اردو کے گمنام اشعار
شہرت کے لیے ایک شعر بھی کافی ہوتا ہے بشرطیکہ شعر میں اتنی قوت و توانائی ہو کہ اجتماعی سائیکی کا حصہ بن جائے۔ ہماری ادبی تاریخ میں ایسے اشعار کی کمی نہیں ہے۔ موقع کوئی بھی ہو کوئی نہ کوئی شعر ذہن میں بجلی کی طرح کوندنے لگتا ہے۔ ذیل میں ایسے مشہور اشعار کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جن شعروں کے خالقین یا تو گمنام ہیں یا ان کو بہت کم لوگ جانتے ہیں اور ایسے مشہور اشعار اکثر میرؔ، غالبؔ، اقبال، احمد فرازؔ وغیرہ کی طرف منسوب کر دیے جاتے ہیں: امید واثق ہے کہ احباب ہماری اس کاوش کو قبول فرمائیں گے۔
1-
طلاق دے تو رہے ہو عتاب و قہر کے ساتھ
مرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کے ساتھ
(ساجد سجنی لکھنوی)
2-
نالہ بلبلِ شیدا تو سنا ہنس ہنس کے
اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی
(لالہ مادھو رام جوہر)
3-
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
(حیرت الہ آبادی)
4-
چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط
بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا
(بزم اکبر آبادی)
5-
شعلہ بھڑک اٹھا میرے اس دل کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
(مہتاب رائے تاباں)
6-
پیری میں ولولے وہ کہاں ہیں شباب کے
اک دھوپ تھی کہ ساتھ گئی آفتاب کے
(خورشید اکبر آبادی)
7-
شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا
(نواب محمد یار خان امیر ٹانڈوی)
8-
شہر میں اپنے یہ لیلیٰ نے منادی کردی
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
(شیخ تراب علی قلندر کاکوروی)
9-
اے صنم وصل کی تدبیروں سے کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
مرزا محمد رضا خاں برق)
10-
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
(منشی میاں داد خاں سیاح اورنگ آبادی)
11-
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
(محمد علی رشکی)
12-
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
(مصطفیٰ زیدی)
13۔
بجھ رہے ہیں چراغِ دیر و حرم
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
(سحاب قزلباش)
14-
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
(حافظ عالمگیر کیف ٹونکی)
16-
اتنے کم ظرف نہیں ہیں جو بہکتے جاویں
گل کے مانند جدھر جائیں مہکتے جاویں
(دلہن بیگم، نواب بہو بیگم ںواب خانِ خاناں کی صاحبزادی کا شعر ہے)
17-
ایک دن آگے ہی دنیا سے اٹھانا ہم کو
شبِ فرقت تو الٰہی نہ دکھانا ہم کو
(میر مظہر علی زارؔ)
18-
آپ کی میری کہانی ایک ہے
کہیے اب میں کیا سناؤں کیا سنوں
(میکش اکبر آبادی)
19-
کس طرح ربط نہ ہو زلف سے دیوانوں کو
ربط ہوتا ہے پریشاں سے پریشانوں کو
(میر نجف علی نجف)
20-
کون سے زخم کا کھلا ٹانکا
آج پھر دل میں درد ہوتا ہے
(میر ضیاالدین ضیاؔ استاد شاعر تھے۔ میر حسن کے استاد تھے، شاہجان آباد سے عظیم آباد آئے اور وہیں سکونت اختیار کرلی۔)
21-
جگنو میاں کی دُم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں
(اشرف علی خاں فغاں)
22-
ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبرِ ایوبؑ کیا، گریہء یعقوبؑ کیا
(شیخ شرف الدین مضمون، بابا فریدالدین شکر گنج کی اولاد میں تھے۔ مظہرؔ اور آرزوؔ سے اصلاح لی۔ )
23-
ادا سے دیکھ لو جاتا رہے گلہ دل کا
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
(قلق لکھنوی کا شعر ہے)
24-
ابرونہ سنوارا کرو کٹ جائے گی انگلی
نادان ہو تلوار سے کھیلا نہیں کرتے
(آغا شاعرؔ)
25-
دن کٹا جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
(اثرؔ دھلوی)
26-
آئینہ دیکھ کے یہ دیکھ سنورنے والے
تجھ پہ بیجا تو نہیں مرتے یہ مرنے والے
