فیض احمد فیض کے قطعات | نسخہ ہائے وفا سے انتخاب
1۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
2۔
دل رہینِ غمِ جہاں ہے آج
ہر نفس تشنہء فغاں ہے آج
سخت ویراں ہے محفلِ ہستی
اے غمِ دوست! تُو کہاں ہے آج
3۔
وقفِ حرمانِ یاس رہتا ہے
دل ہے، اکثر اداس رہتا ہے
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
4۔
فضائے دل پہ اداسی بکھرتی جاتی ہے
فسردگی ہے کہ جاں تک اترتی جاتی ہے
فریبِ زیست سے قدرت کا مدعا معلوم
یہ ہوش ہے کہ جوانی گزرتی جاتی ہے
5۔
چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں
بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنائیں
کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے
کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں
6۔
متاعِ لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مُہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
7۔
نہ پوچھ جب سے ترا انتظار کتنا ہے
کہ جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
ترا ہی عکس ہے ان اجنبی بہاروں میں
جو تیرے لب، تیرے بازو، ترا کنار نہیں
8۔
صبا کے ہاتھ میں نرمی ہے ان کے ہاتھوں کی
ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
وہ ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں بساطِ محفل میں
کہ دل کے داغ کہاں ہیں نشستِ درد کہاں
9۔
جاں بیچنے کو آئے تو بے دام بیچ دی
اے اہلِ مصر، وضعِ تکلف تو دیکھیے
انصاف ہے کہ حکمِ عقوبت سے پیشتر
اک بار سُوئے دامنِ یوسف تو دیکھیے!
10۔
پھر حشر ساماں ہوئے ایوانِ ہوَس میں
بیٹھے ہیں زوی العدل، گنہگار کھڑے ہیں
ہاں جُرمِ وفا دیکھیے کس کس پہ ہے ثابت
وہ سارے خطاکار سرِ دار کھڑے ہیں
11۔
ترا جمال نہیں نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں
نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی
12۔
ہمارے دم سے ہے کوئے جنوں میں اب بھی خجِل
عَبائے شیخ و قبائے امیر و تاجِ شہی
ہمیں سے سنتِ منصور و قیس زندہ ہے
ہمیں سے باقی ہے گل دامنی و کج کُلہی
13۔
میخانے کی رونق ہیں، کبھی خانقہوں کی
اپنالی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداریِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رندِ خرابات ولی ہے
14۔
نہ آج لطف کر اتنا کہ کل گزر نہ سکے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصالِ یارفقط آرزو کی بات نہیں
15۔
فکرِ سُود و زیاں تو چھوٹے گی
منتِ اِین و آں تو چھوٹے گی
خیر، دوزخ میں مے ملے نہ ملے
شیخ صاحب سے جاں تو چھوٹے گی
16۔
صبح پھوٹی تو آسماں پہ ترے
رنگِ رُخسار کی پُھوہار گری
رات چھائی تو رُوئے عالم پر
تیری زلفوں کی آبشار گری
17۔
تمام شب دلِ وَحشی تلاش کرتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ
ہر ایک صبح ملاتی ہے بار بار نظر
ترے دَہن سے ہر اک لالہ و گلاب کا رنگ
18۔
تمہارے حسن سے رہتی ہے ہمکنار نظر
تمہاری یاد سے دل ہم کلام رہتا ہے
رہی رفراغتِ ہجراں تو ہو رہے گا طے
تمہاری چاہ کا جو جو مقام رہتا ہے
19۔
کھلے جو ایک دریچے میں آج حسن کے پھول
تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
جہاں کہیں بھی گرا نُور ان نگاہوں سے
ہر ایک چیز طرح دار ہو گئی یکسر
20۔
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عشاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں
21۔
یہ خوں کی مَہک ہے کہ لبِ یار کی خوشبو
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
گلشن میں بہار آئی کہ زنداں ہوا آباد
کس سمت سے نغموں کی صدا آتی ہے دیکھو
22۔
آج تنہائی کسی ہمدمِ دیرینہ کی طرح
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں کہ مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
23۔
نہ دید ہے نہ سخن، اب نہ حرف ہے نہ پیام
کوئی بھی حیلہء تسکین نہیں اور آس بہت ہے
امیدِ یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
24۔
ہم خستہ تنوں سے محتسبو! کیا مال منال کا پوچھتے ہو
جو عمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
دامن میں ہے مشتِ خاکِ جگر، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مے
لو ہم نے دامن جھاڑ دیا، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں
25۔
آ گئی فصلِ سُکوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے
دوستو بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کھل گئے زخم، کوئی پھول کھلے یا نہ کھلے
26۔
ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دنوں
کھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ بُو سے پُر
ویراں ہے جام پاس کرو کچھ بہار کا
دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لہو سے پُر
27۔
ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے
قاصدا، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے
آج کل صورتِ بربادیِ یاراں کیا ہے
28۔
زنداں زنداں شورِ اناالحق، محفل محفل قلقلِ مَے
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لَہر
دامن دامن رُت پھولوں کی، آنچل آنچل اشکوں کی
قریہ قریہ جشن بپا ہے، ماتم شہر بہ شہر
29۔
دیدہء تر پہ وہاں کون نظر آتا ہے
کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
اب اگر جاؤ پئے عرض و طلب ان کے حضور
دست و کشکول نہیں کاسہء سر لے کے چلو
30۔
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
پھر وضعِ احتیاط سے دھندلا گئی نظر
پھر ضبطِ آرزو سے بدن ٹوٹنے لگا
31۔
ضبط کا عہد بھی ہے شوق کا پیمان بھی ہے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اتنا کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا
اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
32۔
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
33۔
اک سخن مطربِ زیبا کہ سلگ اُٹھے بدن
اِک قدح ساقیِ مہ وَش جو کرے ہوش تمام
ذکرِ صبحے کہ رُخِ یار سے رنگیں تھا چمن
یادِ شب ہا کہ تنِ یار تھا آغوش تمام
34۔
جو پیرہن میں کوئی تار محتسب سے بچا
دراز دستیِ پیرِ مغاں کی نذر ہوا
اگر جراحتِ قاتل سے بخشوا لائے
تو دل سیاستِ چارہ گراں کی نذر ہوا
35۔
ہزار درد شبِ آرزو کی راہ میں ہے
کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اُترے
قریب اور بھی آؤ کہ شوقِ دید مٹے
شراب اور پلاؤ کہ کچھ نشہ اُترے
36۔
مقتل میں نہ مسجد نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں
شاید کوئی ان میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
37۔
اپنے انعامِ حسن کے بدلے
ہم تہی دامنوں سے کیا لینا
آج فرقت زدوں پہ لطف کرو
پھر کبھی صبر آزما لینا
38۔
رفیقِ راہ تھی منزل ہر اک تلاش کے بعد
چُھٹا یہ ساتھ تو رہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملُول تھا دلِ آئنہ ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہوا اِک خراش بھی نہ رہی
Tags:
فیض احمد فیض