مہاراجہ پورس از بدھا پرکاش
سکندر اعظم مقدونیہ کے چھوٹے سے شہر (Pella) میں پیدا ہوا۔ مقدونیہ یونان کے دوسرے خطوں کے کہیں پیچھے تھا۔ اہلِ یونان مقدونیوں کو جاہل اور پسماندہ تصور کرتے تھے اور ان کی ایتھنز اور آسیہ (Asia) وغیرہ کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان کا کام بھیڑ بکریاں پالنا اور کھیتوں میں کام کرنا تھا۔ سکند اعظم خوش قسمت تھا کہ وہ ارسطو جیسے استاد کا شاگرد بنا۔ ارسطو کے علمی خزانے تک رسائی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ مقدونوی سکندر کی فتوحات نے یونان سمیت اس وقت کی ساری دنیا میں اسکی دھاک بٹھا دی۔ سکندر اعظم فقط سپہ سالار یا ایک بے رحم جنگجو فاتح نہیں تھا بلکہ اس کے دل میں یونان سے پار تک ان تہذیبوں کو جاننے کی خواہش موجزن تھی۔
سکندر اعظم نے اپنی فتوحات کی منزل (Destiny) مشرقِ ہند کے اس آخری مقام کو مقرر کیا جس کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ سورج یہاں سے ابھرتا ہے۔ مگر سکندر اس حسرت کو اپنے دل میں لیے اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ سکندر ایشائے کوچک (اناطولیہ) سے ہوتا ہوا مصر میں داخل ہوا اور مصر کے بعد پھر ایشیائے کوچک سے ہوتے ہوئے اس نے بابل (موجودہ عراق) کی تہذیب کو زیر کیا۔ اِس کے بعد ایران میں تخت جمشید (Persepolis) کو فتح کیا اور پھر اوپر کی طرف کاکیشیا کو فتح کرتا ہوا، ہندوکش کو عبور کر کے برِ صغیر میں داخل ہوا۔
اس وقت سکندر کے سامنے دو بڑی دیواریں تھیں، ایک کاکیشین پہاڑ اور دوسرے ہندوکش کا سلسلہ۔ یہ دونوں نام بھی یونانیوں نے ہی رکھے تھے۔ ہندوستانی پہاڑوں کو بھی اس نے "کاکیشین جیسے پہاڑ" قرار دیا اسی لیے ان کا نام ہندوکش پڑا۔ دنیا کی ان دو دیواروں کو عبور کرتے ہوئے سکندر مقدونی، ہند کی اس دھرتی میں داخل ہوا جیسے "دیر" کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ وہ ٹیکسلا کو فتح کرتے ہوئے کوہِ نمک میں اپنی فوج کے ساتھ وارد ہوا اور فوج کو نئے سرے سے منظم کیا۔ سکندر یونانی نے پاکستان کے شمالی خطے کی ھئیت کو دیکھتے ہوئے اس خطے کو یونان کے PINDUS کے علاقے سے تعبیر کیا۔ بعد میں یہی نام بگڑ کر INDUS بنا اور شمالی ہند کے اس خطے کو انڈس یا سندھ بھی کہا جانے لگا۔
کوہِ نمک سے نیچے پنجاب کی دھرتی میں دریائے جہلم (Hydaspes) کے کنارے مہاراجہ پورس، ایرانی، مقدونی، اناطولی، مصری، بابلی اور دیگر قوموں پر مشتمل یونانی جرنیلوں کی قیادت میں حملہ آور ہونے والی فوج کے خلاف، شدید مزاحمت کا منتظر تھا۔ زیرِ نظر کتاب سکندر اعظم اور راجہ پورس کے مقابلے کی ایک تاریخی دستاویز ہے۔ سکندر اعظم جب کوہِ نمک سے اتر کر دریائے جہلم کے کنارے راجا پورس کے ساتھ برسرِ پیکار ہوا، اس وقت تک سکندر اعظم طویل جنگی فتوحات کا تجربہ حاصل کر چکا تھا۔ اسے اپنی جنگی مہارت اور عسکری بالادستی پر بھرپور اعتماد تھا۔ مگر سکند اعظم کے لیے مہاراجا پورس کی مزاحمت سکندر کی تمام جنگی محاذ آرائیوں سے اس لیے بھی مختلف تھی کہ اب سکندر اعظم اور اس کی فوج کو پہلی مرتبہ ہاتھیوں کا مقابلہ کرنا تھا۔ مؤرخین کی ہاتھیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف آراء ہیں مگر زیادہ تر مؤرخین اس رائے سے متفق ہیں کہ جس میں پورس کے ہاتھیوں کی تعداد 200 فوجی دستوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔ ہاتھی فوجی دستے کی اہمیت مسلم ہے۔ آج امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے وار سٹریجک کالجوں میں پورس اور سکندر اعظم کی Hydaspes کے کنارے 327 ق م کی اس جنگی حکمت عملی کو پڑھایا جا رہا ہے۔
پنجاب کے قدیم باسیوں کی سکندر اعظم (فاتح عالم) کے خلاف مزاحمت کی ایک انمٹ مثال ہے۔ سکندر اعظم نے اپنے وقت کی تین بڑی تہذیبوں (ایرانی، بابلی، اور مصری) کو زیر کیا مگر دریائے جہلم کے کنارے جنگ اس کی جنگی مہمات میں بڑی منفرد ہے۔ درحقیقت دریائے جہلم کے کنارے لڑی گئی اس جنگ نے سکندر اعظم کی اگلی فتوحات کا خواب چکنا چور کر دیا۔ اگرچہ پورس کے مقابلے کے بعد بھی اس نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی مگر وہ اپنا مشن پورا نہ کر پایا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کہ اس جنگ نے ساری یونانی فوج کا مورال تباہ کر دیا۔ پورس کی شکست ایک سادہ شکست نہیں تھی جنگی حکمت عملی میں یہ مقابلہ ایک شاندار مقابلہ ہے۔
Tags:
بدھا پرکاش،