محسن نقوی کی شاعری

محسن نقوی کے پچاس اشعار | کلیاتِ محسنؔ نقوی سے انتخاب
مسکرایا نہ کر کہ محسن پر
یہ سخاوت گراں گزرتی ہے

جو دوستی نہیں ممکن تو پھر یہ عہد کریں
کہ دشمنی میں بہت دور تک نہ جائیں گے

تیرا محسنؔ ملامت کی بارش میں تَر
جرم یہ ہے کہ فنکار ہے اور کیا؟

سیلِ خوں اب کے بہت تیز ہے محسنؔ میرے
شہر کا شہر گیا، گھر کی خبر کیا رکھنا

شوق سے توڑ دیجے تعلق مگر
راستے کی ملاقات باقی رہے

جہنم جھیلنے سے بھی کٹھن ہے
اَنا کو خوگرِ بیداد کرنا

ہجر کی رُت عذاب ہے محسنؔ
عادتیں سب بدل گئیں اُس کی
بارشِ سنگ میں جب قحطِ نمُو یاد آیا
تیرا سچ بولتا، بے باک لہُو یاد آیا

جب کوئی چیخ تہِ جبر و ستم دفن ہوئی
اہلِ زنداں کو ترا نالہء ہُو یاد آیا

جب درِ حرفِ صداقت پہ کوئی قُفل پڑا
تیرا اعزازِ رَسن، طوقِ گُلو یاد آیا

جب بھی مقتل میں کوئی چاند ہوا زینتِ دار
اے فلک بخت مسافر ہمیں تُو یاد آیا

محسنؔ جب بھی چوٹ نئی کھا لیتا ہوں!
دل کو یاد آتے ہیں زخم پُرانے کیوں

10۔
محسنؔ اُس نے دل کا شہر اجاڑ دیا
میں سمجھا تھا بخت سنورتا جاتا ہے

11۔
سب سے ہٹ کر ہی منانا ہے اُسے
ہم سے اک بار وہ روٹھے تو سہی

دل اُسی وقت سنبھل جائے گا
دل کا احوال وہ پوچھے تو سہی

اس کے قدموں میں بچھا دوں آنکھیں
میری بستی سے وہ گزرے تو سہی

12۔
محسنؔ غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دَب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

13۔
نجانے راکھ ہوئی کتنے سورجوں کی تپش
ہماری برف رگوں میں لہو پگھلنے تک

14۔
دل جو ٹوٹے تو سرِ محفل بھی
بال بے وجہِ بکھر جاتے ہیں

15۔
شہر کی بھیڑ میں کھلتے ہیں کہاں اُس کے نقوش
آؤ تنہائی میں سوچیں کہ وہ کیا لگتا ہے

16۔
اِک روز تری پیاس خریدے گا وہ گھبرو
پانی تجھے پنگھٹ سے جو بھرنے نہیں دیتا

17۔
ہم تو چُپ ہیں مگر زمانے کی
حشر سامانیاں نہیں جاتیں

18۔
ہم انا مست، تہی دست بہت ہیں محسنؔ
یہ الگ بات کہ عادت ہے امیروں جیسی

19۔
جب تری دھن میں جِیا کرتے تھے
ہم بھی چپ چاپ پھرا کرتے تھے

20۔
یوں دیکھتے رہنا اُسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر، تیری آنکھیں

