وسیم بریلوی کی شاعری


1-
مدینے حاضری دینے کا یہ معیار ہو جائے
وہی جائے کہ جس کو لوٹنا دشوار ہو جائے

2-
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے

3-
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا

محبت کے یہ آنسو ہیں انہیں آنکھوں میں رہنے دو
شریفوں کے گھروں کا مسئلہ باہر نہیں جاتا

4-
اسے پتہ ہی نہیں ہے کہ پیار کی بازی
جو ہار جائے وہی کامیاب ہوتا ہے

5-
انا کو دفن کر دوں قتل سب خودداریاں کر دوں
ٹھہر اے زندگی تیرے لیے آسانیاں کر دوں

6-
پہرے لگے ہوئے ہیں مری صبح و شام پر
میں مارا جا رہا ہوں بزرگوں کے نام پر

7-
جانے کیا ہو گئی اس کی معصومیت
اب یہ بچہ دھماکوں سے ڈرتا نہیں

8-
ہمارے گھر کا پتہ پوچھنے سے کیا حاصل
اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

9-
چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا
ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی

10-
لوگ بازار میں آ کے بک بھی گئے
میری قیمت لگی کی لگی رہ گئی

11-
کتابِ ماضی کے اوراق الٹ کے دیکھ زرا
نہ جانے کون سا صفحہ مڑا ہوا نکلے

جو دیکھنے میں بہت ہی قریب لگتا ہے
اسی کے بارے میں سوچو تو فاصلا نکلے

12-
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

پھر وہی تلخیِ حالات مقدر ٹھہری
نشے کیسے ہوں کچھ دن میں اتر جاتے ہیں

اک جدائی کا وہ لمحہ کہ جو مرتا ہی نہیں
لوگ کہتے تھے کہ سب وقت گزر جاتے ہیں

گھر کی گرتی ہوئی دیواریں ہی مجھ سے اچھی
راستہ چلتے ہوئے لوگ ٹھہر جاتے ہیں

13-
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا

14-
سارے رنگ آ گئے ایک ہی رنگ میں
میں تجھے دیکھ کر اور کیا دیکھتا

15-
وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب
مجھے بہانا بنانا بھی تو نہیں آیا

وسیمؔ دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اسی کی طرف
کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا

16-
اک زرا سی اَنا کے لیے عمر بھر 
تم بھی تنہا رہے میں بھی تنہا رہا

17-
شکستگی کا بھرم رکھنا اے مرے چہرے
کسی کا سامنا ہو تو اتر نہیں جانا


18-
اپنا دل بھی ٹٹول کر دیکھو
فاصلہ بے وجہ نہیں ہوتا

19-
وقت کی گرد میں وقت ہی رہ گیا
لوگ باتیں ہوئے لوگ قصہ ہوئے

20-
میں نے مدت سے کوئی خواب نہیں دیکھا ہے
ہاتھ رکھ دے مری آنکھوں پہ کہ نیند آ جائے

21-
لگتا تو بے خبر سا ہوں لیکن خبر میں
تیری نظر میں ہوں تو میں سب کی نظر میں ہوں

22-
ہمارے دل میں بھی جھانکو اگر ملے فرصت
کہ اپنے چہرے سے ہم اتنے نظر نہیں آتے

23-
یہ سوچ کر کہ مری شخصیت نہ دب جائے
میں اس کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہتا

24-
محبتوں کے دنوں کی یہی خرابی ہے
یہ روٹھ جائیں تو پھر لوٹ کر نہیں آتے

25-
یہ قربتیں ہی بڑے امتحان لیتی ہیں
کسی سے واسطہ رکھنا تو دور کا رکھنا

26-
تمام جھگڑے یہاں ملکیت کے ہوتے ہیں
کہیں بھی رہنا مگر گھر کرائے کا رکھنا

27-
وسیمؔ دلّی کی سڑکوں پہ رات بھاری ہے
سرہانے میرؔ کا دیوان ہی کھلا رکھنا

28-
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا
تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا

29
جس نے دانستہ کیا ہو نظر انداز وسیمؔ
اس کو کچھ یاد دلائیں تو دلائیں کیسے

30-
ہمارا المیہ یہ تھا کہ ہم سفر بھی ہمیں
وہی ملے جو بہت یاد آنے والے تھے

31-
اس نے بھی چھوڑ دی میرے بارے میں گفتگو 
کچھ دن کے بعد میں بھی اسے بھولتا گیا

32-
میلے کی رونقوں میں بہت گم تو ہو وسیمؔ
گھر لوٹنے کا وقت میاں سر پہ آ گیا

33-
تری بزم تک تو آؤں جو یہ آنا راس آئے
یہ سنا ہے جو گئے ہیں وہ بہت اداس آئے

34-
تجھے گنوا کے کئی بار یہ خیال آیا
تری انا ہی میں کچھ تھا نہ میری آن میں تھا

35-
وسیمؔ رشک سے دیکھوں نہ کیوں پرندوں کو
یہ شام ہوتے گھروں کو تو لوٹ جاتے ہیں

36-
میں یہ نہیں کہتا کہ مرا سر نہ ملے گا
لیکن مری آنکھوں میں تجھے ڈر نہ ملے گا

37-
وقت کی گرد میں وقت ہی رہ گیا
لوگ باتیں ہوئے لوگ قصے ہوئے

38-
وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

وہ ایک پُل کی طرح راستے میں حائل تھا
میں اُس کو پار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

39-
یہ شکستِ زندگی تو میں قبول کر لوں لیکن
یہ خیال ہے کہ تم نے مجھے آسرا دیا ہے

40-
جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے صدیوں سے
کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

----- :)