سید مبارک شاہ کی شاعری
سید مبارک شاہ اپنی کتاب "جنگل گماں کے" کے تعارف میں کچھ یوں رقمطراز ہیں کہ " گزشتہ کئی برسوں سے راتوں کو جاگنا میری عادت بن چکا ہے اور شاعری اس کا ایک لازمی نتیجہ۔
اپنی شاعری کی اشاعت کے لیے شکیبؔ جلالی اور اقبال ساجد کی طرح اپنی موت کا انتظار نہ کر سکا اور دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح احتیاطاََ یہ کام اپنی زندگی میں ہی کر رہا ہوں۔ اس سلسلے میں کسی انفرادیت کا مظاہرہ نہ کر سکنے کا مجھے احساس بھی ہے اور افسوس بھی۔
میرے لیے اس بات کا فیصلہ کرنا محال ہے کہ کس شاعر سے کس حد تک متاثر ہوا ہوں۔ مجھے شکیبؔ کی تڑپ، عدمؔ کی مستی، ساغرؔ کی قلندری، اقبال ساجدؔ کی کاٹ، ناصر کاظمی کی اُداسی، فراز کے تغزل اور اظہار الحق کے استغنا، سبھی نے متاثر کیا ہے۔ مجھے اچھی شاعری ہمیشہ اچھی لگی ہے۔ اس لیے میں جہاں مجید امجدؔ اور اور اختر حسین جعفری کی نظموں کے سحر کا شکار ہوں وہاں وحید احمدؔ کی نظم کے طلسم میں بھی گرفتا ہوں۔ اسی طرح غالبؔ اور فیضؔ کی غزلوں سے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ میری اپنی غزل بھی میرے لیے معیار ہے۔"
1-
اُمت زمیں پہ کشتہء خوف و ہراس ہے
عرشِ بریں پہ روحِ محمدﷺ اُداس ہے
2-
تجھ سے لپٹ پڑے گا ترا عکس دیکھنا
اِک بار آئنے کو یہ صورت دِکھا کے دیکھ
3-
اِک حشر یہ بھی ہوگا قیامت کے دِن بپا
اںساں لپٹ کے روئے گا پروردگار سے
4-
جس کے ہاتھوں میں نہیں تشکیک کا کنکر کوئی
اُس کو اندازہ کہاں ہے سطح کی گہرائی کا
مختصر الفاظ میں اِلحاد کا مطلب ہے یہ
آئنہ منکر ہوا ہے صورتِ زیبائی کا
5-
اصنافِ سخن اور بھی موجود ہیں لیکن
بس تجھ سے تکلم ہے تو لہجے میں غزل کے
آدم کی کسی رُوپ میں تحقیر نہ کرنا
پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کے
6-
ترتیب دیکھیے جو اُلٹ کر حروف کی
بارش سے ربط کوئی تو ہوگا شراب کا
7-
کب تک مذاق ہوگا مری آگہی کے ساتھ
مجھ کو سوال دیجیے میرے جواب کا
8-
منزل ترے یقین کی اُس پار ہے مگر
کتنے گھنے ہیں راہ میں جنگل گمان کے
9-
کب ترے اقرار کی اؐمید دل میں تھی مگر
آج گھائل کر گیا لہجہ ترے انکار کا
10-
شب بھر نہ تیری یاد نے سونے دیا مگر
بستر پہ میرے پاس ترا خواب تھا دراز
11-
اَبد۔
اسی دشتِ امکاں میں
دریائے دوراں ، بہ رفتارِ پیہم
اَبد کے سمندر میں گرتا رہے گا
مگر ہم
جو دریائے دوراں کے بے نام قطرے
فسانہ بنیں گے نہ قصہ بنیں گے
ابد کے سمنر کا حصہ بنیں گے
ابد! جس پہ دامانِ دریائے دوراں کو رشک
ابد! چشمِ یزداں میں سہما ہوا ایک اشک
12-
نارسائی
کسی بُت کدے کا نہ دَر کھلا نہ کلیدِ بابِ حَرم ملی
کہیں سوزِ دوزخِ بے اماں نہ امانِ کنجِ اِرم ملی
دلِ خوش گماں کو نزولِ مُصحفِ آگہی کے فریب میں
نہ نشانِ کربِ طرب ملا نہ نویدِ راحتِ غم ملی
13-
لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى
تُو مگر پھر بھی نہ مجھ کو مل سکا
14
کس کو فرصت دیکھنے کی ہے ابھی
بجھ گئیں آنکھیں تو دیکھا جائے گا
15-
کیا خبر تھی ایک پَل کی دسترس
عمر بھر کی بے بسی ہو جائے گی
دفعتاََ لپکے گی کیسی تیرگی
جب اچانک روشنی ہو جائے گی
16-
کسی کی یاد میں گھٹ گھٹ کے جینا
طریقے خودکشی کے اور بھی ہیں
تمہارے ساتھ کب آسانیاں تھیں
مگر اب مشکلیں کچھ اور سی ہیں
17-
تم یقینا آ گئے ہوتے مگر
ہم نے کب آواز دی ہے دوستو
18-
یہ پل پل مرتے رہنا کب رَوا ہے
مگر پھر سوچتے ہیں زندگی ہے
وہ سب سے خوبصورت ہو گیا ہے
مجھے اس سے محبت ہو گئی ہے
میں دروازے مقفل کر چکا ہوں
مگر دیوار کھلتی جا رہی ہے
سبھی کردار اکتائے ہوئے ہیں
بہت لمبی کہانی ہو گئی ہے
19-
ہم اپنا مقدر اگر آپ لکھتے
تو شاید وہ پھر بھی ہمارا نہ ہوتا
20-
ہم جی رہے ہیں ایسے حوادث میں ان دنوں
جن کا کبھی گماں بھی تصور خراش تھا
21-
ہم نے بڑے فریب میں کاٹی ہے زندگی
مقصد تمام عمر کا فکرِ معاش تھا
22-
ٹوٹے ہوئے بتوں کو نکالا گیا تو کیا
اب تک ہمارے شہر سے آذر نہیں گیا
23-
عرصہ ہوا ہے کہ صورتِ آدم نہیں ملی
مدت ہوئی کہ شہر سے باہر نہیں گیا
گو لمحہ لمحہ زیست میں دیکھیں قیامتیں
لیکن یقینِ وعدہء محشر نہیں گیا
عرصہ ہوا کہ آنکھ میں اُترا نہیں ہے اشک
مدت ہوئی ہے دوستو میں گھر نہیں گیا
یوں تو کسی بھی درد کی دل سے نہیں بنی
بس ایک تیرا غم کہ جو آ کر نہیں گیا
24-
اُس کی آنکھیں سوال کرتی ہیں
میری ہمت جواب دیتی ہے
25-
قاتلوں کے رنگ کیوں اڑنے لگے
ان سے کہدو رنگ لاتا ہے لہو
26-
ہم وہ دہشت زادے ہیں جو خوف زدہ ہر صورت ہیں
ڈر جب دل میں کوئی نہ ہو تو ڈر جانے سے ڈرتے ہیں
27-
اُس کی نظر کے سنگ سے میں آئینہ مثال
ٹوٹا تو ٹوٹ کر بھی اُسے دیکھتا رہا
انساں کسی بھی دور میں مشرک کبھی نہ تھا
پتھر کے نام پر بھی تجھے پوجتا رہا
28-
زخمی ہوا ہے بارہا خواہش کے وار سے
لیکن مرے ضمیر نے مانی نہیں شکست
29-
دلیلیں تیرے سر سے وار آئے
بس اب سماجت رہ گئی ہے
لٹا بیٹھے ہیں ناموسِ محبت
تو کہتے ہیں کہ عزت رہ گئی ہے
جہاں پر میرا گھر ہوتا تھا پہلے
وہاں اب اِک عمارت رہ گئی ہے
30-
جس طرح کے بارش میں دھوپ بھی نکلتی ہے
ہو سکے تو ہنس دینا آنسوؤں کے موسم میں
31-
اپنی آنکھوں کی نہ مَیں نے مانی
اور لوگوں سے سنا تھا اُس نے
32-
اے عمرِ بے طلب مری ہمت کی داد دے
تجھ سے نبھا رہا ہوں میں وعدہ نباہ کا
اے جانِ مستعار! تجھے صَرف کیا کرے
دھڑکا لگا ہوا ہے جسے قرض خواہ کا
33-
وہ جو برگِ موسمِ یاس تھے مرے راستوں کا لباس تھے
جو کمالِ فصلِ بہار تھا، تری رہگزر کا نصیب تھا
34-
وہی گردشیں وہی پیچ و خم ترے بعد بھی
وہی حوصلے مرے دم بدم ترے بعد بھی
ترے ساتھ تھی مری دسترس میں جو روشنی
فقط ایک پَل کبھی صبح دم ترے بعد بھی!
