کلیات جگر سے غزلیات کا انتخاب ۔ از جگر مراد آبادی

کلیات جگر سے غزلیات کا انتخاب ۔ از جگر مراد آبادی

نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم اُن میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروعِ راہِ محبت، ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں

۔۔

لجائے جاتے ہیں، دامن چھڑائے جاتے ہیں
جو دل سے اُٹھتے ہیں شعلے وہ رنگ بن بن کر
تمام منظر فطرت پہ چھائے جاتے ہیں
میں اپنی آہ کے صدقے کہ میری آہ میں بھی
تری نگاہ کے انداز پائے جاتے ہیں
رواں رواں لئے جاتی ہے آرزوئے وصال
کشاں کشاں ترے نزدیک آئے جاتے ہیں
کہاں منازلِ ہستی، کہاں ہم اہلِ فنا
ابھی کچھ اور یہ تہمت اُٹھائے جاتے ہیں
مری طلب بھی اسی کے کرم کا صدقہ ہے
قدم یہ اُٹھتے نہیں ہیں اُٹھائے جاتے ہیں
الہٰی ترکِ محبت بھی کیا محبت ہے
بھلاتے ہیں انہیں، وہ یاد آئے جاتے ہیں
سنائے تھے لب ِ نے سے کسی نے جو نغمے
لبِ جگر سے مکرر سنائے جاتے ہیں
۔۔۔۔

نیاز عاشقی کو ہم ناز کے قابل سمجھتے ہیں
ہم اپنے دل کو بھی اب آپ ہی کا دل سمجھتے ہیں
عدم کی راہ میں رکھا ہی ہے پہلا قدم میں نے
مگر احباب اس کو آخری منزل سمجھتے ہیں
قریب آ آ کے منزل تک پلٹ جاتے ہیں منزل سے
نہ جانے دل میں کیا آوارۂ منزل سمجھتے ہیں
الہٰی ایک دل ہے، تو ہی اس کا فیصلہ کر دے
وہ اپنا دل سمجھتے ہیں، ہم اپنا دل سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔

کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیِ ما بعد دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے
۔۔۔۔۔۔

درد بڑھ کر فغاں نہ ہو جائے
یہ زمیں آسماں نہ ہو جائے
دل میں ڈوبا ہوا جو نشتر ہے
میرے دل کی زباں نہ ہو جائے
دل کو لے لیجیئے جو لینا ہے
پھر یہ سودا گراں نہ ہو جائے
آہ کیجے مگر لطیف ترین
لب تک آ کر دھواں نہ ہو جائے
۔۔۔۔

کسی صورت نمودِ سوز پہچانی نہیں جاتی
بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی
صداقت ہو تو دل سینے سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
جلے جاتے ہیں بڑھ بڑھ کر مٹے جاتے ہیں گر گر کر
حضورِ شمع پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی
جگر وہ بھی از سر تا پا محبت ہی محبت ہیں
مگر ان کی محبت صاف پہچانی نہیں جاتی
۔۔۔۔۔

طبیعت ان دنوں بیگانۂ غم ہوتی جاتی ہے
میرے حصے کی گویا ہر خوشی کم ہوتی جاتی ہے
قیامت کیا یہ، اے حسنِ دو عالم! ہوتی جاتی ہے
کہ محفل تو وہی ہے دلکشی کم ہوتی جاتی ہے
وہی میخانہ و صہبا، وہی ساغر، وہی شیشہ
مگر آوازِ نوشا نوش مدھم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے شاہد و ساقی مگر دل بجھتا جاتا ہے
وہی ہے شمع لیکن روشنی کم ہوتی جاتی ہے
وہی ہے زندگی لیکن جگرؔ یہ حال ہے اپنا
کہ جیسے زندگی سے زندگی کم ہوتی جاتی ہے
۔۔۔۔۔

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد
اب مجھ کو نہیں کچھ بھی محبت کے سوا یاد
میں شکوہ بلب تھا مجھے یہ بھی نہ رہا یاد
شاید کہ مرے بھولنے والے نے کیا یاد
چھیڑا تھا جسے پہلے پہل تیری نظر نے
اب تک ہے وہ اک نغمۂ بے ساز و صدا یاد
کیا لطف کہ میں اپنا پتہ آپ بتاؤں
کیجیے کوئی بھولی ہوئی خاص اپنی ادا یاد
جب کوئی حسیں ہوتا ہے سرگرمِ نوازش
اس وقت وہ کچھ اور بھی آتے ہیں سوا یاد
کیا جانیے کیا ہو گیا ارباب جنوں کو
مرنے کی ادا یاد نہ جینے کی ادا یاد
میں ترکِ رہ و رسمِ جنوں کر ہی چکا تھا
کیوں آ گئی ایسے میں تری لغزشِ پا یاد
مدت ہوئی اک حادثۂ عشق کو لیکن
اب تک ہے ترے دل کے دھڑکنے کی صدا یاد
۔۔۔۔۔


ہمیں‌ معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میں‌کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہوں‌گے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
سر محشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہو گا
درِ جنت نہ وا ہو گا، درِ رحمت تو وا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہو گا فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریں‌اُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیں‌سکتی
جو محبوب خدا ہو گا، وہ محبوبِ خدا ہو گا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہو گا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر ِ عاشق پر اگر ہو گی تو کیا ہو گا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہو گا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہو گا، شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
۔۔۔۔۔

یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پئے سرشار ہو جائے
دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہو جائے
ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہو جائے
جنوں کی رُوحِ خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو ؟
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے ؟
معاذ اللہ ، اس کی وارداتِ غم ، معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو ، اور چمن بیزار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اُٹھے
نظر تلوار بن جائے ، نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
۔۔۔۔۔

    وہ حسنِ کافر اللہ اکبر
    تخریبِ دوراں، آشورِ محشر
    وہ قدِ رعنا، وہ روئے رنگیں
    عالم ہی عالم، منظر ہی منظر
    گیسو و عارض، شانہ بہ شانہ
    شام معطر، صبحِ منور
    شرمائیں جن سے ساون کی راتیں
    وہ حلقہ ہائے زلف معنبر
    وہ مست نظریں جب اُٹھ گئی ہیں
    ٹکرا گئے ہیں ساغر سے ساغر
    گفتار شیریں، رفتار نازک
    خیام و حافظ، تسنیم و کوثر
    کشور کُشائے دل ہائے خوباں
    فرمانروائے جاں ہائے مضطر
    شہکارِ فطرت، اعجازِ قدرت
    تعبیرِ خوابِ مانی و آذر
    گفتار مبہم، اجمالِ ہستی
    رفتارِ برہم، تفسیرِ محشر
    وہ بزمِ خلوت، وہ طرفِ گلشن
    وہ دستِ سیمیں، وہ جامِ احمر
    وہ حسنِ رقصاں، وہ جسمِ لرزاں
    وہ عشقِ حیراں، وہ شوقِ مضطر
    جانِ توجہ، روحِ تغافل
    عریاں تبسم، پوشیدہ نِشتر
    وہ امتزاجِ شرم و شرارت
    وہ احتیاطِ آداب پرور
    وہ موسم گل، وہ شیشہ و مل
    وہ کیف و مستی، وہ رُت وہ منظر
    نغمہ ہی نغمہ، خوشبو ہی خوشبو
    صہبا ہی صہبا، ساغر ہی ساغر
۔۔۔۔۔

