دبستانِ رامپور کی خصوصیات اور مثالیں
دبستانِ رامپور کی بنیاد یوں تو 1774ء میں ریاست کے قیام سے ہی پڑ گئی تھی اور دلی اور لکھنؤ کے مشاہیر اور اساتذہ سخن دربارِ رامپور سے وابستہ ہو چکے تھے۔ 1857ء سے قبل دبستانِ رامپور کے خطوط واضح ہو چکے تھے لیکن غدر کے بعد اس دبستان نے اپنے عروج کو حاصل کیا اور دلی لکھنؤ کے پریشاں حال مشاہیر کی سرپرستی کی۔ دبستانِ رامپور افغانی اور کٹھیر ہندی تہذیب و تمند اور افغانی قومی کردار کا غماز ہے۔ جس کی تعمیر و تشکیل میں 19ویں صدی کے سیاسی و سماجی حالات کو دخل ہے۔ افغانی مزاجِ بانکپن، کج رَوی، آزادہ رَوی اور سپاہیانہ شان سے متصف ہے جس میں شوخی و ظرافت، بے تکلفی اور جذبے و جبلت کو اہمیت حاصل ہے اور نسلی برتری کا زعم بھی شامل ہے۔ اس اعتبار سے دہلوی شعراء کے ہجراں نصیبی، اور لکھنوی شعراء کی خارجیت دونوں خصوصیات یہاں کے مزاج کے خلاف تھیں۔ اس لیے داغؔ و امیرؔ کے یہاں دلی اور لکھنوی رنگ سے جداگانہ خصوصیات دبستانِ رامپور کا حصہ ہیں۔
دبستانِ رامپور کی درج ذیل خصوصیات ہیں:
1-بانکپن اور مردانہ لہجہ
2- شوخی و چلبلا پن
3- زبان کا بے تکلف استعمال
4- ابتذال سے گریز
5- حرماں نصیبی اور رونے دھونے سے گریز
6- سادگی
7- نسلی برتری کا اظہار، تعلی
8- رجائیت اور جدو جہد کا جذبہ
9- محاورے اور روز مرہ کا لطف
چند اشعار بطور نمونہ پیش کیے جاتے ہیں:
لوگ بیمار تجھے کہتے ہیں
تیری آنکھیں تو بہت اچھی ہیں
(شیخؔ علی بیمارؔ)
اشک امڈے ہیں مرے ابر سے کہہ دے کوئی
آبرو چاہے تو ہٹ کر مرے گھر سے برسے
(طالب)
ہزاروں گالیاں وہ دے رہے تھے بے خطا مجھ کو
جو پوچھا بات کیا ہے جل کے بولے بات کیا ہوتی
(محمود رامپوری)
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
(محمد یار خاں امیرؔ)
پیاری پیاری سی جو دیکھی صورت
شکوہء جور و جفا بھول گیا
(نظام رامپوری)
میری ہر بات کو الٹا وہ سمجھ لیتے ہیں
اب کے پوچھا تو یہ کہہ دوں گا کہ حال اچھا ہے
(جلیل مانکپوری)
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
(امیر مینائی)
Tags:
دبستانِ رامپور