسے ہمارا حق ہی نہیں کائنات پر

کون ہے معتبر زمانے میں
کس کے وعدے پہ اعتماد کریں؟
بھول جانے کی عمر بیت گئی
آؤ اِک دوسرے کو یاد کریں

خیامِ لشکرِ اعدا میں کیوں نہ خاک اُڑے
فرات پر تو مری تشنگی کے پہرے ہیں
ہمیں خبر تھی کہ صحرا میں منزلیں ہیں کہاں
قدم قدم پہ مگر بار بار ٹھہرے ہیں

نہ سو سکے گا وہ صحرا کہ جس نے عمر کے بعد
ہوا کے دوش پہ بادل کی مشک دیکھی ہے
مری صفائی میں شاید کوئی نکل آئے
عدالتوں میں گواہوں کی بھیڑ رہتی ہے

آ جا کہ ابھی ضبط کا موسم نہیں گزرا
آ جا کے پہاڑوں پہ ابھی برف جمی ہے
خوشبو کے جزیروں سے ستاروں کی حدوں تک
اس شہر میں سب کچھ ہے بس اک تیری کمی ہے

تو نے نفرت سے جو دیکھا تو مجھے یاد آیا
کیسے رشتے تری خاطر یونہی توڑ آیا ہوں
کتنے دھندلے ہیں یہ چہرے جنہیں اپنایا ہے
کتنی اُجلی تھیں وہ آنکھیں جنہیں چھوڑ آیا ہوں

10۔
دنیا مجھی سے میرا پتہ پوچھتی رہی
میرا وجود گم تھا کسی اور ذات میں
تیرا وصال تھا کہ زمانوں کی سلطنت
لمحوں پہ تھی گرفت کہ صدیاں تھیں ہات میں

11۔
کچھ یوں کبھی شہر بھر میں پہیلی ہے ایک تُو
سب کی سہیلیاں ہیں، اکیلی ہے ایک تُو
شامِ سفر کا اور اثاثہ ہی کچھ نہیں
اک تیری بے چراغ ہتھیلی ہے ایک تُو


12۔
ختم ہونے کو ہے سفر شاید
پھر ملیں گے کبھی ۔۔ مگر شاید
شہر میں روشنی کا میلہ ہے
جل گیا پھر کسی کا گھر شاید

13۔
تیرا فراق، دلِ کی تباہی، رُتوں کا خوف
میرے لیے یہ سال قیامت کا سال تھا
درویش کو طلب تھی متاعِ خلوص کی
مخلوق چپ رہی کہ یہ مشکل سوال تھا

14۔
چاندنی کارگر نہیں ہوتی
تیرگی مختصر نہیں ہوتی
اُن کی زلفیں اگر بکھر جائیں
احتراماََ سحر نہیں ہوتی

15۔
خرد کی لَو میں پگھلتے ہوئے ایاغ ملے
جنوں کی آگ میں جلتے ہوئے چراغ ملے
قبائے صبحِ درخشاں ہی تار تار نہ تھی
لباسِ شب پہ بھی کچھ تہمتوں کے داغ ملے

16۔
مخلوق تو فنکار ہے اس درجہ کہ پل میں
سنگِ درِ کعبہ سے بھی اصنام تراشے
تو کون ہے اور کیا ہے، ترا داغِ قبا بھی
دنیا نے تو مریم پہ بھی الزام تراشے

17۔
غمِ حیات سے دامن بچا کے چل نہ سکا
میں آرزو کے کھلونوں سے بھی بہل نہ سکا
یہی بہت ہے کہ ٹکرا گیا ہوں لہروں سے
یہ اور بات کہ طوفاں کا رُخ بدل نہ سکا

18۔
جو خامشی کے نگر میں مقیم ہوتے ہیں
وہی تو اصل میں رُوحِ کلیم ہوتے ہیں
میں پوجتا ہوں پتنگوں کو اس لیے محسنؔ
کہ روشنی کے پیمبر عظیم ہوتے ہیں