زندگی ہے مگر پرائی ہے
مرگِ غیرت! تری دہائی ہے
جب مسرت قریب آئی ہے
غم نے کیا کیا ہنسی اڑائی ہے
حسن نے جب شکست کھائی ہے
عشق کی جان پر بن آئی ہے
عشق کو زعمِ پارسائی ہے
حسنِ کافر! تری دہائی ہے
ہائے وہ سبزۂ چمن کہ جسے
سایۂ گل میں نیند آئی ہے
عشق ہے اس مقام پر کہ جہاں
زندگی نے شکست کھائی ہے
خاکِ منزل کو منہ سے ملتا ہوں
یادگارِ شکستہ پائی ہے
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ‌دیا
کیا اسیری ہے، کیا رہائی ہے
ہجر سے شاد، وصل سے ناشاد
کیا طبیعت جگر نے پائی ہے
۔۔۔۔۔

پرائے ہاتھوں میں جینے کی ہوس کیا؟
نشیمن ہی نہیں تو پھر قفس کیا؟
مکان و لا مکاں سے بھی گزر جا
فضائے شوق میں پروازِ خس کیا؟
کرم صیاد کے صد ہا ہیں ، پھر بھی
فراغِ خاطرِ اہلِ قفس کیا؟
محبت سر فروشی، جاں سے پیاری
محبت میں خیالِ پیش و پس کیا؟
اجل خود زندگی سے کانپتی ہے
اجل کی زندگی پر دسترس کیا؟
زمانے پر قیامت بن کے چھا جا
بنا بیٹھا ہے طوفاں در نفس کیا؟
قفس سے ہے اگر بیزار بلبل
تو پھر یہ شغلِ تزئینِ قفس کیا؟
لہو آتا نہیں کھنچ کر مژہ تک
نہ آئے گی بہار اَب کے برس کیا؟
۔۔۔۔

وہ کافر آشنا ، نا آشنا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہماری ابتدا تا انتہا یوں بھی ہے اور یوں بھی
تعجب کیا اگر رسمِ وفا یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہ حُسن و عشق کا ہر مسئلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
کہیں ذرہ، کہیں صحرا، کہیں قطرہ ، کہیں دریا
مُحبت اور اُس کا سلسلہ یوں بھی ہے اور یوں بھی
وہ مُجھ سے پُوچھتے ہیں ایک مقصد میری ہستی کا
بتاؤں کیا کہ میرا مُدعا یوں بھی ہے اور یوں بھی
ہم اُن سے کیا کہیں وہ جانیں اُن کی مصلحت جانے
ہمارا حالِ دل تو برملا یوں بھی ہے اور یوں بھی
نہ پا لینا تیرا آسان نہ کھو دینا تیرا ممکن
مُصیبت میں یہ جانِ مُبتلا یوں بھی ہے اور یوں بھی
۔۔۔۔

ساقی کی ہر نگاہ پہ بل کھا کے پی گیا
لہروں سے کھیلتا ہوا، لہرا کے پی گیا
بے کیفیوں کے کیف سے گھبرا کے پی گیا
توبہ کو توبہ تاڑ کے، تھرا کے پی گیا
زاہد، یہ میری شوخیِ رندانہ دیکھنا!
رحمت کو باتوں باتوں میں بہلا کے پی گیا
سر مستیِ ازل مجھے جب یاد آ گئی
دنیائے اعتبار کو ٹھکرا کے پی گیا
آزردگیِ‌خاطرِ ساقی کو دیکھ کر
مجھ کو یہ شرم آئی کہ شرما کے پی گیا
اے رحمتِ تمام! مری ہر خطا معاف
میں انتہائے شوق میں گھبرا کے پی گیا
پیتا بغیرِ اذن، یہ کب تھی مری مجال
در پردہ چشمِ یار کی شہ پا کے پی گیا
اس جانِ مے کدہ کی قسم، بارہا جگر!
کل عالمِ بسیط پہ میں چھا کے پی گیا
۔۔۔۔۔

جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے
غم بھی جس کو راس نہ آئے
ضد پر عشق اگر آ جائے
پانی چھڑکے، آگ لگائے
دل پہ کچھ ایسا وقت پڑا ہے
بھاگے لیکن راہ نہ پائے
کیسا مجاز اور کیسی حقیقت؟
اپنے ہی جلوے، اپنے ہی سائے
جھوٹی ہے ہر ایک مسرت
روح اگر تسکین نہ پائے
کارِ زمانہ جتنا جتنا
بنتا جائے، بگڑتا جائے
ضبط محبت، شرطِ محبت
جی ہے کہ ظالم امڈا آئے
حسن وہی ہے حسن جو ظالم
ہاتھ لگائے ہاتھ نہ آئے
نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے
راہِ جنوں آسان ہوئی ہے
زلف و مژہ کے سائے سائے
۔۔۔۔۔

نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لوٹ لیا
نہ پوچھو شومیِ تقدیرِ خانہ بربادی
جمالِ یار کہاں نقشِ پا نے لوٹ لیا
دل تباہ کی روداد، اور کیا کہئے
خود اپنے شہر کو فرماں روا نے لوٹ لیا
زباں خموش، نظر بیقرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
نہ اب خودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لطف کو لطفِ خدا نے لوٹ لیا
۔۔۔۔۔

نہ تاب مستی، نہ ہوش ہستی، کہ شکر نعمت ادا کریں گے
خزاں میں جب ہے یہ اپنا عالم، بہار آئی تو کیا کریں گے
ہر ایک غم کو فروغ دے کر یہاں تک آراستہ کریں گے
وہی جو رہتے ہیں دور ہم سے، خود اپنی آغوش وا کریں گے
جدھر سے گزریں گے سرفروشانہ کارنامے سنا کریں گے
وہ اپنے دل کو ہزار روکیں مری محبت کو کیا کریں گے
نہ شکر غم زیر لب کریں گے نہ شکوۂ برملا کریں گے
جو ہم پہ گزرے گی دل ہی دل میں کہا کریں گے سنا کریں گے
یہ ظاہری جلوہ ہائے رنگیں فریب کب تک دیا کریں گے
نظر کی جو کر سکے نہ تسکیں وہ دل کی تسکین کیا کریں گے
وہاں بھی آہیں بھرا کریں گے، وہاں بھی نالے کیا کریں گے
جنہیں ہے تجھ سے ہی صرف نسبت وہ تیری جنت کو کیا کریں گے
نہیں ہے جن کو مجال ہستی سوائے اس کے وہ کیا کریں گے
کہ جس زمیں کے ہیں بسنے والے اسی کو رسوا کیا کریں گے
ہم اپنی کیوں طرز فکر چھوڑیں ہم اپنی کیوں وضع خاص بدلیں
کہ انقلابات نو بہ نو تو ہوا کیے ہیں ہوا کریں گے
۔۔۔۔۔

