محسن نقوی کے تمام قطعات (حصہ دوم)

محسن نقوی کے تمام قطعات (حصہ دوم)
51۔ 
سکوتِ شامِ غریباں میں سُن سکو تو سُنو
کہ مَقتلوں سے ابھی تک صدائیں آتی ہیں
لہُو سے جن کو منور کرے دماغِ بَشر
ہوائیں ایسے چراغوں سے خوف کھاتی ہیں

52۔
جو مری یادوں سے زندہ تھا کبھی
مدتوں سے اُس کا خط نہیں آیا
میں مگر کہتا ہوں اپنے آپ سے
وہ بہت مصروف ہوگا ۔ یا کہیں؟

53۔
ستارے چومتے ہیں گردِ پا کو
خراجِ خود کلامی لے رہی ہے
وہ رستے میں کھڑی ہے یوں کہ جیسے
دو عالم کی سلامی لے رہی ہے

54۔
غم کے غبار میں ستارے اَٹے ہوئے
خواہش کی کرچیوں میں ہیں چہرے بٹے ہوئے 
اب کیا تلاشِ اَمن میں نکلیں کہ ہر طرف
مدت سے فاختاؤں کے ہیں پَر کٹے ہوئے

55۔
جوانی کے کٹھن رستوں پہ ہر سُو
فریبِ آرزو کھانا پڑے گا
بچھڑ جاؤ، مگر یہ سوچ لینا
تمہیں اِک روز پچھتانا پڑے گا

56۔
دَفن ہیں مجھ میں شورشیں کتنی
دل کی صورت خموش وادی ہوں
شوق سے ترکِ دوستی کر لے
میں تری نفرتوں کا عادی ہوں

57۔
اِک فسانہ ہے زندگی لیکن
کتنے عنوان ہیں اس فسانے کے
چاکِ داماں کی خیر ہو یا رب!
ہاتھ گستاخ ہیں زمانے کے

58۔
ماتمی رُت کا راج ہے ہر سُو
پھول مُرجھا گئے ہیں سہروں کے
اِک ترے غم کی روشنی کے سِوا
بُجھ گئے سب چراغ چہروں کے

59۔
شہر کے سب لوگ ٹھہرے اجنبی
زندگی تُو کب مجھے راس آئے گی
اَب تو صحرا میں بھی جی نہیں لگتا
دل کی ویرانی کہاں لے جائیگی


60۔
سب فسانے ہیں دُنیا داری کے
کس نے کس کا سکون لوٹا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ اِس زمانے میں
میں بھی جھوٹا ہوں تُو بھی جھوٹا ہے

61۔
اُڑ گیا رنگ رہگزاروں کا
قافلہ بُجھ گیا چناروں کا
اوڑھ کر زرد موسموں کی رِدا
آؤ ماتم کریں بہاروں کا

62۔
بھنور نے کاٹ دیے سلسلے کِناروں کے
خزاں نے رنگ چُرا ہی لیے بہاروں کے
عجیب قحط پڑا ہے کہ پیٹ بھرنے کو
میں راز بیچتا پھرتا ہوں اپنے یاروں کے

63۔
وہ کہ جلتی رُتوں کا بادل تھا
کیا خبر کب برس گیا ہوگا؟
لیکن اندر کی آگ میں جل کر
اُس کا چہرہ جھلس گیا ہوگا

64۔
ہمارے دل نے بھی محفل سجائی ہے کیا کیا
حیات ہم پہ مگر مسکرائی ہے کیا کیا
ہوائے گردشِ دوراں کے ایک جھونکے سے
تمہاری یاد کی لَو تھرتھرائی ہے کیا کیا

65۔
کیا جانے کب سے دھوپ میں بیٹھی تھی سانولی؟
ابھری ہوئی اَنا کی شکن سی جبین پر!
دیکھا فضا میں اڑتے پرندوں کو ایک بار
پھر کھینچنے لگی وہ لکیریں زمین پر

66۔
اپنے ہمسائے کے چراغوں سے
بام و دَر کو سنوار لیتا ہوں!
اِتنا مفلس کیا اندھیروں نے
روشنی تک اُدھار لیتا ہوں

