Kafka Kahaniyan کافکا کہانیاں by Franz Kafka

فرانز کافکا 3 جولائی 1883ء کو پراگ (چیکو سلوویکیا) میں پیدا ہوا۔ اس نے پراگ کے جرمن اسکولوں میں تعلیم پائی اور بعد میں اپنے طور پر چیک زبان و ادب کا بھی غائز مطالعہ کیا۔ وہ بھائی بہنوں میں سب سے بڑا تھا اور اس کے بعد والی بہن اس سے چھ برس چھوٹی تھی۔ عمر کے اسی فرق کی وجہ سے اس کا بچپن تنہائی کی کیفیت میں گذرا اور اسے کھیل کود میں کوئی خاص دلچسپی پیدا نہ ہو سکی۔ البتہ اپنے ماں باپ کی سالگرہ کے موقعوں پر وہ چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھتا تھا جو گھر میں کھیلے جاتے تھے، لیکن کافکا خود ان ڈراموں میں کام نہیں کرتا تھا۔ وہ خود کو بد صورت سمجھتا، اسی وجہ سے اس کو عمدہ نئے کپڑوں کی خواہش نہیں ہوتی تھی اور وہ پرانے خراب سلے ہوئے کپڑے پہن کر دبا سکڑا ہوا چلتا تھا۔   دستوئیفسکی کی تحریروں کے بر خلاف، جنہیں پڑھ کر انسان اپنے آپ کو بدلا ہوا محسوس کرتا ہے، کافکا کی تحریر پڑھ کر اسے دنیا بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ شروع شروع میں کافکا کی تحریر خوابِ پریشاں کا تاثر دیتی ہے لیکن آخر آخر یہ خواب حقیقت بن جاتا ہے، اور مطالعہ ختم کر لینے کے بعد جب قاری اپنی مانوس دنیا میں واپس آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک نئے خوابِ پریشاں میں داخل ہو گیا ہے، لیکن خوابِ پریشاں میں انتشار نہیں ہے بلکہ کسی مرموز نظام کے تحت اس میں سب کچھ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ ربط کا یہ احساس قاری کے دماغ میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ہر چیز میں ایک نہایت مبہم مگر نہایت اہم قسم کی معنویت نظر آنے لگتی ہے۔ یہ معنویت مذہبی سے لے کر جنسی تک ہو سکتی ہے۔ کافکا کی تحریروں کی کثیر تعداد تاویلوں کا یہی سبب ہے اور یہی کافکا کی انفرادیت ہے۔

کافکا کہانیاں

فرانز کافکا 3 جولائی 1883ء کو پراگ (چیکو سلوویکیا) میں پیدا ہوا۔ اس نے پراگ کے جرمن اسکولوں میں تعلیم پائی اور بعد میں اپنے طور پر چیک زبان و ادب کا بھی غائز مطالعہ کیا۔ وہ بھائی بہنوں میں سب سے بڑا تھا اور اس کے بعد والی بہن اس سے چھ برس چھوٹی تھی۔ عمر کے اسی فرق کی وجہ سے اس کا بچپن تنہائی کی کیفیت میں گذرا اور اسے کھیل کود میں کوئی خاص دلچسپی پیدا نہ ہو سکی۔ البتہ اپنے ماں باپ کی سالگرہ کے موقعوں پر وہ چھوٹے چھوٹے ڈرامے لکھتا تھا جو گھر میں کھیلے جاتے تھے، لیکن کافکا خود ان ڈراموں میں کام نہیں کرتا تھا۔ وہ خود کو بد صورت سمجھتا، اسی وجہ سے اس کو عمدہ نئے کپڑوں کی خواہش نہیں ہوتی تھی اور وہ پرانے خراب سلے ہوئے کپڑے پہن کر دبا سکڑا ہوا چلتا تھا۔ 
دستوئیفسکی کی تحریروں کے بر خلاف، جنہیں پڑھ کر انسان اپنے آپ کو بدلا ہوا محسوس کرتا ہے، کافکا کی تحریر پڑھ کر اسے دنیا بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ شروع شروع میں کافکا کی تحریر خوابِ پریشاں کا تاثر دیتی ہے لیکن آخر آخر یہ خواب حقیقت بن جاتا ہے، اور مطالعہ ختم کر لینے کے بعد جب قاری اپنی مانوس دنیا میں واپس آتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک نئے خوابِ پریشاں میں داخل ہو گیا ہے، لیکن خوابِ پریشاں میں انتشار نہیں ہے بلکہ کسی مرموز نظام کے تحت اس میں سب کچھ ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ ربط کا یہ احساس قاری کے دماغ میں ہلچل پیدا کر دیتا ہے اور اس کو ہر چیز میں ایک نہایت مبہم مگر نہایت اہم قسم کی معنویت نظر آنے لگتی ہے۔ یہ معنویت مذہبی سے لے کر جنسی تک ہو سکتی ہے۔ کافکا کی تحریروں کی کثیر تعداد تاویلوں کا یہی سبب ہے اور یہی کافکا کی انفرادیت ہے۔