پیوست دل میں جب ترا تیرِ نظر ہوا
کس کس ادا سے شکوۂ دردِ جگر ہوا
کچھ داغِ دل سے تھی مجھے امید عشق میں
سو رفتہ رفتہ وہ بھی چراغِ سحر ہوا
تھم تھم کے اُن کے کان میں پہنچی صدائے دل
اُڑ اُڑ کے رنگِ چہرہ مرا نامہ بر ہوا
سینے میں پھر بھڑکنے لگی آتشِ فراق
دامن میں پھر معاملۂ چشمِ تر ہوا
رگ رگ نے صدقے کر دیا سرمایۂ شکیب
اللہ! کس کا خانۂ دل میں گزر ہوا
فریاد کیسی ؟ کس کی شکایت ؟ کہاں کا حشر ؟
دنیا اُدھر کی ٹوٹ پڑی وہ جدھر ہوا
وارفتگیِ شوق کا اللہ رے کمال!
جو بے خبر ہوا وہ بڑا باخبر ہوا
حسرت اُس ایک طائرِ بے کس پر ، اے جگر
جو فصلِ گل کے آتے ہی بے بال و پر ہوا
۔۔۔۔

کثرت میں بھی وحدت کا تماشا نظر آیا
جس رنگ میں دیکھا تجھے یکتا نظر آیا
جب اُس رخِ پر نور کا جلوہ نظر آیا
کعبہ نظر آیا نہ کلیسا نظر آیا
یہ حسن ، یہ شوخی ، یہ کرشمہ ، یہ ادائیں
دنیا نظر آئی مجھے ، تو کیا نظر آیا
اِک سر خوشیِ عشق ہے ، اک بے خودیِ شوق
آنکھوں کو ، خدا جانے ، مری کیا نظر آیا
قربان تری شانِ عنایت کے دل و جاں
جب آنکھ کھلی ، قطرہ بھی دریا نظر آیا
جب دیکھ نہ سکتے تھے تو دریا بھی تھا قطرہ
اس کم نگہی پر مجھے کیا کیا نظر آیا
ہر رنگ ترے رنگ میں ڈوبا ہوا نکلا
ہر نقش ترا نقشِ کفِ پا نظر آیا
آنکھوں نے دکھا دی جو ترے غم کی حقیقت
عالم مجھے سارا تہ و بالا نظر آیا
ہر جلوے کو دیکھا ترے جلووں سے منوّر
ہر بزم میں تو انجمن آرا نظر آیا
۔۔۔۔

تیرا تصور شب ہمہ شب
خلوت غم بھی بزم طرب
دعوی شوق اور شکوہ بلب
شرم دل آرام طلب
باتیں ہیں دو مقصود ہے ایک
تیری طلب یا اپنی طلب
آ ہی گیا اک مست شباب
شیشہ بدست و نغمہ بلب
بیت گئی، جو دل پہ نہ پوچھ
ہجر کی شب اور آخر شب
حسن مکمل جذب و گریز
عشق مسلسل ترک و طلب
ترک طلب اور اطمینان
دیکھ تو میرا حسن طلب
۔۔۔۔

مجھے ہلاک فریب مجاز رہنے دے
نہ چھیڑ و نگہ امتیاز رہنے دے
یہ بات کیا کہ حقیقت وہی مجاز وہی
مجاز ہے تو پھر اس کو مجاز رہنے دے
یہ خانقاہ نہیں پی بھی جا تو اے زاہد
یہ میکدہ ہے یہاں اس کو مجاز رہنے دے
گزرتی ہے جو دل عشق پر نہ پوچھ جگر
یہ خاص راز محبت ہے راز رہنے دے
۔۔۔۔

ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا
جہاں سے چاہنا ان کا وہیں سے دور ہو جانا
نقاب روئے نادیدہ کا از خود دور ہو جانا
مبارک اپنے ہاتھوں حسن کو مجبور ہو جانا
سراپا دید ہو کر غرق موج نور ہو جانا
ترا ملنا ہے خود ہستی سے اپنی دور ہو جانا
نہ دکھلائے خدا ، اے دیدہ تر دل کی بربادی
جب ایسا وقت آئے پہلے تو بے نور ہو جانا
جو کل تک لغزش پائے طلب مسکراتے تھے
وہ دیکھیں آج ہر نقش قدم کا طور ہو جانا
محبت کیا ہے ، تاثیر محبت کس کو کہتے ہیں؟
ترا مجبور کر دینا،مرا مجبور ہو جانا
محبت عین مجبوری سہی لیکن یہ کیا باعث
مجھے باور نہیں آتا مرا مجبور ہو جانا
نگاہ ناز کو تکلیف جنبش تا کجا آخر
مجھی پر منحصر کر دو مرا مجبور ہو جانا
جگر وہ حسن یکسوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجوم نور ہو جانا
۔۔۔۔

تری خوشی سے اگر غم میں بھی خوشی نہ ہوئی
وہ زندگی تو محبت کی زندگی نہ ہوئی
کوئی بڑھے نہ بڑھے ہم تو جان دیتے ہیں
پھر ایسی چشم توجہ کوئی ہوئی نہ ہوئی
فسردہ خاطری عشق اے معاذ اللہ
خیال یار سے بھی کچھ شگفتگی نہ ہوئی
تری نگاہ کرم کو بھی آزما دیکھا
اذیتوں میں نہ ہوئی تہی کچھ کمی نہ ہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہ ہوئی
ادھر سے بھی ہے سوا کچھ ادھر کی مجبوری
کہ ہم نے آہ تو کی ان سے آہ بھی نہ ہوئی
خیال یار سلامت تجھے خدا رکھے
ترے بغیر کبھی گھر میں روشنی نہ ہوئی
گئے تھے ہم بھی جگر جلوہ گاہِ جاناں میں
وہ پوچھتے ہی رہے ہم سے بات بھی نہ ہوئی
۔۔۔۔

ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں
چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں
نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں
نہ وہ مستیاں ہیں، نہ سرشاریاں ہیں
خودی کا ہی احساس خود داریاں ہیں
محبت اثر کرتی ہے چپکے چپکے
محبت کی خاموش چنگاریاں ہیں
نگاہ تجسس نے دیکھا جہاں تک
پرستاریاں ہی پرستاریاں ہیں
تجلی سے کہہ دو ذرا ہاتھ روکے
بہت عام اب دل کی بیماریاں ہیں
نہ آزاد دل ہیں، نہ بے قید نظریں
گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں
نہ ذوق تخیل، نہ ذوق تماشا
محبت ہے اب اور بے زاریاں ہیں
تغافل ہے اک شان محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں
کہاں میں، کہاں تازہ اشعارِ رنگیں
تری اک توجہ کی گلکاریاں ہیں
ازل سے ہے صرفِ دُعا ذرہ ذرہ
خدا جانے کیا کچھ طلبگاریاں ہیں
بچھے جا رہے ہیں سب ہی دیدۂ و دل
تری آمد آمد کی تیاریاں ہیں
قدم ڈگمگائے، نظر بہکی بہکی
جوانی کا عالم ہے، سرشاریاں ہیں
جگر ، زندگی لطف سے کٹ رہی ہے
غم آزاریاں ہیں ، جنوں کاریاں ہیں
کہاں پھر یہ ہستی، کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی میخواریاں ہیں
۔۔۔۔

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبار جہاں سنوارتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
۔۔۔۔

اوس پڑے بہار پر، آگ لگے کنار میں
تم جو نہیں کنار میں، لطف ہی کیا بہار میں
اس پہ کرے خدا رحم گردش ِ روزگار میں
اپنی تلاش چھوڑ کر جو ہے تلاش ِ یار میں
ہم کہیں جانے والے ہیں دامن ِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں
۔۔۔۔

تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہو گا
صدائے ساز ہو گی اور نہ ساز بے صدا ہو گا
ہمیں معلوم ہے ہم سے سنو محشر میں کیا ہو گا
سب اس کو دیکھتے ہونگے، وہ ہم کو دیکھتا ہو گا
جہنم ہو کہ جنت، جو بھی ہو گا، فیصلہ ہو گا
یہ کیا کم ہے، ہمارا اور ان کا سامنا ہو گا
ازل ہو یا ابد، دونوں اسیر ِ زلف ِ حضرت ہیں
جدھر نظریں اٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہو گا
جگر کا ہاتھ ہو گا حشر میں اور دامن ِ حضرت
شکایت ہو کہ شکوہ جو بھی ہو گا، برملا ہو گا
۔۔۔۔۔

تو بھی او نا آشنائے درد دل
کاش ہوتا مبتلائے درد دل
درد دل میرے لئے گر ہے تو ہو
میں نہیں ہر گز برائے درد دل
مجھ سے شاید رہ نہ جائے کچھ کمی
آپ ہی دے لیں سزائے درد دل
کچھ تغافل، کچھ توجہ، کچھ غرور
دیکھنا شان عطائے درد دل
درد دل! غیرت تیری کیا ہو گئی
ان لبوں پر اور ہائے درد دل !
۔۔۔

رند جو مجھ کو سمجھتے ہیں، انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں، میکدہ بر ہوش نہیں
کونسا جلوہ یہاں آتے ہی بے ہوش نہیں
دل مرا دل ہے، کوئی ساغر سر جوش نہیں
حسن سے عشق جدا ہے نہ جدا عشق سے حسن
کونسی شئے ہے، جو آغوش در آغوش نہیں؟
مٹ چکے ذہن سے سب یاد گذشتہ کے نقوش
پھر بھی اک چیز ہے ایسی کہ فراموش نہیں
کبھی ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں، ہوش نہیں، ہوش نہیں !
عشق گر حسن کے جلووں کا ہے مرہون کرم
حسن بھی عشق کے احساں سے سبکدوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں
مل کے اک بار گیا تو ہے کوئی، جس سے جگر
مجھ کو یہ وہم ہے جیسے وہ ہر آغوش نہیں
۔۔۔۔

شمشیر حسن و عشق کا بسمل بنا دیا
تم نے تو مجھ کو پیار کے قابل بنا دیا
ان شاعران دہر پہ ہو عشق کی ہی مار
اک پیکر جمیل کو قاتل بنا دیا
دکھلا کے ایک جلوہ سرا پائے حسن کا
آنکھوں کو اعتبار کے قابل بنا دیا
دونوں جہاں تو اپنی جگہ پر ہیں بر قرار
کیا چیز تھی کہ جس کو مرا دل بنا دیا
۔۔۔۔۔

محبت کی محبت تک ہی جو دنیا سمجھتے ہیں
خدا جانے وہ کیا سمجھے ہوئے ہیں، کیا سمجھتے ہیں
جمال رنگ و بو تک حسن کی دنیا سمجھتے ہیں
جو صرف اتنا سمجھتے ہیں، وہ آخر کیا سمجھتے ہیں
مے و مینا کے پردے ان کو دھوکا دے نہیں سکتے
ازل کے دن سے جو راز مے و مینا سمجھتے ہیں
خبر اس کی نہیں ان خام کاران محبت کو
اسی کو دکھ بھی دیتے ہیں جسے اپنا سمجھتے ہیں
فضائے نجد ہو، یا قیس عامر، اے جگر! ہم تم
جو کچھ بھی ہے اسے عکس رخ لیلیٰ سمجھتے ہیں
۔۔۔۔۔

مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم
خاموش اداؤں میں وہ جذبات کا عالم
اللہ رے وہ شدت جذبات کا عالم
کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم
عارض سے ڈھلکتے ہوئے شبنم کے وہ قطرے
آنکھوں سے جھلکتا ہوا برسات کا عالم
وہ نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا
وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم
۔۔۔۔

نوید بخشش عصیاں سے شرمسار نہ کر
گناہ گار کو یا رب! گناہ گار نہ کر
نظر ملی ہے، تو اس کو بہار ساز بنا
نظر کو مائل رنگینی بہار نہ کر
بہار اپنی جگہ پر سدا بہار رہے
یہ چاہتا ہے تو تجزیہ بہار نہ کر
۔۔۔۔