19۔
فسونِ دیر و حرم اور بھی چلے گا ابھی
یقیں نہیں کہ یہ سورج یونہی ڈھلے گا ابھی
دلِ غریب کے زخموں کی روشنی میں بڑھو
چراغِ راہ گزر دیر تک جلے گا ابھی

20۔
چاند کا زخم نکھرتا ہے فروزاں ہو کر
زُلفِ حالات سنورتی ہے پریشاں ہو کر
مصلحت جب بھی ہواؤں سے اُلجھنا چاہے
ہم سلگتے ہیں چراغِ تہِ داماں ہو کر

21۔
اپنی خاموش اُمنگوں سے صدا مانگتا ہے
رُوح کے زخم سے اندازِ حِنا مانگتا ہے
کتنا پاگل ہے مرا دل کہ بصد رنگِ خلوص
اجنبی شہر میں لُٹنے کی دُعا مانگتا ہے

22۔
وہ ہنس دیے تو ستارے بکھر گئے ہر سُو
وہ رو دیے تو کوئی رات مشک بُو نہ ہوئی
وہ چل دیے تو کئی داستانیں چھوڑ گئے
وہ مل گئے تو کوئی بات رُوبرو نہ ہوئی

23۔
وہ پھول تھا ہر آنکھ کے گلداں میں سجا ہے
میں زخم ہوں رنگوں میں بکھر نہیں سکتا
وہ زیست کا معصوم پیمبر تھا، مگر میں
جینے کا گنہگار ہوں، میں بھی نہیں سکتا

24۔
مرے مزاج کا دشمن مری گواہی دے
کہ تیرا نام بھی لیتا ہوں میں دُعا کی طرح
ہزار تہمتیں دنیا نے بخش دیں مجھ کو
میں آدمی تھا مگر چپ رہا خدا کی طرح

25۔
وقت لمحوں کا سنہرا جال ہے
غم، رُخِ ہستی پہ گہرا خال ہے
زندگی، صحرا پہ اِک نقشِ قدم
نوجوانی، ہِرنیوں کی چال ہے

26۔
تنہائی ڈس رہی ہے مجھے
درد کے بادلوں نے گھیرا ہے
لَو چراغوں کی تیز تر کر دو
شہرِ دل میں بڑا اندھیرا ہے

27۔
مصلحت کے چمن کا حال نہ پوچھ
نکہتوں سے دماغ جلتے ہیں
جو اندھیروں کی تہ میں بہتا ہو
اُس لہو سے چراغ جلتے ہیں

28۔
مسکراہٹ کی روشنی کا سبب
آنسوؤں کے چراغ ہوتے ہیں
جن کے چہرے ہوں چاند کی صورت
اُن کے دل میں بھی داغ ہوتے ہیں

29۔
مزاجِ دل پہ حوادث کا وار چل بھی گیا
مرا شعور غمِ زندگی میں ڈھل بھی گیا
مسرتوں سے بچھڑنے لگا تھا ذہن ابھی
ہوائے گردشِ دوراں کا رُخ بدل بھی گیا

30۔
اک طرف سیم و زَر کے بستر پر
زندگی کروٹیں بدلتی ہے
اک طرف مفلسی کے دوزخ میں
آدمیت کی لاش جلتی ہے

31۔
جسے قبائے امارت سمجھ رہے ہیں جناب
کسی کے جسم سے چھینا ہوا کفن تو نہیں
امیرِ شہر کی مسند کو غور سے دیکھو
کسی غریب کی بیٹی کا پیرہن تو نہیں

32۔
یہ تری آنکھ ہے یا جھیل کے پاکیزہ کنول
یہ ترا چہرہ ہے یا سجدہ گہِ نورِ سحر
یہ تری مانگ میں افشاں ہے کہ تاروں کا ہجوم
یہ ترے لب ہیں کہ یاقوت سے انمول گہر

33۔
اک حسیں اضطراب ہوتا ہے
تشنگی دل کی اور بڑھتی ہے
وہ اگر بے نقاب ہو جائیں
چاندنی بھی درود پڑھتی ہے

