مری آواز بھاری ہو رہی ہے | جمال احسانی

نشے کی لہر طاری ہو رہی ہے
مری آواز بھاری ہو رہی ہے

رقیبوں پر عنایت بر سرِ بزم
بہت خاطر ہماری ہو رہی ہے

سبھی میرے مرض کو کوستے ہیں
یہ کیا تیمارداری ہو رہی ہے

چمن کا راستہ مت گھیر کے بیٹھ
خفا بادِ بہاری ہو رہی ہے

سب اپنے اپنے گھر میں مطمئن ہیں
مجھے کیوں بیقراری ہو رہی ہے

گلی کے ایک گھر میں عید کے روز
یہ کسی آہ و زاری ہو رہی ہے

سنا ہے اس گلی سے عاشقوں کی
نئی فہرست جاری ہو رہی ہے

جو آئے پوچھتا ہے عمر میری
عجب تیمارداری ہو رہی ہے

کہاں جائیں پرانے لوگ تیرے
نئی عاشق شماری ہو رہی ہے

مرے پہلو میں وہ ہے اور مجھ پر
عجب وحشت سی طاری ہو رہی ہے

۔۔۔۔۔۔
جمال احسانی