اجمل سراج کی شاعری
اردو غزلیہ شاعری کا اہم ترین موضوع عشق ہے۔ شاعر کی داستانِ عشق کے نازک پہلوؤں کا اظہار غزل کی روایات میں سے ہے۔ اجمل سراجؔ نے نظر و نظارہ کے اس کھیل کو اس طرح برتا ہے کہ محبوب کا ایک واضح چہرہ اس کے شعروں میں اجاگر ہوتا ہے۔ اجمل سراج کے لیے کائنات ایک وجودِ دیگر کا حصہ ہے جو ازل سے رقص میں ہے اور اجمل سراج اک چشمِ لازوال بن کر اسے دیکھتے ہوئے کہتا ہے:
عجب نہیں کہ کسی آن لڑ کھڑا جائے
یہ کائنات بڑی دیر سے ہے رقص کناں
یہی قوتِ نظارہ اور بے نیازی جو اجمل سراج کی شاعری میں وقت کے حوالے سے نظر آتی ہے وہی غمِ روزگار کو بھی شکست دیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
1-
آرزؤں کا مرکز تھا دل
حسرتوں میں گِھرا رہ گیا
اس نے پوچھا تھا کیا حال ہے
اور میں سوچتا رہ گیا
2-
کام اجملؔ بہت تھے ہمیں
ہاتھ دل پر دھرا رہ گیا
3-
آیا نہیں عیادتِ دل کے لیے کبھی
جو شخص درد بن کے مرے دل میں رہ گیا
4-
یہی رونا ہے زندگی بھر کا
جو گھڑی دو گھڑی کا رونا ہے
5-
نہیں نہیں مری دنیا فریب خانہ نہیں
نہیں نہیں مری دنیا کو ہے ثبات بہت
6-
یعنی کچھ اس طرح کہ تجھے بھی خبر نہ ہو
اس احتیاط سے تجھے دیکھا کروں گا میں
7-
قیامت ہے اُجڑنا شہرِ دل کا
دراڑیں پڑ گئیں دیوارِ جاں میں
8-
مَیں اب جو خاک اڑاتا ہوں زمیں پر
ستارے ٹانکتا تھا آسماں میں
9-
کون آتا ہے اس خرابے میں
اس خرابے میں کون آتا ہے
وہ جو اک شخص یاد آتا تھا
ہاں وہی شخص یاد آتا ہے
دل کی بے اختیاریاں مت پوچھ
روٹھ جاتا ہے مان جاتا ہے
10-
آگہی کی کوئی تو راہ نکال
آئنہ دیکھ یا زمانہ دیکھ
دیکھ کیا کیا اجڑ گئے ہیں ہم
دیکھ اے خوگرِ تماشا دیکھ
11-
تُو نے جب پہلی بار دیکھا تھا
تیرا بیمار ہوں جبھی سے میں
12-
خواہشِ مرگ کے سِوا اجملؔ
دل میں اپنے بچا ہی کب کچھ ہے
13-
بے حواسی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے
جو پریشاں ہے وہی زندہ نظر آتا ہے
14-
زمانے کے موافق آتے آتے
بہت بدلا، مگر بدلا نہیں میں
سوالِ خوابِ غفلت آ گیا ہے
سو یوں خاموش ہوں، گویا نہیں میں
15-
وصل کہتے ہیں کسے
ہجر ہے کون بلا
اب مجھے ہوش نہیں
کون تھا ہوش ربا
کیا ترے ناز اٹھائیں
دل ہی جب بیٹھ گیا
16-
کس کو فرصت ہے کہ دیکھے گا مجھے شام ڈھلے
کون حیرت سے مجھے شام ڈھلے دیکھے ہے
17-
کوئی موسم ہو، کچھ عالم ہو اجملؔ
نمازِ دل قضا ہوتی نہیں ہے
18-
گنتی کے کچھ لوگ ملیں گے جو اجملؔ
اندر باہر ایک طرح کے ہوتے ہیں
19-
دل ہے کہ کبھی درد سے خالی نہیں رہتا
ہم ہیں کہ کبھی بے سروساماں نہیں ہوتے
20-
اے وحشتِ یک عمر ہمیں دیکھ کہ ہم لوگ
مجنوں کی طرح چاکِ گریباں نہیں ہوتے
21-
گزر رہے ہیں جو بارِ نظر اٹھائے ہوئے
یہ لوگ محوِ تماشا بھی ہیں، تماشا بھی
22-
مجھے بھی بھول جائے گا زمانہ
مجھے بھی یاد کچھ رہتا نہیں ہے
23-
تم جسے زندگی سمجھتے ہو
ہم اسے مسئلہ سمجھتے ہیں
24-
منظر سے محض وہ نہیں رو پوش میں بھی تھا
ثابت ہوا کہ زود فراموش میں بھی تھا
25-
نہ راہی، نہ رستہ، نہ منزل، نہ رہبر
نہ سڑکوں پہ لڑکوں کے ہاتھوں میں خںجر
چلو اس گلی سے گزر کر تو دیکھیں
کوئی جاگتا ہو کھلا ہو کوئی دَر
26-
رات ہوتے ہی کوچہء دل میں
آ نکلتے ہیں سیکڑوں خدشات
27-
سوچ سمجھ کر ہم اس دل کو
اندیشوں کی جا کہتے ہیں
حال ہمارا جانے دیجے
آپ سنائیں کیا کہتے ہیں
28-
درپیش جسے اگلے زمانوں کا سفر ہے
وہ خواہشِ تعمیر مجھے دیکھ رہی ہے
29-
ہم نہ ہوتے جو تیری محفل میں
محفلِ زیست میں بھلا ہوتے
30-
یاد آتے کبھی تمہیں ہم بھی
ہم بھی اے کاش واقعہ ہوتے
ہم سے پوچھے کوئی دعا کیا ہے
ہم نے دیکھا ہے معجزہ ہوتے
31-
لطف کوئی نہ زندگی میں رہا
کاش وعدے ترے وفا ہوتے
32-
بتاؤ تم سے کہاں رابطہ کیا جائے
کبھی جو تم سے ضرورت ہو بات کرنے کی
33-
اب ذکرِ شبِ فراق اجملؔ
کیا کیجیے عمرِ مختصر میں
34-
ہم کو ہے بہت عزیز اجملؔ
دل میں ہے جو ایک ڈر ہمارے
35-
کہیں تو قصہ احوال مختصر یہ ہے
ہم اپنے عشق کی روداد ہو کے رہ گئے ہیں
36-
شام اپنی بے مزا جاتی ہے روز
اور ستم یہ ہے کہ آ جاتی ہے روز
37-
بات یہاں تک آ پہنچی ہے
آنا جانا ٹھہر گیا ہے
ٹھہر گیا ہے دل کا جانا
"دل کا جانا ٹھہر گیا ہے"
اب میری دہلیز پہ آ کر
ایک زمانہ ٹھہر گیا ہے
اجملؔ تیرے چپ رہنے سے
غم افسانہ ٹھہر گیا ہے
38-
یہ اُداسی کا سبب پوچھنے والے اجملؔ
کیا کریں گے جو اُداسی کا سبب بتلایا
39-
خِرد کی فتنہ سامانی سے پہلے
بڑی رونق تھی ویرانی سے پہلے
40-
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اس نے
ہم نے طوفان اٹھا کر دیکھا
Tags:
اجمل سراج