ماہِ تمام ۔ کلیات پروین شاکر pdf
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
جب بھی ہم اردو ادب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں شعراء کے ساتھ ساتھ شاعرات کے نام بھی ملتے ہیں جن کو پڑھے بغیر شاعری کی روایت کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ قدم زمانے میں شعر کہنے والی عورتیں بیگمات، شہزادیاں، اور بالاخانہ کی خواتین ہوا کرتی تھیں۔ کچھ عرصے بعد معاشرے کی عام عورتیں بھی اس صف میں شامل ہو گئیں جنہیں معاشرے نے کافی دیر میں قبول کیا۔
خواتین ادب کا شعری حصہ پروین شاکر کی شاعری کے بغیر ادھورا سا معلوم ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اردو کی شاعرات میں پروین شاکر کی آواز سب سے منفرد ہے۔ پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء کو ایک کار حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر انہیں کچھ اور وقت ملا ہوتا تو وہ موجودہ خواتین کے شعری سرمائے میں مزید خوشگوار اضافہ کر سکتی تھیں۔
پروین شاکر نے آسان اور عام فہم زبان میں شاعری کی، انہیں کئی زبانوں کا علم تھا۔ ان کی شاعری میں انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال اور ترکیبیں ملتی ہیں۔ انہوں نے غزل کی مروجہ زبان سے ہٹ کر اپنی شعری سفر شروع کیا اور غزل کی روایتی ہیئت کو برقرار رکھتے ہوئے روایتی زبان و بیان سے انحراف کیا اور اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔ انہیں سب خوبیوں کی وجہ سے پروین ہمیشہ یاد کیے جانے کی مستحق ہیں۔
پروین شاکر کے پانچ شعری مجموعے "خوشبو"، "صدبرگ"، "خودکلامی"، "انکار"، کفِ آئینہ" ہیں بعد میں "ماہِ تمام" کے نام سے ان کا کلیات شائع ہوا۔
Tags:
پروین شاکر