21۔
سب اہلِ شہر پھر درِ دشمن پہ جھک گئے
محسن کھلا کہ شہر کی تقدیر ہم نہ تھے

22۔
کج کلاہوں سے لڑ گئے محسنؔ
ہم بھکاری حسینؑ کے دَر کے

23۔
نوکِ سِناں پہ کیوں نہ سجے اپنی سرکشی
جُز شہریار شہر میں اپنا عدُو ہے کون؟

24۔
خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا

25۔
محسنؔ تکلفات کی غارت گری نہ پوچھ
مجھ کو غمِ وفا تجھے فکرِ معاش ہے

26۔
تِری آنکھ کو آزمانا پڑا
مجھے قصہِ غم سنانا پڑا

غمِ زندگی تیری خاطر ہمیں
سرِدار بھی مسکرانا پڑا

حوادث کی شب اتنی تاریک تھی
جوانی کو ساغر اُٹھانا پڑا

مرے دشمنِ جاں، ترے واسطے
کئی دوستوں کو بھلانا پڑا

کئی سانپ تھے قیمتی اس قدر
انہیں آستیں میں چھپانا پڑا

ہواؤں کے تیور جو برہم ہوئے
چراغوں کو خود جھلملانا پڑا

27۔
یاروں کی خامشی کا بھرم کھولنا پڑا
اتنا سکوت تھا کہ مجھے بولنا پڑا

صرف ایک تلخ بات سنانے سے پیشتر
کانوں میں پھول پھول کا رَس گھولنا پڑا

اپنے خطوں کے لفظ جلانے پڑے مجھے
شفاف موتیوں کو کہاں رولنا پڑا

خوشبو کی سرد لہر سے جلنے لگے جو زخم
پھولوں کو اپنا بندِ قبا کھولنا پڑا

سنتے تھے اُس کی بزمِ سخن ناشناس ہے
محسنؔ ہمیں وہاں بھی سخن تولنا پڑا

28۔
کتنی عزیز تھی تری آنکھوں کی آبرو
محفل میں بے پیے بھی ہمیں ڈولنا پڑآ

29۔
کتاب کھول رہا تھا وہ اپنے ماضی کی
وَرق وَرق پہ بکھرتا گیا مرا چہرہ

30۔
صبح دَم شہر کی شورش تیرے دم سے ہوگی
رات پچھلے پہر عالمِ ہُو میرا ہے

31۔
آسماں سمجھ رہے تھے اُسے شہرِ جاں کے لوگ 
مشکل اتھا اس قدر کہ میرے اپنے فن سا تھا

32۔
اُن پر تو قرض ہیں مرے حرفوں کے ذائقے
اب جن کو آ گئیں بڑی باتیں بنانیاں

33۔
آہٹ سنی ہوا کی تو محسنؔ نے خوف سے
جلتا ہوا دِیا تہِ داماں چھپا لیا

34۔
بستی کے سبھی لوگ سلامت ہیں تو محسنؔ
آواز کوئی اپنے سِوا کیوں نہیں آتی

35۔
رویا ہے اس قدر کہ اب آنکھیں گلاب ہیں
وہ شخص روٹھ کر بھی نشیلا دکھائی دے

36۔
مشکل کہاں تھے ترکِ محبت کے مرحلے
اے دل مگر سوال تری زندگی کا تھا

37۔
جانتے ہیں وہ بے وفا ہے مگر
دل پہ اب اختیار بھی تو نہیں

38۔
آنکھوں میں ایک اشک ہے باقی ہوائے شام
یہ آخری دِیا ہے اِسے مت بجھائیو

39۔
کبھی تُو محیطِ حواس تھا، سو نہیں رہا
میں ترے بغیر اُداس تھا، سو نہیں رہا

مری وُسعتوں کی ہوس کا خانہ خراب ہو
مرا گاؤں شہر کے پاس تھا، سو نہیں رہا

تری دسترس میں تھیں بخششیں، سو نہیں رہیں
مرے لَب پہ حرفِ سِپاس تھا، سو نہیں رہا

میرا عکس مجھ سے اُلجھ پڑا تو گرہ کھلی،
کبھی میں بھی چہرہ شناس تھا، سو نہیں رہا

مرے بعد نوحہ بہ لَب ہوائیں کہا کریں
وہ جو اِک دریدہ لِباس تھا، سو نہیں رہا

میں شکستہ دِل ہوں صفِ عُدو کی شکست پر
وہ جو لطفِ خوف و ہرا تھا ، سو نہیں رہا

40۔
اُسے لُبھا نہ سکا، میرے بعد کا موسم!
بہت اُداس لگا، خال و خد سنوار کے بھی

41۔
سفر تنہا نہیں کرتے!
سُنو ایسا نہیں کرتے

جسے شفاف رکھنا ہو!
اُسے میلا نہیں کرتے

تری آنکھیں اِجازت دیں
تو ہم کیا کیا نہیں کرتے

بہت اُجڑے ہوئے گھر پر
بہت سوچا نہیں کرتے

سفر جس کا مقدر ہو
اُسے روکا نہیں کرتے

جو مل کر خود سے کھو جائے
اُسے رُسوا نہیں کرتے

چلو، تم راز ہو اپنا ۔۔۔!
تمہیں اِفشا نہیں کرتے

یہ اُونچے پیڑ کیسے ہیں؟
کہیں سایا نہیں کرتے!