نہ راہ زن، نہ کسی رہنما نے لوٹ لیا
ادائے عشق کو رسم وفا نے لوٹ لیا
نہ پوچھو شومی تقدیر خانہ بربادی
جمال یار کہاں، نقش پا نے لوٹ لیا
دل تباہ کی روداد اور کیا کہیے
خود اپنے شہر کو فرمانروا نے لوٹ لیا
زباں خموش، نظر بے قرار، چہرہ فق
تجھے بھی کیا تری کافر ادا نے لوٹ لیا
نہ اب خودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جگر
ہر ایک لطف کو لطف خدا نے لوٹ لیا
۔۔۔۔۔

br />
کس نظر سے آج وہ دیکھا کیا
دل میرا ڈوبا کیا، اچھا کیا
حسن سے بھی دل کو بے پروا کیا
کیا کیا اے عشق! تو نے کیا کیا
تو نے سو سو رنگ سے پردا کیا
دیکھنے والا تجھے دیکھا کیا
وہ بھی نکلی اک شعاع برق حسن
میں جسے اپنی نظر سمجھا کیا
لذت نا کامیابی، الاماں!
تو نے ہر امروز کو فردا کیا
اب نظر کو بھی نہیں دم بھر قرار
اس نے بھی انداز دل پیدا کیا
ان کے جاتے ہی یہ حیرت چھا گئی
جس طرف دیکھا کیا، دیکھا کیا
مجھ سے قائم ہیں جنوں کی عظمتیں
میں نے صحرا کو جگر صحرا کیا
۔۔۔۔۔

ایک رنگیں نقاب نے مارا
حُسن بن کر حجاب نے مارا
جلوۂ آفتاب کیا کہیئے
سایۂ آفتاب نے مارا
اپنے سینے ہی پر پڑا اکثر
تیر جو اضطراب نے مارا
نگہِ شوق و دعویء دیدار
اس حجاب الحجاب نے مارا
ہم نہ مرتے ترے تغافل سے
پرسش بے حساب نے مارا
لذت دید بے جمال نہ پوچھ
درد بے اضطراب نے مارا
چھپتے ہیں اور چھپا نہیں جاتا
اس ادائے حجاب نے مارا
حشر تک ہم نہ مرنے والوں کو
مرگِ نا کامیاب نے مارا
پاتے ہی اک اشارۂ نازک
دم نہ پھر اضطراب نے مارا
دل کہ تھا جانِ زیست آہ جگر
اسی خانہ خراب نے مارا
۔۔۔۔

کام آخر جذبۂ بے اختیار آ ہی گیا
دل کچھ اس صورت سے تڑپا، اُن کو پیار آ ہی گیا
جب نگاہیں اُٹھ گئیں، اللہ رے معراجِ شوق
دیکھتا کیا ہوں وہ جانِ انتظار آ ہی گیا
ہائے یہ حسنِ تصور کا فریبِ رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جانِ بہار آ ہی گیا
ہاں سزا دے اے خدائے شوق، اے توفیقِ غم
پھر زبانِ بے ادب پر ذکر یار آ ہی گیا
اس طرح خوش ہوں کسی کے وعدۂ فردا پہ میں
در حقیقت جیسے مجھ کو اعتبار آ ہی گیا
ہائے کافر دل کی یہ کافر جنوں انگیزیاں
تم کو پیار آئے نہ آئے ، مجھ کو پیار آ ہی گیا
درد نے کروٹ ہی بدلی تھی کہ دل کی آڑ سے
دفعتاً پردہ اُٹھا اور پردہ دار ہی آگیا
دل نے اک نالہ کیا آج اس طرح دیوانہ وار
بال بکھرائے کوئی مستانہ وار آ ہی گیا
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا
۔۔۔۔

ملا کے آنکھ نہ محرومِ ناز رہنے دے
تجھے قسم جو مجھے پاک باز رہنے دے
میں اپنی جان تو قربان کر چکوں تجھ پر
یہ چشمِ مست ابھی نیم باز رہنے دے
گلے سے تیغِ ادا کو جدا نہ کر قاتل!
ابھی یہ منظر راز و نیاز رہنے دے
یہ تیر ناز ہیں تو شوق سے چلائے جا
خیالِ خاطر اہلِ نیاز رہنے دے
بجھا نہ آتشِ فرقت کرم کے چھینٹوں سے
دلِ جگر کو مجسم گداز رہنے دے
۔۔۔۔

وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جا رہے ہیں
وہی قیامت ہے قد بالا، وہی ہے صورت وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مُسکرا رہے ہیں
وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا ہوں، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں
خرامِ رنگیں، نظامِ رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر ، نئے نئے گُل کھلا رہے ہیں
شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں
تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر، سمٹ سمٹ کر سب ایک مرکز پر آرہے ہیں
بہار رنگ و شباب ہی کیا، ستارہ و ماہتاب ہی کیا
تمام ہستی جھکی ہوئی ہے، جدھر وہ نظریں جھکا رہے ہیں
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے، نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
خود اپنے نشے میں جھومتے ہیں، وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خرام مستی بنے ہوئے ہیں، ہلاکِ مستی بنا رہے ہیں
وہ روئے رنگیں وہ موجۂ نسیم کہ جیسے دامانِ گل پہ شبنم
یہ گرمیِ حسن کا ہے عالم، عرق عرق میں نہا رہے ہیں
یہ مست بلبل بہک رہی ہے، قریبِ عارض چہک رہی ہے
گلوں کی چھاتی دھڑک رہی ہے ، وہ دستِ رنگیں بڑھا رہے ہیں
یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موجِ دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
ذرا جو دم بھر کو آنکھ جھپکی، یہ دیکھتا ہوں نئی تجلی
طلسم صورت مٹا رہے ہیں، جمال معنی بنا رہے ہیں
۔۔۔۔۔

سن تو اے دل یہ برہمی کیا ہے؟
آج کچھ درد میں کمی کیا ہے؟
دیکھ لو! رنگِ روئے ناکامی!
یہ نہ پوچھو، کہ بے بسی کیا ہے
اپنی ناکامئ طلب کی قسم!!
عین دریا ہے، تشنگی کیا ہے
جسم محدود، روح لا محدود
پھر یہ اک ربطِ باہمی کیا ہے
اے فلک! اب تجھے تو دکھلا دوں
زورِ بازوئے بے کسی کیا ہے
ہم نہیں جانتے محبت میں!
رنج کیا چیز ہے، خوشی کیا ہے
اک نفس خلد، اک نفس دوزخ
کوئی پوچھے یہ زندگی کیا ہے؟
۔۔۔۔

زخم وہ دل پہ لگا ہے کہ دکھائے نہ بنے
اور چاہیں کہ چھُپا لیں تو چھُپائے نہ بنے
ہائے بےچارگیِ عشق کہ اس محفل میں
سر جھُکائے نہ بنے، آنکھ اٹھائے نہ بنے
یہ سمجھ لو کہ غمِ عشق کی تکمیل ہوئی
ہوش میں آ کے بھی جب ہوش میں آئے نہ بنے
کس قدر حُسن بھی مجبورِ کشا کش ہے کہ آہ
منہ چھُپائے نہ بنے، سامنے آئے نہ بنے
ہائے وہ عالمِ پُر شوق کہ جس وقت جگر
اُس کی تصویر بھی سینے سے لگائے نہ بنے
۔۔۔۔

