باغ و بہار از میر امن دہلوی

باغ و بہار از میر امن دہلوی

باغ و بہار کو جدید اُردو کا پہلا صحیفہ کہا جائے، تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ فورٹ ولیم کالج خواہ کسی مقصد کے تحت قائم کیا گیا ہو؛ لیکن یہ واقعہ ہے کہ وہ تصنیف و تالیف کا ایسا مرکز بن گیا تھا جس کے اثرات اردو زبان کی ترقی کے سلسلے میں دور رس اور دیرپا ثابت ہوئے۔ فورٹ ولیم کالج کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہ اردو میں باضابطہ تصنیف و تالیف کا پہلا ادارہ تھا، جہاں پہلی بار نئے لسانی، ادبی اور نصابی تصورات کا نقش درست ہوا۔ 

باغ و بہار مکمل صورت میں پہلی بار 1804ء میں کلکتے کے "ہندوستانی چھاپا خانہ" میں طبع ہوئی تھی۔ میر امنؔ کے مفصل حالات معلوم نہیں ہیں۔ اس سلسلے کی ایسی معلومات جس پر اعتماد کیا جا سکے تین جگہ ملتی ہے۔ باغ و بہار کے دیباچے میں انہوں نے اپنے خاندان، اہلِ خانہ اور اپنے متعلق چند باتیں لکھی ہیں۔ گنجِ خوبی کے شروع میں اپنی شاعری کے متعلق چند جملے لکھے ہیں۔ فورٹ ولیم کالج میں ان کی ملازمت اور تصانیف سے متعلق کچھ دستاویزی بیانات ملتے ہیں۔ باغ و بہار اور گنجِ خوبی، دونوں کتابوں کے دیباچوں میں اپنا نام "میر امّن" لکھا ہے۔ میر امن شاعر بھی تھے اور ان کا تخلص لطفؔ تھا۔ انہوں نے اپنی دوسری کتاب گنجِ خوبی کے دیباچے میں [جو فارسی کی معروف کتاب اخلاقِ محسنی کا ترجمہ ہے] لکھا ہے:
"اور قریب ہزار بیت استادوں کی، جو مصنف نے تمام کتابوں سے چن چن کر، ہر ایک مضمون کی ہر موقع پر تشنہ ڈالیں ہیں، ان کو بھی اپنی سمجھ کے موافق جو کا توں ہندی میں نظم کیا۔ اگرچہ فکر سخن کہنے کی ساری عمر نہیں کی، ہاں مگر خود بہ خود کوئی مضمون دل میں آیا، تو اُسے کہہ ڈالا۔ نہ کسو کا استاد، نہ کسو کا شاگرد۔

نہ شاعر ہوں میں اور نہ شاعر کا بھائی
فقط میں نے کی اپنی طبع آزمائی"

انہوں نے باغ وبہار اور گنجِ خوبی میں کئی جگہ اپنے آپ کو "میر امّن دلی والا" لکھا ہے۔ یہ بھی لکھا ہے کہ دلی وطن اور جنم بھم میرا ہے اور آنول نال وہیں گڑا ہے"۔ 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح معنی میں "دلی والے" تھے؛ یعنی یہیں پیدا ہوئے اور یہیں نشوونما پائی تھی۔