سہلِ ممتنع سے کیا مراد ہے؟ دیکھیے سہلِ ممتنع کی تعریف اور مثالیں

سہلِ ممتنع سے کیا مراد ہے؟ دیکھیے سہلِ ممتنع کی تعریف اور مثالیں
سہلِ ممتنع دو عربی الفاظ سے مرکب ہے۔ سہل کے لغوی معنی ہیں "آسان کام، نرم"۔ اور ممتنع کے لغوی معنی ہیں "منع کیا ہوا، روکا ہوا، مشکل۔" سہلِ ممتنع تذکروں کی اصطلاح ہے۔ 

اصطلاح میں سہلِ ممتنع ایسے کلام کو کہتے ہیں جس میں نازک، بلند اور دقیق خیال کو بھی آسان، سلیس اور مانوس الفاظ میں قدر سادگی اور صفائی کے ساتھ باندھا جائے کہ وہ خیال و شعر عام اور معمولی لگنے لگے یعنی قاری و سامع کو مفہوم کی ترسیل اس طرح ہو جائے جیسے ایک عام بات کی ترسیل ہوتی ہے۔ سہلِ ممتنع کی تعریف یہ ہے کہ ایسا شعر جس کی نثر نہ کی جا سکے یعنی اس میں اتنی سادگی اور عمومیت ہو کہ نثر میں کچھ بیان کرنے کے لیے باقی ہی نہ رہے، سہلِ ممتنع کا شعر کہلاتا ہے۔ حسرت موہانی سہلِ ممتنع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

سادگی حسن و بیان کی اس صفت کا نام ہے جس کو دیکھ ہر شخص بظاہر یہ سمجھے کہ یہ بات مرے دل میں بھی تھی اور ایسا کہنا شاعر کے لیے آسان ہے مگر جب خود کوشش کرے ویسا لکھنا چاہے تو نہ لکھ سکے۔
(محاسنِ کلام: حسرتؔ موہانی، ص 61)

سہلِ ممتنع کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

اب تو جاتے ہیں میکدے سے میرؔ
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
(میر تقی میر)
سب مشکل ہے شیوۂ تسلیمؔ
ہم بھی آخر کو منھ چرانے لگے
(تسلیم لکھنوی)

میرا ان کا معاملہ ناظمؔ
کچھ جدا، جنگ و آشتی سے ہے
(ناظم)

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
(درد)

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
(مومنؔ)

 کی تمام کی تمام غزل جس کا مطلع:

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے

سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