اگر شامل نہ درپردہ کسی کی آرزُو ہوتی
تو پھر اے زندگی ظالم، نہ میں ہوتا، نہ تُو ہوتی
اگر حائل نہ اُس رخ پر نقابِ رنگ و بُو ہوتی
کسے تابِ نظر رہتی، مجالِ آرزو ہوتی؟
نہ اک مرکز پہ رُک جاتی، نہ یوں بے آبرُو ہوتی
محبت جُستجُو تھی، جُستجُو ہی جُستجُو ہوتی
ترا ملنا تو ممکن تھا، مگر اے جانِ محبوبی!
مرے نزدیک توہین مذاق جستجو ہوتی
نگاہِ شوق اُسے بھی ڈھال لیتی اپنے سانچے میں
اگر اِک اور بھی دنیا ورائے رنگ و بُو ہوتی
۔۔۔۔


وہ جو روٹھیں یوں منانا چاہیے
زندگی سے رُوٹھ جانا چاہیے
ہمتِ قاتل بڑھانا چاہیے
زیرِ خنجر مُسکرانا چاہیے
زندگی ہے نام جہد و جنگ کا
موت کیا ہے، بھُول جانا چاہیے
ہے انہیں دھوکوں سے دل کی زندگی
جو حسیں دھوکا ہو ، کھانا چاہیے
لذتیں ہیں دشمنِ اوجِ کمال
کلفتوں سے جی لگانا چاہیے
ان سے ملنے کو تو کیا کہیے جگر!
خود سے ملنے کو زمانہ چاہیے
۔۔۔۔

یادش بخیر! جب وہ تصور میں آ گیا
شعر و شباب و حسن کا دریا بہا گیا
جب عشق اپنے مرکزِ اصلی پہ آ گیا
خود بن گیا حسین، دو عالم پہ چھا گیا
جو دل کا راز تھا اسے کچھ دل ہی پا گیا
وہ کر سکے بیاں، نہ ہمیں سے کہا گیا
ناصح فسانہ اپنا ہنسی میں اڑا گیا
خوش فکر تھا کہ صاف یہ پہلو بچا گیا
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
دل بن گیا نگاہ، نگہ بن گئی زباں
آج اک سکوتِ شوق قیامت ہی ڈھا گیا
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگر
وہ مجھ پہ چھا گئے، میں زمانے پہ چھا گیا
۔۔۔۔۔

دل بہلنے کی شبِ غم یہی صورت ہو گی
آپ کی دی ہوئی تکلیف بھی راحت ہو گی
آپ کے درد میں بھی آپ کی سِیرت ہو گی
بات میں بات، نزاکت میں نزاکت ہو گی
آتشِ دوزخِ ہجراں ہے قیامت، لیکن
تم جو چاہو گے تو یہ بھی مجھے جنت ہو گی
جمع کرتی رہے آمادگی ذوقِ فنا!
کام آئے گی، اگر دل میں حرارت ہو گی
کہنے سُننے کی غمِ عشق میں حاجت ہی نہیں
آنکھ سے ٹپکے گی، دل میں جو محبت ہو گی
۔۔۔۔۔

محبت میں جگر گزرے ہیں ایسے بھی مقام اکثر
کہ خود لینا پڑا ہے اپنے دل سے انتقام اکثر
کہاں حسنِ تمامِ یاد و تکلیفِ کرم کوشی؟
بدل دیتی ہے دنیا اک نگاہَ ناتمام اکثر
مری رندی بھی کیا رندی، مری مستی بھی کیا مستی؟
مری توبہ بھی بن جاتی ہے مے خانہ بجام اکثر
محبت نے اسے آغوش میں بھی پا لیا آخر
تصور ہی میں رہتا تھا جو اک محشر خرام اکثر
جگر ایسا بھی دیکھا ہے کہ ہنگامِ سیہ مستی
نظر سے چھپ گئے ہیں ساقی و مینا و جام اکثر
۔۔۔۔۔

جب کبھی چھیڑا جنوں نے دیدۂ خوں بار کو
بھر دیا پھولوں سے ہم نے دامن ِکہسار کو
ٹھیس لگ جائے نہ اُن کی حسرتِ دیدار کو
اے ہجومِ غم! سنبھلنے دے ذرا بیمار کو
فکر ہے زاہد کو حور و کوثر و تسنیم کی
اور ہم جنت سمجھتے ہیں ترے دیدار کو
دیکھنے والے نگاہِ مست ساقی کی کبھی
آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں ساغرِ سرشار کو
ہر قدم پر، ہر روش پر، ہر ادا پر، ہر جگہ
دیکھنا پڑتا ہے انداز، نگاہِ یار کو
لاکھ سمجھایا جگر کو، ایک بھی مانی نہ بات
دھُن لگی تھی کوچۂ قاتل کی میرے یار کو
۔۔۔۔

کسی نے پھر نہ سنا درد کے فسانے کو
مرے نہ ہونے سے راحت ہوئی زمانے کو
اب اس میں جان مری جائے یا رہے، صیاد!
بہار میں تو نہ چھوڑوں گا آشیانے کو
چلا نہ پھر کوئی مجھ پر فریب ہستی کا
لحد تک آئی اجل بھی مرے منانے کو
فلک! ذرا اس بے بسی کی داد تو دے
قفس میں بیٹھ کے روتا ہوں آشیانے کو
وفا کا نام کوئی بھول کر نہیں لیتا
ترے سلوک نے چونکا دیا زمانے کو
قفس کی یاد میں پھر جی یہ چاہتا ہے جگر
لگا کے آگ نکل جاؤں آشیانے کو
۔۔۔۔۔

یہ مزا تھا، خلد میں بھی نہ مجھے قرار ہوتا
جو وہاں بھی آنکھ کھُلتی، یہی انتظار ہوتا
میں جنونِ عشق میں یوں ہمہ تن فگار ہوتا
کہ مرے لہُو سے پیدا اثرِ بہار ہوتا
میرے رشکِ بے نہایت کو نہ پوچھ میرے دل سے
تجھے تجھ سے بھی چھُپاتا، اگر اختیار ہوتا
مری بےقراریاں ہی تو ہیں اس کی وجہ تسکیں
جو مجھے قرار ہوتا ، تو وہ بے قرار ہوتا
جسے چشمِ شوق میری کسی طرح دیکھ پاتی
کبھی حشر تک وہ جلوہ نہ پھر آشکار ہوتا
یہ دل اور یہ بیانِ غمِ عشق بے محابا
اگر آپ طرح دیتے، مجھے ناگوار ہوتا
کبھی یہ ملال، اس کا نہ دُکھے کسی طرح دل
کبھی یہ خیال، وہ بھی یونہی بےقرار ہوتا
مرا حال ہی جگر کیا، وہ مریضِ عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا، مجھے سازگار ہوتا
۔۔۔۔