(نواب محمد یوسف علی خاں ناظم)
27-
آکر ہماری لاش پہ کیا یار کر چلے
خواب عدم سے فتنہ کو بیدار کر چلے
(عظیمؔ دھلوی)
28-
وہ ان کا وصل میں یہ کہہ کے مسکرا دینا
طلوعِ صبح سے پہلے ہمیں جگا دینا
(بیخود بدایونی)
29-
غافل تجھے کرتا ہے یہ گھڑیال منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
(محمد قدرت اللہ شوق)
30-
مکتبِ عشق کا دستور نرالا دیکھا
اُس کو چھٹی نہ ملے جس کو سبق یاد رہے
(میر طاہر ہی رضوی)
31-
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
(محشر بدایونی)
32-
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
(محمود رام پوری، داغؔ کے شاگرد تھے)
33-
اے چرخ بیکسی پہ ہماری نظر نہ کر
جو کچھ کہ تجھ سے ہو سکے تو درگزر نہ کر
(جوشش عظیم آبادی)
34-
محشر میں گئے شیخ تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
(ماچس لکھنوی)
35-
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
(نادر لکھنوی)
36-
دردِ سر میں ہے کسے صندل لگانے کا دماغ
اس کا گھسنا اور لگانا دردِ سر یہ بھی تو ہے
(الٰہی بخش معروف)
37-
فانوس بن کے جس کی حفاظت خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
(شہیر مچھی شہری کا شعر ہے۔ حفیظؔ جونپوری کے ہمعصر تھے۔ سروشؔ مچھلی شہری کے استاد تھے۔ ان کے اس شعر کو لوگ علامہ اقبالؔ کا شعر کہتے ہیں۔ )
38-
تلخ و شیریں بے تکلف جس کو پینا آ گیا
میکشو! پینا تو پینا اس کو جینا آ گیا
(محسن دربھنگوی)
39-
صد سالہ دورِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی
(گستاخ رامپوری انگریزوں کے زمانے کے جیلر تھے۔ حافظ کرامت اللہ نام تھا۔)
40-
داورِ حشر مرا نامہء اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
ڈاکٹر محمد دین تاثیر)
41-
اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا کیا ہے
اک ضربِ یدِ اِلٰہی اک سجدہء شبیری
(وقار انبالوی)
42-
یا تنگ نہ کر ناصحِ نادان مجھے ایسے
یا چل کے دکھا دے دہن ایسا کمر ایسی
(شتاب رائے برہمن)
43-
کیا لطف ہے جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے
-
کس سوچ میں ہو نسیمؔ بولو
آنکھیں تو ملاؤ دل کہاں ہے
-
لائے اس بت کو التجا کر کے
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
(پنڈت دیا شنکر نیسم، لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ آتش کے شاگرد ہوئے جوانی ہی میں فوت ہو گئے۔ مثنوی گلزارِ نسیمؔ ان کی یادگار ہے۔ ان کی بلاغت کی تعریف خود مرزا غالبؔ نے بھی کی ہے۔)
44-
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سرِ محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
-
اب عِطر بھی ملو گے تو تکلف کی بُو کہاں
وہ دن ہوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا
(لالہ مادھو رام جوہر)
45-
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب زرا گردن جھکائی دیکھ لی
(منشی موجی رام موجی)
46-
تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو
رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے
-
چھپا ہے مانگ میں دل جا کے اب میں ڈھونڈوں کدھری
کہ آدھی رات ادھر ہے آدھی رات ادھر
(بدھ سنگھ قلندرؔ۔ میر تقی میر کے معاصر تھے)
47-
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
(چکبست لکھنوی)
48-
ملے گی شیخ کو جنت ہمیں دوزخ عطا ہوگا
بس اتنی بات ہے جس کے لیے محشر بپا ہوگا
بھروسہ کس قدر تجھ کو ہے اخترؔ اس کی رحمت پر
اگر وہ شیخ صاحب کا خدا نکلا تو کیا ہوگا
(پنڈت ہری چند اخترؔ)
49-
اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
(دواکر راہی)
50-
ترچھی نظروں سے نہ دیکھو عاشقِ دلگیر کو
کیسے تیر انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو
-