جو دُھن ہو کر گزرنے کی
تو پھر سوچا نہیں کرتے

کبھی ہنسنے سے ڈرتے ہیں
کبھی رویا نہیں کرتے

تری آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے

سحر سے پوچھ لو محسنؔ
کہ ہم سویا نہیں کرتے!

42۔
دِیا خود سے بُجھا دینا
ہوا کو اور کیا دینا

ستارے نوچنے والو!
فلک کو آسرا دینا

کبھی اس طور سے ہنسنا
کہ دنیا کو رُلا دینا!

کبھی اس رنگ سے رونا!
کہ خود پر مسکرا دینا

میں تیری دسترس چاہوں
مجھے ایسی دُعا دینا

میں تیرا بَرملا مجرم!
مجھے کھل کر سزا دینا

میں تیرا منفرد ساتھی!
مجھے ہٹ کر جزا دینا

مرا سَر سب سے اُونچا ہے
مجھے مقتل نیا دینا

مجھے اچھا لگا محسنؔ
اُسے پا کر گنوا دینا

43۔
رَگوں میں زہر بھر لینا
بدن آباد کر لینا

سدا بجھتے چراغوں سے
سُراغِ ہمسفر لینا

ہمارے جشنِ ماتم میں!
گھڑی بھر کو سنور لینا

گھٹن شہروں کی ڈس لے گی
کسی صحرا میں گھر لینا

اُسے مت بے وفا کہنا
یہ تہمت اپنے سَر لینا

بس اک لمحے کا دکھ دے کر
دُعائیں عمر بھر لینا!

دُکانِ رنگ سے محسنؔ
کسی تتلی کے پَر لینا

44۔
کیا قیامت ہے کہ دل جس کا نگر ہے محسنؔ
دل پہ اُس کا بھی اجارہ نہیں دیکھا جاتا

45۔
ٹھہر جاؤ کہ حیرانی تو جائے
تمہاری شکل پہچانی تو جائے

46۔
راحتِ دل، متاعِ جاں ہے تُو
اے غمِ دوست جاوداں ہے تُو

آنسوؤں پر بھی تیرا سایا ہے
دھوپ کے سر پہ سائباں ہے تُو

دل تری دسترس میں کیوں نہ رہے
اس زمیں پر تو آسماں ہے تُو

شامِ شہرِ اُداس کے والی
اے مِرے مہرباں کہاں ہے تُو؟

سایہء ابرِ رائیگاں ہوں میں
موجہء بحرِ بیکراں ہے تُو

میں تہی دست و گرد پیراہن
لعل و الماس کی دُکاں ہے تُو

لمحہ بھر مل کے رُوٹھنے والے
زندگی بھر کی داستاں ہے تُو

کفر و ایماں کے فاصلوں کی قَسم
اے متاعِ یقیں، گماں ہے تُو

تیرا اقرار ہے نفی میری
میرے اثبات کا جہاں ہے تُو

اے مرے لفظ لفظ کے مفہوم
نطقِ بے حرف و بے زباں ہے تُو

جو مقدر سنوار دیتے ہیں
اُن ستاروں کی کہکشاں ہے تُو

بے نشاں بے نشاں خیام مرے
کارواں کارواں ۔ رواں ہے تُو

اے گریباں نہ ہو سپردِ ہوا
دل کی کشتی کا بادباں ہے تُو

جلتے رہنا چراغِ آخرِ شب
اپنے محسنؔ کا رازداں ہے تُو

۔۔

47۔
میں شکستہ آئنوں کے شہر میں پھرتا رہا
ہاتھ میں تیرا پتہ، پاؤں میں چبھتی کِرچیاں

48۔
تو کہ سمٹا تو رگِ جاں کی حدوں میں سمٹا
میں کہ بکھرا تو سمیٹا نہ گیا تیرے بعد

49۔
خود کشی کو بھی رائیگاں نہ سمجھ
کام یہ بھی ہے کر گزرنے کا

50۔
اُس کے خال و خد کی تشبیہیں نہ پوچھ
رنگ، رِم جھم، روشنی، رعنائیاں
پوچھ مت محسنؔ اندھیرے ہجر کے
چاند سی کیا صورتیں گہنائیاں