رسا چغتائی کے اشعار اور غزلیں

رسا چغتائی کے اشعار اور غزلیں
ترکِ عشق کو کیا کہیے
عشق اگر نادانی ہے
۔

لہر میں ہے چراغِ دل ورنہ
شام ہی سے بجھا ہوا ہوتا

-
ہم اُسے حادثہ سمجھ لیتے
وہ اگر کوئی حادثہ ہوتا

بے ارادہ سہی کبھی ہم سے
بے تکلف سخن کیا ہوتا

-
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا

کیسا موسم آیا ہے
خوابوں کی ارزانی کا

-
 روز جانا اداس گلیوں میں
روز خود کو سنبھال کر رکھنا

-
اہلِ دل کے لیے گنوانے کو
خاک اس عمرِ مختصر میں تھا

-
ہم سے ملنے کو اک زمانہ ملا
تیرا ملنا تھا سانحہ سا کچھ

-
غمِ اندیشہ ہائے زندگی کیا
تپش سے آگہی کی جَل رہا ہوں

-
زندگی کے یہ جھمیلے اور ہم
سوچتے ہیں وہ کبھی تنہا ملے


شہر میں جائیں تو لوگوں کا ہجوم
اور گھر جائیں تو سناٹا ملے

-
10۔
کہاں اب وہ لباسِ وضع داری
بہت جانو اگر غربت چھپا لو

-
11۔
اس گدایانہ زندگی سے تو
وضع دارانہ مر گئے ہوتے

کوئی دامن کشِ خیال نہ تھا
ورنہ ہم بھی ٹھہر گئے ہوتے

-
12۔
یہاں ہر شخص اپنی خلوتوں میں
سرِ کوہِ اَنا بیٹھا ملے گا

-
13۔
جو کبھی دیکھتا نہ تھا اُس نے
بے ارادہ سہی ۔ مگر دیکھا

-
14۔
جنوں کیسا کہاں کا عشق صاحب
یہ دل کیا اور دل کے ولولے کیا

-
15۔
اور اب اِک خلیج حائل ہے
پہلے دیوار درمیاں میں تھی

-
16۔
کرتا ہوں قتل روز خود کو
لیتا ہوں کام درگزر سے

-
17۔
عشق جی جان سے کیا ہم نے
اور بے خوف و بے ہراس کیا

زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اقتباس کیا


-
18۔
موسم کیسا گیانی ہے
پتھر پانی پانی ہے

لہریں کیسی منگتی ہیں
ساحل کیسا دانی ہے

اس بستی کی سچائی
اس بستی کا پانی ہے

جو کچھ ہے یاں مایا ہے
مایا آنی جانی ہے

جاتے جاتے جائے گی
برسوں کی ویرانی ہے

ہم کیا کم آوارہ ہیں
رات اگر سیلانی ہے

آ جاتی ہے سُولی پر
نیند بڑی مستانی ہے

اُس کے سات سمندر ہیں
میری ایک کہانی ہے

آپ رساؔ سے واقف ہیں
میرا یارِ جانی ہے

-
19۔
ضروری ہے خیالِ رفتگاں بھی
بڑی شے ہے غبارِ کارواں بھی

اک افسانہ سا ہو کر رہ گئے ہیں
رہے تھے کچھ دنوں ہم سرگراں بھی

-
20۔
نیند آتی نظر نہیں آتی
دن نکلتا دکھائی دیتا ہے

شہر میں اِک ہجومِ تنہائی
ساتھ چلتا دکھائی دیتا ہے

آنکھ جو دیکھتی ہے دیکھتی ہے
دل تجھے کیا دکھائی دیتا ہے

گھر میں تھا کیا رساؔ جو سارا گھر
اُلٹا پلٹا دکھائی دیتا ہے

-
21۔
قصہ گو اُٹھ جائیں گے
سناٹا چھا جائے گا

اب کیا آگے آتا ہے
آگے دیکھا جائے گا

عشق ہمارا مرشد ہے
مرشد راہ دکھائے گا

دیکھ رساؔ یہ کل جُگ ہے
مان رساؔ پچھتائے گا

-
22۔
یوں اسے طبعِ بدگماں دیکھیں
مر نہ جائیں جو ناگہاں دیکھیں

تجھ کو دیکھیں کہ جاں نثار ترے
حاصلِ عمرِ رائگاں دیکھیں

-
23۔
مختصر یہ کہ ترے کوچے سے
میں تو خاموش گزر آیا تھا

کیا ستم ہے غمِ جاناں اب تو
عشق کرنے کا ہنر آیا تھا

-
24۔
تیر جب بھی کمان سے نکلا
کوئی معصوم ہی نشانہ ہوا

-
25۔
ایسا لگتا ہے جیسے آنکھوں کو
خواب دیکھے ہوئے زمانہ ہوا

-
26۔
آنکھ اٹھتا نہیں بارِ حیا
یا جوازِ کم نگاہی اور ہے

کل ملے تھے جس رساؔ مرزا سے ہم
