کلیات احمد مشتاق

کلیات احمد مشتاق
یہ پانی خامشی سے بہہ رہا ہے
اِسے دیکھیں کہ اِس میں ڈوب جائیں
-
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اُس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

                                    مشتاق بہت کفایت شعار آدمی ہے۔ رنج اور مسرت دونوں کو بہت بچا بچا کر رکھتا ہے۔ جذبے کو سنبھال کر رکھنا اس جذباتی فضول خرچی کے دَور میں کوئی مشتاق سے سیکھے۔ ہمارے زمانے میں شاعری کے ساتھ یہی سانحہ گزرا ہے کہ شاعر جلدی بہہ نکتا ہے۔ نتیجہ جذباتیت۔ اس صدی کی تیسری دہائی کی ترقی پسند شاعری اور افسانہ اس کی عبرت بھری مثالیں ہیں۔ اس کم ظرف زمانے میں مشتاق کی طاقت یہ ہے کہ اسے اپنے آپ کو تھام کر رکھنا آتا ہے۔ جذبےکو سنبھالنا، تخلیقی طور پر اس کی پرورش کرنا، تہذیب کرنا اسے خوب آتا ہے۔ سو اس کے یہاں زور جذبے کے اعلان پر نہیں بلکہ جذبے کے ضبط پر ہے۔ جذباتیت کے اس دور میں مشتاق کی غزل جذبے کی شاعری کی مثال پیش کرتی ہے۔ خالص جذبے کی شاعری۔ کہہ لیجیے خالص شاعری ہے۔(انتظار حسین)