Shayad شاید by Jaun Elia

Shayad شاید by Jaun Elia Pdf

دورِ جدید میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر سب سے سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعر جون ایلیا جو اردو شاعری کے قدر دانوں اور نسلِ نوع میں یکساں مقبول ہیں۔ جون کا پہلا مجموعہ "شاید" اس وقت شائع ہوا جب جون ؔ کی عمر 60 برس تھی۔ جو ن ایلیا کی شاعری اس کی مختلف شخصیتوں کا "کولاژ" ہے۔ وہ کبھی فقیہہِ سبز قدم کو جانے کی تلقین کرتا ہے تو کبھی حاکم وقت کو مسند سے اتارنے کا پرچار کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔ کبھی "شہرِ دل" کے محلوں میں محوِ خرام تو کبھی کسی یاد کے در پر بیٹھے ہوئے اپنا "مثالیہ" تلاش کرتا ہے۔ "جہانِ خراب" کو حاصلِ کُن ٹھہرا کر، خدا کا رَد لکھتے ہوئے خود کو خدا گزیدہ قرار دیتا ہے۔ یہ تمام چہرے مل کر جوشخصیت بناتے ہیں وہ ادب کی دنیا میں جونؔ ایلیا کے نام سے جانی جاتی ہے۔

ہیں یہی جون ایلیا جو کبھی 
سخت مغرور بھی تھے بَد خُو بھی
-
اب فقط عادتوں کی ورزش ہے
روح شامل نہیں شکایت میں
-
اِک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منھ نوچ لے کوئی

ہاں ٹھیک ہے کہ میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دَخل دے کوئی


جونؔ کے کلام میں PARADOXیا محالیہ کہہ لیجے کو خاص دخل ہے۔ جہانِ معنی کی جہات ہیں کہ بے تکلفی اور رچاؤ سے اس کے اشعار کا حصہ بن جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ PARADOXاس کے شاعرانہ مزاج کا حصہ ہیں:

پرسشِ حال ہے نہ رسمِ تپاک
ہو گیا ہوں بہت مقرب کیا

کیا میں اِس کو تری تلاش کہوں
دل میں اِک شوق ہے جدائی کا

ملتے رہیے اسی تپاک کے ساتھ
بے وفائی کی انتہا کیجیے

"شاید" سے "یعنی"تک کے شعری سفر کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جونؔ کے ہاں دو رجحانات کو نمایاں فروغ ملا ہے۔ "شاید"سے "یعنی"تک پہنچتے پہنچتے جونؔ ہاں جنس نگاری کا رجحان بہت غالب اور نمایاں ہو گیا ہے۔ اگرچہ پہلے مجموعہ میں بھی اس حوالے سے اشعار مل جاتے ہیں لیکن دوسرے مجموعہ کلام میں ان میں سے بیشتر اشعار کی سطح بہت پست درجے کی ہے اور ان کی پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ بجائے ایک لطیف جذبے کے سوقیانہ پن اور ابتذال کی تشہیر و تبلیغ کے داعی ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو اس کا محرک ذہنی و جسمانی سطح کی وہ مغائرت ہے جو ایک آسیب کی طرح اس کے ذہن پر طاری ہو گئی ہے۔ ذہنی و جسمانی سطح کی یہ خلیج جب کسی طرح بھی کم نہیں ہو پاتی تو اس کی زبان اور خیالات ایسی صورت اختیار کر لیتے ہیں جسے ہم ابتذال کا نام دے سکتے ہیں۔ 
اپنی ورزش کے دھیان ہی سے ہمیں
مار رکھتے ہیں صندلیں راناں (شاید)

"شاید"میں جنسی جذبے خال خال ہیں جب کہ دوسرے مجموعوں میں ان کی سطح ایسی رکیک ہے کہ لکھنؤ کے ریختی گو بھی شرماتے اور پناہ مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
تشنہ لب ہے کب سے دل سا شیر خوار
تیرے دودھوں سے ہیں چشمے جاریاں