67۔
درد کے چاند کی کرنوں میں نہایا ہوں کہ یُوں
میرے ماتھے پہ محبت کا پسینہ آئے
اِس لیے ٹوٹ کے رویا ہوں میں اکثر محسنؔ
مجھ کو دِل کھول کے ہنسنے کا قرینہ آئے

68۔
دُور تک وادیاں ہیں پھولوں کی
میری آنکھوں میں عکس تیرا ہے
چاند گھلنے لگا ہے پانی میں
ہر طرف سانولا سویرا ہے

69۔
یُوں تو محفل میں جانِ محفل تھا
رہگزر میں چراغِ منزل تھا
دل کی باتیں نہ کہہ سکا تُجھ سے
تیرا شاعر غَضَب کا بُزدل تھا

70۔
گر یہی جنس ہے تو دھرتی پر
تشنہ لب لوگ دھوپ چاٹیں گے
گر یہی قحط ہے تو دہقاں بھی
پیاس بوئیں گے بھوک کاٹیں گے

71۔
درد یوں بے حساب لگتا ہے
مسکرانا عذاب لگتا ہے
جس میں اُڑتے تھے قہقہے اپنے
اب وہ ماحول خواب لگتا ہے

72۔
ہاتھوں میں دوستی کی لکیریں سجا کے مل
آنکھوں میں احتیاط کی شمعیں جلا کے مل
دل میں کدروتیں ہیں تو ہوتی رہیں ۔۔ مگر
بازار میں مِلا ہے ۔۔۔۔۔۔ ذرا مسکرا کے مل

73۔
ہم تبسم سجا کے ہونٹوں پر
غم، بقدرِ مزاج لیتے ہیں!
جیسے ہنستے دِیے مزاروں کے
آندھیوں سے خراج لیتے ہیں

74۔
شعلہء گل سے چمن جلتا ہے
شہر کے شور سے بَن جلتا ہے
اب گھٹا، دل کی گھٹا دیتی ہے
اَبر تن جائے تو تَن جلتا ہے

75۔
بُجھتی نبضیں اُبھارتے رہنا
دل کا عالم نکھارتے رہنا
اک نظر دیکھ لو زمانے کو
پھر یہ زلفیں سنوارتے رہنا

76۔
چند کپڑے ہیں سادہ گٹھری میں
چند زیور چھپا کے لائی ہے
ایک پگلی پیا سے ملنے کو
ہیر کے مقبرے میں آئی ہے

77۔
کون روتا ہے تمہارے ہجر میں؟
ڈوبتے دل کی صدا سے پوچھنا
کون پھرتا ہے گلی میں رات بھر؟
دستکیں دیتی ہوا سے پوچھنا

78۔
وہ تشبیہیں پہن کر آ رہی ہے
حقیقت بَر محل کہنا پڑے گی
خِراج اب اور کیا دینا ہے اُس کو
مجھے تازہ غزل کہنا پڑے گی

79۔
وقفِ خوف و ہراس لگتا ہے
دل، مصائب شناس لگتا ہے
تُو جو اوجھل ہوا نگاہوں سے
شہر سارا اُداس لگتا ہے

80۔
اِن کو دل میں سنبھال کر رکھو!
اِن کو سوچو بہت قرینوں سے
چند سانسوں سے ٹوٹ جاتے ہیں
لفظ نازک ہیں آبگینوں سے

81۔
سنولا گئے ہیں رنگ رُخ ماہتاب کے
مرجھا گئے کلائی میں گجرے گُلاب کے
اب کے برس بھی تو جو نہ آیا تو دیکھنا
مجھ کو تو مار ڈالیں گے طعنے چناب کے

82۔
آنکھوں میں آنسوؤں کی حِنا سی ہے ان دنوں
دل کو بھی شوقِ درد شناسی ہے اِن دنوں
گر ہو سکے تو آ کہ مری جاں ترے بغیر
ماحول میں شدید اُداسی ہے اِن دنوں