34۔
ہر گھڑی وقفِ طرب صبحِ ازل کی صورت
ہر نفس گرمِ جنوں تھا دمِ عیسٰی کی طرح
مَیں نے اُس مریمِ معصوم کی خاطر محسنؔ
دل کو سو بار سجایا ہے کلیسا کی طرح

35۔
موت کی بے رُخی کے متوالو!
زندگی کے اَسیر بن جاؤ
فقر کی سلطنت نرالی ہے
بادشاہو! فقیر بن جاؤ

36۔
لغزشوں کے حسیں سائے میں
میکدے کے اصول بنتے ہیں
دل کے زخموں سے خار مت کھاؤ
دل کے زخموں سے پھول بنتے ہیں

37۔
یُوں کسی مہ جبیں کے چہرے پر
کھیلتی ہے شباب کی رانی
جیسے ساون کی اُودی چھاؤں میں
رقص کرتا ہے سندھ کا پانی

38۔
اُف تمہاری حسین آنکھوں میں
کیفیت نیند کے خماروں کی
جس طرح تھک کے چُور ہو جائے
سانولی شام، کوہساروں کی

39۔
آرزوؤں کی سوہنیاں ڈوبیں
میرے دل کے چناب میں اکثر
جیسے اک مَے گُسار کے آنسو
ڈوبتے ہیں شراب میں اکثر

40۔
زلفوں میں سکوں پائے تھکن "شامِ اَوَدھ" کی
رُخ "صبحِ بنارس" کی اُمنگوں کا کنول ہے
اُس شوخ کو الفاظ کے شیشے میں نہ ڈھالو
غالبؔ کا تخیل ہے وہ حافظؔ کی غزل ہے

41۔
اب کے تُو اس طرح سے یاد آیا
جس طرح دشت میں گھنے سائے
جیسے دُھندلے سے آئینے کے نقوش
جیسے صدیوں کی بات یاد آئے

42۔
موسمِ غم ہے مہرباں اب کے
ہم پہ تنہائیوں کا سایا ہے
بعض اوقات رات یُوں گزری
تُو بھی کم کم ہی یاد آیا ہے



43۔
میں سجاتا ہوں پیاس ہونٹوں پر
تم گھٹا بن کے دل پہ چھا جاؤ
اے رگِ جاں میں گونجنے والو!!
اور بھی کچھ قریب آ جاؤ!!!

44۔
ہم نے سچ بولنے کی جرات کی
تیرے بارے میں اور کیا کہتے
غیرتِ جاں کی بات تھی ورنہ
ہم تیرے سامنے بھی چپ رہتے

45۔
جو کبھی زندگی کا محور تھے
کاش اب بھی وہ دوست کہلاتے
جو بھلائے نہ جا رہے تھے کبھی!
اب وہی یاد بھی نہیں آتے

46۔
جی میں آئی تو بیچ کر شیشے
شعلہء جامِ جم خریدیں گے
ہم وہ تاجر ہیں جو سرِ محفل
قہقہے دے کے غم خریدیں گے

47۔
تو وہ کج بِیں کہ تجھ کو منزل پر،
رہگزاروں کے بَل دِکھائی دیں،
میں خوش فہم ہوں کہ مجھ کو سدا
آبلے بھی کنول دکھائی دیں!

48۔
صرف ہرجائی پن کی بات نہیں
اب ہمیں لوگ کیا نہیں کہتے
اس قدر ظلم سہہ کے بھی اے دوست
ہم تجھے بے وفا نہیں کہتے

49۔
غم کو زُلفوں کا بَل نہیں کہتا
زخمِ جاں کو کنول نہیں کہتا
وہ جو اک پل کو روٹھ جاتا ہے
مدتوں میں غزل نہیں کہتا

50۔
سیرتیں بے قیاس ہوتی ہیں
صورتیں غم شناس ہوتی ہیں
جن کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہو
اُن کی آنکھیں اُداس ہوتی ہیں