Qabz-e-Zaman قبض زماں A Novel by Shams-ur-Rehman Farooqui

Download Qabz-e-Zaman قبض زماں Shams-ur-Rehman Farooqui
"قبض زماں" کے پڑھنے والوں کو دو باتیں ضرور یاد آئیں گی۔ اول تو اصحابِ کہف کا قصہ جو قرآن پاک کی سورۃ کہف میں مرقوم ہے۔ (آیت 3 تا 26)، اور دوسرا امریکی مصنف واشنگٹن ارونگ (Washington Irving 1783-1859) کا مشہور افسانہ "رپ فان ونکل" (Rip Van Winkle)۔ قرآن مجید کے قصے میں اصحاب کہف کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے، لیکن یہ کہا گیا ہے کہ وہ تین سو نو (309) برس سوئے، ان کے ساتھ ان کا کتا بھی تھا اور اللہ انہیں کروٹ پھرا کر اور دوسرے طریقوں سے ان کے جسموں کو سوکھنے یا خراب ہونے سے محفوظ رکھتا تھا۔ یہ لوگ خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے اور خوف جان و خوف ایمان سے ایک غار میں جا چھپے تھے۔ وہاں اللہ نے ان کی حفاظت کی۔ 
نصرانی روایتوں کے بموجب یہ واقعہ سنہ 250 میں پیش آیا۔ وہ سات صاحبان تھے اور خدائے واحد کی پرستش کرتے تھے اور خوفِ جان و خوفِ ایمان سے مجبور ہو کر ایک غار میں جا چھپے تھے جہاں اللہ نے انہیں سلا دیا اور وہ دو سو برس تک سوتے رہے۔
واشنگٹن اورنگ کا نام میری عمر کے اردو خوانوں کو اس کی کتاب Tales from Alhambra کی وجہ سے یاد ہوگا غلام عباس نے جس کا ترجمہ "الحمرا کی کہانیاں" کے نام سے کیا تھا۔ واشنگٹن ارونگ کا رپ فان ونکل اپنی بیوی اور بچوں کی ذمہ داری سے تنگ آ کر ایک جنگل کی راہ لیتا ہے جہاں اسے بعض دلچسپ حالات کا سامنا ہوتا ہے اور پھر وہ سو جاتا ہے۔ جب ہو جاگتا ہے تو بیس سال گزر چکے ہوتے ہیں۔ اس کی داڑھی ایک فٹ لمبی ہو گئی ہے، اس کی بندوق مٹی ہو چکی ہے اور اس کا پیارا کتا Wolf جو اس کے ساتھ تھا، وہ مر چکا ہوتا ہے۔ واشنگٹن کو اسلامی روایات سے کچھ واقفیت تھی۔ اس نے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سوانح عمری بھی لکھی تھی۔ لہذا ممکن ہے کتے کا خیال اس نے قرآن سے لیا ہو، کیونکہ کسی اور روایت میں (حتیٰ کہ نصرانی روایت میں بھی) کتا مذکور نہیں ہے۔ اصحابِ کہف کہاں سوئے تھے یہ قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے، لیکن نصرانی روایتوں کے اعتبار سے یہ واقعہ شہر افیسس (Ephesus) کا ہے۔ اس شہر کے آثار جدید ترکی کے شہر سلجوق کے پاس موجود ہیں اور زائرین وہاں بکثرت جاتے ہیں۔ 

Grotto of the Seven Sleepers in Ephesus
Image Courtesy: Turkish Archaeological News
جس واقعے، یا روایت پر "قبضِ زماں" کی بنیاد ہے، اس میں دیگر تمام روایتوں سے بالکل مختلف بات ہے، کہ یہاں جو وقت گزرا ہے وہ نیند میں نہیں بلکہ جاگتے میں گزرا ہے۔ خدا نے اپنی قدرت سے ڈھائی تین سو برس کی مدت کو چند گھنٹوں محصور کردیا۔ اسے صوفیوں کی اصطلاح میں "قبضِ زمان" کہتے ہیں۔ اسی طرح، تھوڑی مدت بھی خدا چاہے تو طویل بن سکتی ہے۔ اگرچہ دیکھنے والوں کو احساس نہ ہوگا، لیکن جس پر یہ واقعہ گزرے گا وہ جان لے گا کتنی مدت دراصل گزری ہے۔ صوفیوں کی اصطلاح میں اسے "بسطِ زماں" کہتے ہیں۔ 
(شمس الرحمٰن فاروقی)