اندھے لوگ ناول از حوزے ساراماگو مترجم احمد مشتاق

اندھے لوگ ناول از حوزے ساراماگو مترجم احمد مشتاق

"ہم اندھے کیوں ہو گئے، مجھے نہیں معلوم، شاید ایک دن ہمیں معلوم ہو جائے، اگر تم مناسب سمجھو تو میں اپنا خیال بتادوں، ہاں ضرور بتاؤ، میں نہیں سمجھتی کہ ہم اندھے ہو گئے تھے بلکہ ہم اندھے ہیں، اندھے ہیں مگر دیکھ سکتے ہیں، ایسے اندھے جو دیکھ سکتے ہیں مگر دیکھتے نہیں ہیں۔"

وہ لوگ اچانک اندھے ہو جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا شہر اس انوکھی بیماری کا شکار ہونے لگتا ہے۔ اس صورتِ حال سے ہمارا تعارف حوزے ساراماگو کے ناول "اندھے لوگ" کے صفحات پر ہوتا ہے۔ پرتگال کے ادیب حوزے ساراماگوبین الاقوامی شہرت کے حامل ہیں اور ان کو نوبیل انعام برائے ادب بھی دیا گیا۔ ان کا ناول "اندھے لوگ" اس دور کی بڑی اہم کتاب سمجھی جاتی ہے۔ 

حوزے ساراماگو 1922ء میں پرتگال کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ تنگی ترشی سے گزر بسر کرنے کے ساتھ ان کو اسکول کے فوراََ بعد طرح طرح کی ملازمتیں کرنا پڑیں جن میں دو سال تک گاڑیوں کی مرمت کے ورک شاپ میں کام کرنا بھی شامل ہے۔ 

ساراماگو کا پہلا ناول 1947ء میں شائع ہوا مگر اس کے بعد وہ ادبی طور پر خاموش ہو گئے۔ 1966ء میں ان کی نظموں کا ایک مجموعہ شائع ہوا، اس کے بعد ادبی و تنقیدی مضامین، اخباری کالم اور دوسری زبانوں کے معاصر ادب کے تراجم کا ایک سلسلہ چل پڑا جس نے ان کو بے حد فعال ادبی شخصیت بنا دیا۔ 1995ء میں ان کا ناول "اندھے لوگ" شائع ہوا۔ 1998ء میں اسے ادب کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ 18 جون 2010ء کو ساراماگو 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