جانورستان ناول از جارج آرویل

جانورستان ناول از جارج آرویل
"جارج آرویل کا نام ایرک بلئیر تھا۔ یہ شخص غلیظ ترین تھا۔ جارج آرویل کی نفیس اور شستہ تحریریں پڑھ کر کبھی خیال بھی نہیں گزر سکتا کہ یہ شخص اس قدر غلیظ ہو سکتا ہے۔ ایٹن کا پڑھا ہوا، لیکن دبیز بے استری کی پتلون، اس جا بجا چکنائی اور میل کچیل کے دھبے، کالر میلا چیکٹ، نکٹائی باورچی خانے کی صافی کی ایک دھجی، کوٹ بوری جیسا جس جس میں کوئلے بھرے جاتے ہیں۔ بوٹ بد شکل اور بن پالش، ناخن میل سے سیاہ، دانت بد وضع اور تمباکو کے سڑے ہوئے پتے کی طرح ملگجے زرد۔ دبلا پتلا جسم، لمبا قد، چہرہ زرد اور مدقوق، مونچھیں ترشی ہوئیں مگر باریک جیسے ناک کے نیچے ہلکے سرمے کی لکیر۔ گفتگو کا انداز ایسا جیسے کوئی جلا بھنا لٹھ مار جاٹ ہو۔ میرے فلیٹ میں مجھ سے ملنے تو میں اس کی ہئیت دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کی۔ فرمایا "میں اپنی سگریٹ پیوں گا"۔ یہ کہہ کر جیب سے ایک سڑی ہوئی ٹین کی ڈبیا نکالی۔ اس میں تمباکو تھا۔ پھر سگریٹ کا کاغذ، تمباکو بتی بنا کر کاغذ میں رکھی۔ کاغذ کو چپکایا۔ پھر لائٹر نکالا۔ یہ لائٹر خاص جنگ کے زمانے کی ایجاد ہوگا کیونکہ اس میں پیٹرول استعمال نہیں ہوتا تھا۔ چق مق، ایک گراری اس کے ساتھ ایک لمبی سی بتی کوئی ڈیڑھ فٹ لمبی۔ اس نے گراری چلائی۔ چق مق سے آگ نکلی۔ بتی کی روئی نے آگ پکڑی۔ ایرک نے پھونک مار کر اس آگ کو دہکایا۔ جب بتی دہک گئی تو اس نے سگریٹ سلگایا۔ سگریٹ سلگا کر اس نے بتی کو نیچے کھینچا۔ بتی ایک خول میں چلی گئی اور بجھ گئی۔ 

جارج آرویل کی سادگی نے بلکہ اس کی غلاظت نے میرا دل موہ لیا۔ میں نے اتنے غلیظ جسم پر ایسا صاف ستھرا دماغ کبھی نہیں دیکھا۔ یہ شخص برما میں ملازمت کر چکا تھا۔ اس ملازمت کی یادگار "ایامِ برما" (برمیزڈیز) ہے۔ یہ ایک لاجواب کتاب ہے اور کئی لحاظ سے ای۔ایم فارسٹر کی "اے پیسج ٹو انڈیا" سے ٹکر لیتی ہے۔ 

یہ شخص انگلستان میں بھیک میں مانگتا رہا۔ فرانس کے ایک ہوٹل میں برتن دھونے پر بھی ملازم رہا ہے۔ اس نے بھیک مانگنے اور ہوٹل میں ملازمت کرنے پر بھی ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ کتابیں تو پہلے ہی مشہور تھیں لیکن بعد میں اس نے جو کتابیں لکھیں ہیں ان کا تو جواب نہیں ہے، اور انہیں کتابوں کے طفیل انگلستان کے صفِ اول کے مصنفین میں اس کا شمار ہونے لگا۔ 
ایک دل جارج آرویل میرے یہاں آیا تو گھبرایا ہوا تھا۔ میں سبب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی گرفتاری کے سامان ہو رہے ہیں۔ بات دراصل یہ تھی کہ ان دنوں روس اتحادیوں کے زمرے میں شامل نہیں ہوتا تھا۔ اور انگریز کو خواب میں بھی ریچھ دکھائی دیتا تھا۔ جو شخص زرا سا بھی سر اٹھائے اور جنگی حالات پر مخالفانہ تنقید کرے، اس کے متعلق بلا تامل یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ ہو نہ ہو یہ شخص کمیونسٹ ہے۔ روسیوں کا جاسوس ہے۔ ملک دشمن ہے۔ کچھ اس قسم کا شک جار آرویل پر بھی کیا گیا۔ لیکن جارج آرویل پر اس طرح کا شک کرنا سراسر حماقت تھی۔ جارج آرویل سولہ آنے انگریز تھا۔ اور جمہوریت کا کٹر حامی۔ ہاں یہ ہے کہ زرا منھ پھٹ تھا۔ اور پسماندہ ملکوں کا طرفدار، وہ اس بات پر بھی نالاں تھا بلکہ شرمندہ تھا کہ انگریز ہندوستان پر قابض ہیں۔"
(زیڈ۔اے بخاری مرحوم نے جارج آرویل کا ذکر اپنے لندن کے قیام کے سلسلے میں کیا ہے۔)