83۔
تجھ کو تو مل گیا ترا دِلدارِ جاں نواز
پھر کیوں ترا وجود رہینِ ہراس ہے
پھر شرمسار کیوں ہے یہ جوڑا سہاگ کا
پھر کس لیے یہ سُرخ دوپٹہ اُداس ہے

84۔
نرم کر دیتی ہیں دل کو دُوریاں
نفرتیں بھی کھیلتی ہیں پیار میں
اجنبی بن کر جو ملتا تھا کبھی
اُس کا خط آیا سمندر پار سے

85۔
یہ ستمگر یہ دلنشیں دنیا
سب کو لگتی ہے مَہ جبیں دنیا
میری آنکھیں غریب ہیں ورنہ
اس قدر قیمتی نہیں دنیا

86۔
تیرگی رُوح پر مسلط ہو
چاندنی اشکبار ہو جائے
رو پڑے یہ بہار کا موسم!
وہ اگر سوگوار ہو جائے



87۔
موت تاریک وادیوں کا سفر
زندگی نُور کی علامت ہے
حشر برحق سہی مگر محسنؔ
سانس لینا بھی اِک قیامت ہے

88۔
اب یہی مصلحت مناسب ہے
اب اِسی طور زندگی کر لیں
میں بھی یاروں کا زخم خوردہ ہوں
دشمنو، آؤ دوستی کر لیں

89۔
غم کے سنجوگ اچھے لگتے ہیں
مستقل روگ اچھے لگتے ہیں
کوئی وعدہ وفا نہ کر کے مجھے
بے وَفا لوگ اچھے لگتے ہیں

90۔
اُس کے چہرے پہ گردِ محرومی
اُس کی آنکھوں کے شہر ویراں ہیں
مسکرا بھی دے اے غمِ دوراں
اُس کی زلفیں بہت پریشاں ہیں

91۔
عمر گزری عذابِ جاں سہتے
دُھوپ میں زیرِ آسماں رہتے
ہم ہیں سنسان راستوں کے شجر
جو کسی کو بھی کچھ نہیں کہتے

92۔
تجھ کو یہ وہم ہے کہ کیوں مجھ کو
تیری رعنائیوں سے پیار نہیں
میں یہی سوچ کر ہوں چپ کہ ابھی
"میرے حالات سازگار نہیں"

93۔
درد، دل کی اساس ہو شاید
غم، جوانی کو راس ہو شاید
کہہ رہی ہے فَضا کی خاموشی
اِن دِنوں تُم اُداس ہو شاید

94۔
جب بھی ساون کی شوخ راتوں میں
کوئی وارثؔ کی ہیر گاتا ہ ے
سوچتا ہوں کہ اُس گھڑی مجھ کو
کیوں ترا شہر یاد آتا ہے

95۔
یُوں بھی ہم دُور دُور رہتے تھے
یُوں بھی سینوں میں اِک کدورت تھی
تم نے رسماََ بھلا دیا ورنہ!
اِس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟

96۔
ہر طرف جبر ہو تو کیا کیجے،
ہر طرف ظلم ہو تو کیا کہیے،
کتنے احباب کا گلہ کیجے،
کتنے اعداء کو مرحبا کہیے،

97۔
کس کی شب بے ملال کٹتی ہے؟
کس کا دِن چین سے گزرتا ہے؟
مِل گئے ہو تو مسکرا کے ملو!
کون پھر کس کو یاد کرتا ہے؟

98۔
یا مقتلوں کا رِزق ہوئی آبروئے جاں
یا گردشوں کی نذر ہوئے سرفراز لوگ
اب کیوں مسافروں کے ٹھکانے ہیں دھوپ میں
اب کیا ہوئے وہ شہر کے مہماں نواز لوگ؟

99۔
غم کی زد میں اگر بگڑ جائیں
پھر کہاں قسمتیں سنورتی ہیں
ذکرِ تجدیدِ دوستی نہ کرو!
اَب یہ باتیں گراں گزرتی ہیں،

100۔
دَرد کی دھوپ سے بھرے بَن میں
اپنے سائے سے ڈر کے پچھتایا
اے مرا نام بھولنے والے!!!
میں تجھے یاد کر کے پچھتایا

۔۔۔