سر مرا کاٹ کے پچھتائے گا
کس کی پھر جھوٹی قسم کھائے گا
-
اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کارواں ہو کر
-
کسی کے آتے ہی ساقی کے یہ حواس گئے
شراب سیخ پہ ڈالی کباب شیشے میں
(وزیر لکھنوی)
51-
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی
-
کوچہء یار میں میں نے تسکین
پاؤں رکھا تھا کہ سر یاد آیا
(میر تسکینؔ دھلوی)
52-
انداز اپنا دیکھتے ہیں آئینے میں وہ
اور یہ بھی دیکھتے ہیں کوئی دیکھتا نہ ہو
-
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ
(نظام رامپوری)
53-
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
-
تڑپتی دیکھتا ہوں جب کوئی شے
اٹھا لیتا ہوں اپنا دل سمجھ کر
(امیر اللہ تسلیمؔ)
54-
حالت نہ پوچھیے میرے شیب و شباب کی
دو کروٹیں تھیں عالمِ غفلت میں خواب کی
-
سمت کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
(محسن کاکوروی)
55-
چاہت کا جب مزا ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی
(ظہیر دھلوی)
56-
رہ گئیں دل میں حسرتیں سالکؔ
آ گئی عمر پارسائی کی
-
کتنے عاجز ہیں ہم کہ پاتے ہیں
بندے بندے میں بُو خدائی کی
(قربان علی بیگ سالک)
57-
نہ میں سمجھا نہ آپ آئے کہیں سے
پیسنہ پوچھیے اپنی جبیں سے
مٹی خراب ہے ترے کوچے میں ورنہ ہم
اب تک تو جس زمیں پہ رہے آسماں رہے
(انور دھلوی)
58-
علاجِ دردِ دل تم سے مسیحا ہو نہیں سکتا
تم اچھا کر نہیں سکتے میں اچھا ہو نہیں سکتا
(مضطر خیر آبادی)
59-
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
-
باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
(ثاقبؔ لکھنوی)
60-
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس میں جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
-
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
میں نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
(سعید احمد ناطقؔ)
61-
چوری کہیں کھلے نہ نسیمِ بہار کی
خوشبو اڑا کے لائی ہے گیسوئے یار کی
-
اک تری چشمِ کرم نے ساقیِ بندہ نواز
زرہ کو خورشید اور قطرہ کو دریا کر دیا
(آغا حشرؔ کاشمیری)
62-
شکریہ! اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سےہم
(قمر جلال آبادی)
63-
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ گھس جانے کے بعد
-
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے
کہ خوشبو آ نہیں سکتی کبھی کاغذ کے پھولوں سے
(سید غلام محمد مست کلکتوی)
64-
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
(چراغ حسن حسرت)
65-
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
(اختر انصاری)
66-
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہِ یار سلامت ہزار میخانے
(روش صدیقی)
67-
یاد میری سنبھال کر رکھنا
میرا کیا ہے میں رہا رہا نہ رہا
(نشاط شہادوی)
68-
کشتی چلا رہا ہے مگر کس ادا کے ساتھ
ہم بھی نہ ڈوب جائیں کہیں ناخدا کے ساتھ
69-
نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ جاتی ہے
ان کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں
70-
آج ہم بھی تیری وفاؤں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
(ساغر صدیقی)
71-
دیوار کیا گری مرے کچے مکان کی
یاروں نے میرے صحن سے رستے بنا لیے
(سبط علی صباؔ)
72-
شیخ صاحب پارسائی آپ کی تسلیم ہے
سوئے میخانہ مگر ہر روز کیوں جاتے ہیں آپ
(شمیم کاکوروی)
73-
مریضِ عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
(مرزا علی بیگ عشرتی)
74-
اے دوست تجھ سے ترکِ تعلق کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
(حیات امروہوی)
75-
خدا کے واسطے اس کو نہ ٹوکو
یہی اک شہر میں قاتل رہا ہے
(مرزا مظہر جان جاناں)
Tags:
اردو شاعری