دل میں کِسی کے راہ کیے جا رہا ہوں میں
کِتنا حسیں گناہ کیے جا رہا ہوں میں
دنیائے دل تباہ کئے جا رہا ہوں میں
صرفِ نگاہ و آہ کیے جا رہا ہوں میں
فردِ عمل سیاہ کیے جا رہا ہوں میں
رحمت کو بے پناہ کیے جا رہا ہوں میں
ایسی بھی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
ذروں کو مہر و ماہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے لگے ہیں عِشق کی عظمت کو چار چاند
خود حُسن کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
دفتر ہے ایک معنیِ بے لفظ و صوت کا
سادہ سی اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
آگے قدم بڑھائیں ، جنہیں سوجھتا نہیں
روشن چراغِ راہ کیے جا رہا ہوں میں
معصومیِ جمال کو بھی جن پہ رشک ہے
ایسے بھی کچھ گناہ کیے جا رہا ہوں میں
تنقیدِ حسنِ مصلحت ِ خاصِ عشق ہے
یہ جرم گاہ گاہ کیے جا رہا ہوں میں
اٹھتی نہیں ہے آنکھ مگر اس کے رو برو
نادیدہ اک نگاہ کیے جا رہا ہوں میں
گُلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جا رہا ہوں میں
یُوں زندگی گزار رہا ہوں میں تیرے بغیر!
جیسے کوئی گُناہ کیے جا رہا ہوں میں
مجھ سے اَدا ہوا ہے جگر جستجو کا حق
ہر ذرّے کو گواہ کیے جا رہا ہوں میں
۔۔۔۔۔

ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ، میری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے ، لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
اب عشق اس مقام پہ ہے جستجو نورد
سایہ نہیں جہاں، کوئی نقشِ قدم نہیں
ملتا ہے کیوں مزہ ستم، روزگار میں! !
تیرا کرم بھی خود جو شریک ِ سفر نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
۔۔۔۔۔

غم سے چھوٹوں ، تو ادھر دیکھوں میں
دل کو رو لوں تو جگر دیکھوں میں
نگہِ یاس اثر دیکھوں میں
دامنِ یار بھی تر دیکھوں میں
آشیاں کے جو اٹھا لوں تنکے
اپنے ٹوٹے ہوئے پر دیکھوں میں
داغ ہی داغ نظر آتے ہیں
کس طرح قلب و جگر دیکھوں میں
دم گھٹا جاتا ہے،اے دستِ جنوں!
چاکِ دامانِ سحر دیکھوں میں
نہ وہ محفل ہے، نہ وہ پروانے
خاک، اے شمع ِ سحر، دیکھوں میں
نزع میں ڈھونڈ رہی ہیں آنکھیں
کاش! انہیں ایک نظر دیکھوں میں
دل ِ دیوانہ، یہ قسمت میری
کہ تجھے خاک بسر دیکھوں میں
چھوٹ جاؤں جو غم ِ ہستی سے
بھول کر بھی نہ ادھر دیکھوں میں
۔۔۔۔۔

لالہ و گل کو دیکھتے کیا یہ بہار دیکھ کر
رہ گئے بےخودی میں ہم صورتِ یار دیکھ کر
ہائے، وہ جوش ربط و ضبط، ہائے، یہ لاتعلقی!
اشک بھر آئے آنکھ میں کوچۂ یار دیکھ کر
یاد کسی کی آہ، کیا کہہ گئی آ کے کان میں
زورِ جنوں سوا ہوا جوشِ بہار دیکھ کر
شوق نے چٹکیاں سی لیں،حسرتِ دل مچل گئی
میری طرف بڑھا ہوا دامنِ یار دیکھ کر
ان سے بھی ہو سکا نہ ضبط، ان کو بھی رحم آ گیا
پائے برہنہ دیکھ کر، جسمِ فگار دیکھ کر
تھی یہ ہوس کہ دیکھتے خال و خط بہارِ حسن
آنکھیں ہی چوندھیا گئیں جلوۂ یار دیکھ کر
۔۔۔۔۔

میرا جو حال ہو سو ہو، برقِ نظر گرائے جا
میں یونہی نالہ کش رہوں، تُو یونہی مسکرائے جا
دل کے ہر ایک گوشہ میں آگ سی اک لگائے جا
مطربِ آتشِ نوا، ہاں اسی دھن میں گائے جا
لحظہ بہ لحظہ، دم بہ دم، جلوہ بہ جلوہ آئے جا
تشنۂ حسنِ ذات ہوں، تشنہ لبی بڑھائے جا
جتنی بھی آج پی سکوں، عذر نہ کر، پلائے جا
مست نظر کا واسطہ، مستِ نظر بنائے جا
لطف سے ہو کہ قہر سے، ہو گا کبھی تو رُوبرو
اس کا جہاں پتہ چلے، شور وہیں مچائے جا
عشق کو مطمئن نہ رکھ حسن کے اعتماد پر
وہ تجھے آزما چکا، تو اسے آزمائے جا
۔۔۔۔۔

کیا آگیا خیال دلِ بےقرار میں
خود آشیاں کو آگ لگا دی بہار میں
محشر میں عرضِ شوق کی امید کیا کروں
دل ہی تو ہے، رہا نہ رہا اختیار میں
دستِ جنونِ عشق کی گل کاریاں نہ پوچھ
ڈوبا ہوا ہوں سر سے قدم تک بہار میں
صورت دکھا کے پھر مجھے بےتاب کر دیا
اک لطف آ چلا تھا غمِ انتظار میں
رگ رگ میں دل ہے، دل میں تڑپ دردِ عشق کی
محشر بنا ہوا ہوں تمنائے یار میں
تھم تھم کے دل سے چھیڑ ہو، تیرِ نگاہ یار!
کیا لطف، جب ہمیں نہ رہے اختیار میں
۔۔۔۔۔۔

ستمِ کامیاب نے مارا
کرمِ لاجواب نے مارا
خود ہوئی گم ، ہمیں بھی کھو بیٹھی
نگہِ بازیاب نے مارا
زندگی تھی حجاب کے دم تک
برہمیِ حجاب نے مارا
عشق کے ہر سکون ِ آخر کو
حسن کے اضطراب نے مارا
خود نظر بن گئی حجابِ نظر
ہائے اس بے حجاب نے مارا
میں ترا عکس ہوں کہ تُو میرا
اِس سوال و جواب نے مارا
کوئی پوچھے کہ رہ کے پہلو میں
تیر کیا اضطراب نے مارا
بچ رہا جو تری تجلی سے
اس کو تیرے حجاب نے مارا
اب نظر کو کہیں قرار نہیں
کاوشِ انتخاب نے مارا
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
۔۔۔۔۔

