اس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں۔ پروین شاکر

اُس سے ملنا ہی نہیں دل میں تہیہ کر لیں
وہ خود آئے تو بہت سرد رویہ کر لیں

ایک ہی بار یہ گھر راکھ ہو، جاں تو چھوٹے
آگ کم ہے تو ہوا اور مہیا کر لیں

کیا ضمانت ہے کہ وہ چاند اُتر آئے گا
تارِ مژگاں کو اگر عقدِ ثریا کر لیں

سانس اُکھڑ جاتا ہے اب وقت کی ہم گامی میں
جی میں آتا ہے کہ ہم پاؤں کو پہیہ کر لیں

کوئی پوچھے کہ زباں کیا ہے تری تو پروینؔ
وقت ایسا ہے کہ بہتر ہے تقیہ کر لیں


۔۔۔۔
پروین شاکر
(انکار سے انتخاب)