تُو چلا گیا سبھی قہقہوں کو سمیٹ کر
مرے پاس ہے مرا ظرفِ غم ترے بعد بھی
35-
اسی ایک پل کی تلاش میں جسے لوگ کہتے ہیں زندگی
تری رہگزر میں بکھر گئیں مری عمر بھر کی مسافتیں
36-
کیا تجھ کو بتاتے کہ چھپاتے رہے خود سے
لہجے سے تری چشم کے ایسے بھی گلے تھے
37-
یوں تو اس سے فاصلہ کوئی نہیں
بیچ میں پر راستہ کوئی نہیں
کتنے پہرے سوچ پر ہیں دوستو
اور پھر بھی سوچتا کوئی نہیں ہے
جھانکتی رہتی ہیں اس کی کھڑکیاں
جس مکاں کا دَر کھلا کوئی نہیں
اک مسلسل حادثہ وہ زندگی
جس میں دل کا حادثہ کوئی نہیں
تیرگی حدِ نظر تک تیرگی
اور پھر بھی دیکھتا کوئی نہیں
میرے جیسے باوفا ہوں گے بہت
تیرے جیسا بے وفا کوئی نہیں
38-
کبھی سامنا نہیں ہے
کبھی حوصلہ نہیں ہے
بڑی دوریاں ہیں لیکن
کوئی فاصلہ نہیں ہے
مری اپنی داستاں میں
مرا تذکرہ نہیں ہے
وہ مرے سوا ہے لیکن
کوئی دوسرا نہیں ہے
کہیں بستیاں جلی ہیں
کہیں اک دیا نہیں ہے
بڑی تیرگی ہے لیکن
کوئی دیکھتا نہیں ہے
وہی منزلیں ہیں جن کا
کوئی راستہ نہیں ہے
یہ دلوں کی جنگ ہے تو
ہمیں جیتنا نہیں ہے
شبِ عمرِ بے طلب میں
کوئی جاگتا نہیں ہے
وہ بچھڑ گیا ہے کیسے
جو ابھی ملا نہیں ہے
وہی شعر سب سے اعلیٰ
جو ابھی کہا نہیں ہے
بڑا خوں بہا ہے لیکن
کوئی خوں بہا نہیں ہے
یہ تمہاری بے حسی ہے
مرا حوصلہ نہیں ہے
میں تجھے بھلا سکوں گا
کبھی سوچنا نہیں ہے
تو وہ آس ہے کہ جس کا
ہمیں آسرا نہیں ہے
جو بکھر گئیں ہیں آنکھیں
کہیں گل کھلا نہیں ہے
وہ مری نظر میں بس کے
مجھے دیکھتا نہیں ہے
وہی علم ہے کہ جس کو
کوئی جانتا نہیں ہے
سنو شور ہے یہ کیسا
کوئی بولتا نہیں ہے
39-
آہٹوں کی جستجو میں گھر سے باہر آ گیا
جس نے دستک پر بھی دروازہ کبھی کھولا نہ تھا
40-
اہتمامِ زوال مت کرنا
دیکھ! حدِ کمال مت کرنا
میرے بارے میں فیصلہ کرتے
ایک میرا خیال مت کرنا
منزلِ خواب ڈھونڈنے والو
اپنی آنکھیں نڈھال مت کرنا
میری ہمت جواب دے جائے
کوئی ایسا سوال مت کرنا
اتنی آسانیاں نہیں اچھی
زندگی کو محال مت کرنا
41-
اُسے دیکھے زمانہ ہو گیا
یہ قصہ بھی پرانا ہو گیا ہے
جہاں بھر کی اداسی کو بسا کر
کوئی گھر سے روانہ ہو گیا ہے
نصیحت رائیگاں کیسے نہ ہوگی
کہ لہجہ ناصحانہ ہو گیا ہے
42-
عمر بھر کا فاصلہ اپنی جگہ
ایک پل کا راستہ اپنی جگہ
راستوں کو دیکھنا اپنی جگہ
کون لیکن چھوڑتا اپنی جگہ
دل میں تیرے درد کا اپنا مقام
ضبط کا یہ سلسلہ اپنی جگہ
43-
رونا تھا بہت دیر مجھے خود سے لپٹ کر
پر تجھ سے جدا خود کو میسر نہ ہوا میں
اس طرح سے بکھرا کہ ترے ہاتھ نہ آیا
ٹوٹا ہوں مگر دیکھ مسخر نہ ہوا میں
44-
یوں سہل نہ تھا معرکہء ترکِ تمنا
اِس جنگ میں ہم تیرے مقابل بھی ہوئے ہیں
45-
گو دشت پہ غالبؔ کو گماں گھر کا ہوا تھا
کچھ اور سی ویرانی ہے لیکن مرے گھر میں
ہر لمحے میں احساسِ بشر قتل ہوا ہے
سنتے تھے کہ اک روز مُعین ہے قضا کا
46-
اِس طرح یاد آ کہ نہ سونا نصیب ہو
اے خواب رَت جگے کا کوئی اہتمام کر
47-
عرصہ ہوا کہ بوجھ سا سینے پہ ہے مرے
مدت ہوئی کہ دوستو رویا نہیں ہوں میں
48-
اتنی زرا سی بات کو اتنا نہ طول دے
اس داستانِ عمر کا اب اختتام کر
49-
پیڑ تیمم کرنے کو ہیں
وقتِ نمازِ استسقا ہے
50-
کتنا کمسن درد ہے میرا
آدھی رات کو جاگ اٹھا ہے
Tags:
سید مبارک شاہ