صبر کے ساتھ مرا دل بھی لیے جائیں آپ
اس قدر رحم مرے حال پہ فرمائیں آپ
دیکھئے میری تمناؤں کا احساس رہے
باغِ فردوس میں تنہا نہ چلے جائیں آپ
میری رگ رگ میں سما کر بھی یہ پردہ مجھ سے
ظلم ہے، ظلم ہے، آئینے سے شرمائیں آپ
کر دیا دردِ محبت نے مرا کام تمام
اب کسی طرح کی تکلیف نہ فرمائیں آپ
نالے کرتے ہوئے رہ رہ کے یہ آتا ہے خیال
کہ مری طرح نہ دل تھام کے رہ جائیں آپ
۔۔۔۔

اِس عشق میں پورا کبھی ساماں نہیں دیکھا
دامن پہ نظر کی تو گریباں نہیں دیکھا
تازہ اثر، اے جذبۂ پنہاں نہیں دیکھا
مدت ہوئی شمشیر کو عریاں نہیں دیکھا
اللہ ری، مجبوری ء آدابِ محبت
گلشن میں رہے اور گلستاں نہیں دیکھا
بےکار گئی سعئ محبت بھی ہماری
حاصل بجز اک دیدہ ء حیراں نہیں دیکھا
اللہ ری، مری تیز روی جوشِ جنوں میں
مڑ کر جو نظر کی تو بیاباں نہیں دیکھا
۔۔۔۔۔

ستم کا عدو مستحق ہو گیا
مرا دل سراپا قلق ہو گیا
سنا نے چلے تھے انہیں حالِ دل
نظر ملتے ہی رنگ فق ہو گیا
جو کچھ بچ رہا تھا مرا خونِ دل
وہی آسماں پر شفق ہو گیا
چھپائے ہوئے تھے ترا رازِ عشق
مگر اب تو سینہ بھی شق ہو گیا
مری موت سن کر، کیا اُس نے ضبط
مگر رنگ چہرے کا فق ہو گیا
۔۔۔۔۔

وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خُسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے؟
مرا عشق بھی کہانی، ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہئیے بہانہ
ترے عشق کی کرامت، یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دُوری و حضوری کا عجیب ہے یہ عالم
ابھی زندگی حقیقت، ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل، مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیرِ دشت و دریا، تو اسیرِ آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں ، ہے جو فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا!
تجھے اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
۔۔۔۔۔۔

نہ اب مسکرانے کو جی چاہتا ہے
نہ آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے
ستاتے نہیں وہ تو ان کی طرف سے
خود اپنے ستانے کو جی چاہتا ہے
کوئی مصلحت روک دیتی ہے ورنہ
پلٹ دیں زمانے کو ، جی چاہتا ہے
تجھے بھول جانا تو ہے غیر ممکن
مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے
تواضع کرائے عشق! چند آنسوؤں سے
بہت مسکرانے کو جی چاہتا ہے
بہت دیر تک چھپ کے تیری نظر سے
تجھے دیکھ پانے کو جی چاہتا ہے
تری آنکھ کو بھی جو بے خواب کر دے
وہ فتنہ جگانے کو جی چاہتا ہے
حسیں تیری آنکھیں، حسیں تیرے آنسو
یہیں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے
جگر اب تو وہ ہی یہ کہتے ہیں مجھ سے
تیرے ناز اٹھانے کو جی چاہتا ہے
۔۔۔۔

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے
آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے
ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے
کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے
یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے
میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے
مستانہ کر رہا ہوں رہِ عاشقی کو طے
لے جائے جذبِ شوق مرا اب جدھر مجھے
ڈرتا ہوں جلوۂ رُخِ جاناں کو دیکھ کر
اپنا بنا نہ لے کہیں میری نظر مجھے
یکساں ہے حسن و عشق کی سر مستیوں کا رنگ
ان کی خبر انہیں ہے نہ میری خبر مجھے
مرنا ہے ان کے پاؤں پہ رکھ کر سرِ نیاز
کرنا ہے آج قصۂ غم مختصر مجھے
سینے سے دل عزیز ہے، دل سے ہو تم عزیز
سب سے مگر عزیز ہے میری نظر مجھے
میں دُور ہوں تو روئے سخن مجھ سے کس لئے
تم پاس ہو، تو کیوں نہیں آتے نظر مجھے
کیا جانیے قفس میں رہے کیا معاملہ
اب تک جو ہیں عزیز مرے بال و پر مجھے
دل لے کے مجھ سے دیتے ہو داغِ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے
۔۔۔۔



اب کہاں زمانے میں دوسرا جواب اُن کا
فصلِ حسن ہے اُن کی، موسمِ شباب اُن کا
ہم سے پوچھ اے ناصح دل گرفتگی اُن کی
ہم نے چھپ کے دیکھا ہے عالمِ پُر آب اُن کا
کیا اسی کو کہتے ہیں ربط و ضبطِ حسن و عشق
شوقِ نارسا اپنا، نازِ کامیاب اُن کا
یوں ہی کھلتے جاتے ہیں حسن و عشق کے اسرار
اک نفس سوال اپنا ، اک نفس جواب اُن کا
اور کس کی یہ طاقت اور کس کی یہ جرأت
عشق آپ آڑ اپنی، حُسن خود حجاب اُن کا
عرضِ غم نہ کر اے دل دیکھ ہم نہ کہتے تھے
رہ گئے وہ "اُٹھ" کہہ کر، سُن لیا جواب اُن کا
تُو جگر جو رسوا ہے تو ہی آہ رسوا رہ
نام تو نہ کر رسوا خانماں خراب اُن کا
۔۔۔۔۔

مقاماتِ اربابِ جاں اور بھی ہیں
مکاں اور بھی ، لامکاں اور بھی ہیں
مکمل نہیں ہے جنونِ تجسس
مسلسل جہاں در جہاں اور بھی ہیں
یہیں تک نہیں عشق کی سیر گاہیں
مہ و انجم و کہکشاں اور بھی ہیں
محبت کی منزل ہی شاید نہیں ہے
کہ جب دیکھیے امتحاں اور بھی ہیں
محبت نہیں صرف مقصودِ انساں
محبت میں کارِ جہاں اور بھی ہیں
فقط توڑ کر مطمئن ہو نہ بلبل!
قفس صورتِ آشیاں اور بھی ہیں
بہت دل کے حالات کہنے کے قابل
ورائے نگاہ و زباں اور بھی ہیں
نہیں منحصر کچھ مے و مے کدہ تک
مری تشنہ سامانیاں اور بھی ہیں
خوشا درسِ غیرت ، زہے عشقِ تنہا
وہاں میں نہیں ہوں، جہاں اور بھی ہیں
صبا! خاکِ دل سے بچا اپنا دامن
ابھی اس میں چنگاریاں اور بھی ہیں
انہیں جب سے ہے اعتمادِ محبت
وہ مجھ سے جگر بد گماں اور بھی ہیں