آج وہ مرزا رساؔ ہی اور ہے


27۔
اور تو کیا ہے دامن میں
ایک تہی دامانی ہے

-
28-
نام جو بھی ہو نسب جو بھی ہو
تھا وہ اک شخص عجب جو بھی ہو

29-
یہ شہر بے اماں سے
یہ لوگ رائگاں سے

یہ شور مضمحل سا
یہ پیڑ نیم جاں سے

یہ عمرِ مختصر کے
انداز بے کراں سے

ہیبت زدہ سمندر
خاموش بادباں سے

جمہور دل گرفتہ
انسان بے زباں سے

امواج پا بہ جولاں
ساحل رواں دواں سے

تقدیر روشنی کی
وابستہ خاک داں سے

ہر شام اک ستارہ
نکلے ہے آسماں سے

ہر شام ک جہنم
گزرے ہے درمیاں سے

آیا رساؔ غزل میں
آتش کدہ کہاں سے

-
30۔ 
عارضوں کو ترے کنول کہنا
اتنا آساں نہیں غزل کہنا

ہم بھی بیٹھے گوش بر آواز
رفتگاں سے زرا اجل کہنا

آج موضوعِ گفتگو ہے حیات
اب کوئی اور بات کل کہنا
۔
31-
اس تحیر کے کارخانے میں
انگلیاں کاٹتے رہا کیجیے

کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں
تاکتے جھانکتے رہا کیجیے

فصل ایسی نہیں جوانی کی
دیکھتے بھالتے رہا کیجیے

آئینے بے جہت نہیں ہوتے
عکس پہچانتے رہا کیجیے

زندگی اس طرح نہیں کٹتی
وقت اندازتے رہا کیجیے

ناسپاسانِ علم کے سر پہ
پگڑیاں باندھتے رہا کیجیے

32-
شعر ہم نے سنے رَساؔ تیرے
واقعی اَن کہے سے لگتے ہیں

33۔
کیا ہوائے بہارِ تازہ ہے
کیا چراغِ سرائے عبرت ہے

34-
اور جیسے اسے نہیں معلوم
شہر میں کیا ہماری عزت ہے

35۔
لوگ مل کر بچھڑ بھی جاتے ہیں 
اور یہ ناگہاں بھی ہوتا ہے

چشمِ آئنہ ساز میں شاید
آئینے کا گماں بھی ہوتا ہے

36۔
لوٹ آئے طیورِ آوارہ
اور رَسا گھر ابھی نہیں آیا

37-
ہم نے دیکھے ہیں شام کے سائے
ہم کاٹی ہے دوپہر تنہا

38۔
زندگی اور اس قدر مصروف
آدمی اور اس قدر تنہا

39۔
تجھ سے یہ تیری حاشیہ بردار
اور کہتے بھی میری شان میں کیا

پوچھتا ہے مکاں کا سناٹا
میں ہی رہتا ہوں اس مکان میں کیا

اچھے لگتے ہیں آن بان کے لوگ
جانے ہوتا ہے آن بان میں کیا

کیا ہوئے میرے خاندان کے لوگ
ایک میں ہی تھا خاندان میں کیا

جمع کیجیے نہ درد و غم تو رساؔ
کیجیے اور اس جہان میں کیا

40-
روز سامانِ قتل کرتا ہے
قتل اک بار کیوں نہیں کرتا

یار تو کس ہوا میں رہتا ہے
اپنا گھر بار کیوں نہیں کرتا

41-
شہرِ کراچی یاد ہے تجھ کو تیرے شب بیداروں میں
کوئی رساؔ چغتائی بھی تھا یار ہمارا یاروں میں

42-
آج دل کی بیاض میں لکھ کر
لفظ خانہ خراب بھی دیکھوں

43-
ہم نہ بولیں گے سرِ بزم تو کیا
آپ وہ آئینہ رُو بولے گا

زخم بولیں گے نہ ہم بولیں
تیرا اندازِ رفو بولے گا

44-
لے اُڑی پھر کسی خیال کی رَو
گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اچھے بھلے

45-
کوئی موضوعِ گفتگو ہو رساؔ
اپنا حُسنِ بیاں نہیں جاتا

46-
یہ سلگتا ہوا دل
اور یہ سرد ہوا

پھول سے جسم پہ، اور
اس قدر تنگ قبا

آپ تو بھول گئے
ہم سے یہ بھی نہ ہوا

47-
فیصلے وقت کے اٹل ہی سہی
کیا رہیں گے یونہی اٹل برسوں

48-
دو گھڑی کو شباب آیا تھا
وہ نذرِ فغاں کیا ہم نے

49-
یہ بھی خیالِ خاطرِ احباب ہے کہ ہم
دل میں چھپا کے دشنہء اغیار لے چلے

50-
ڈھونڈیے اب کہاں دکانِ دل
شہر میں خلفشار ایسا ہے