اختر عثمان کی شاعری (حصہ اول)

1- میں ہوں پایاب کہ آہستہ رَوی خُو ہے مری موجِ یک طَور میں بہنا نہیں آتا مجھ کو  2- یہی کہ ہم سے نہیں نبھ سکی محبت میں زوالِ عمر ہے اب اور جھوٹ کیا بولیں  3- نام و نمود کی ہوس خوب سہی پہ تا بہ کے خود میں کوئی صدا لگا، کوچہء اکتفا میں رہ  4- ہوا نہ ضبط بھی اور وہ بھی ہو گیا ناراض غزل بھی ہو نہ سکی اور غزال سے بھی گئے  5- تراش محو ہوئی، خد و خال سے بھی گئے کچھ آئنے کہ تری دیکھ بھال سے بھی گئے  6- رنجِ بطرزِ شبنمیں راس نہیں، نہ تھا مجھے گریہء گاہ گاہ کیا، کھل کے کبھی رُلا مجھے  7- چھوڑ بھی اے بنی ٹھنی، تا بہ کجا یہ جانکنی میں ہوں نِرا شکستنی، توڑ کے مت بنا مجھے  8- بحر بہ بحر، یم بہ یم، تا بہ فنا دہن کشا تاک میں تھا نہنگ لا اور نگل گیا مجھے  9- نجانے کون سَمے ہے وصال کا اے دوست! ہم ان دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں 10- کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں ہمیں شعور کہاں تھا حیات یوں ہے کہ یوں  خرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں  11- ہم بادلوں کی اوٹ میں، یخ بستہ، تہ بہ تہ جیسے رگوں میں برف ہو پیوستہ، تہ بہ تہ  12- جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں شروعِ عمر سے شہزادگی تو ہے مجھ میں  گیا ہوں اور چلوں گا میں اپنے مقتل تک اِسی کو کہتے ہیں آمادگی، تو ہے مجھ میں  13- وہ خد و خال زمانے نے محو کر ڈالے نہ ان کی یاد میں یوں تِلملا، دِلا! چُپ رہ  14- زمیں کے دل میں مہ و نجم ٹانکتا ہوا میں کسی جمال کو فردا میں آنکتا ہوا میں  15- دریا کا تلاطم تو بہت دن کی کتھا ہے لیکن مرے اندر کا بھنور کیوں نہیں جاتا  کہتے ہو کہ ہو اُسوہء شبیرؑ پہ قائم دربار میں کیوں جاتے ہو، سَر کیوں نہیں جاتا  جب روح سے کہتے ہو لیبک حسینا! پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا  16- بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست! ہمیں عجب نہیں کہ تیرے کھیلنے میں کھو جائیں  17- رُومؔ تا بہ طالبؔ ہیں، میرؔ تا بہ غالبؔ ہیں دیکھ لو کہ پھر یکجا سب نہیں ملیں گے ہم  کون پھر دکھائے گا زرنگاریاں ایسی سیکھ لیجیے ہم سے ڈھب، نہیں ملیں گے ہم  18- راہ دشوار سہی، کوچہء دلدار سہی ضبطِ اظہار کی مشکل کو دباتے چلیے  کوئی پوچھے کہ ہوا کیا تو جواباََ اخترؔ آہ بھرتے ہوئے بس دل کو دباتے چلیے  19- سُست رَو ہوں کہ تری نیم نگاہی کے سبب مجھ میں بالکل بھی تموج نہیں، ٹھہرا پن ہے  20- بہانہ ساز سہی دل ہے، کیا کیا جائے عجیب وضع کی مشکل ہے کیا کیا جائے

1-
میں ہوں پایاب کہ آہستہ رَوی خُو ہے مری
موجِ یک طَور میں بہنا نہیں آتا مجھ کو

2-
یہی کہ ہم سے نہیں نبھ سکی محبت میں
زوالِ عمر ہے اب اور جھوٹ کیا بولیں

3-
نام و نمود کی ہوس خوب سہی پہ تا بہ کے
خود میں کوئی صدا لگا، کوچہء اکتفا میں رہ

4-
ہوا نہ ضبط بھی اور وہ بھی ہو گیا ناراض
غزل بھی ہو نہ سکی اور غزال سے بھی گئے

5-
تراش محو ہوئی، خد و خال سے بھی گئے
کچھ آئنے کہ تری دیکھ بھال سے بھی گئے

6-
رنجِ بطرزِ شبنمیں راس نہیں، نہ تھا مجھے
گریہء گاہ گاہ کیا، کھل کے کبھی رُلا مجھے

7-
چھوڑ بھی اے بنی ٹھنی، تا بہ کجا یہ جانکنی
میں ہوں نِرا شکستنی، توڑ کے مت بنا مجھے
8-
بحر بہ بحر، یم بہ یم، تا بہ فنا دہن کشا
تاک میں تھا نہنگ لا اور نگل گیا مجھے

9-
نجانے کون سَمے ہے وصال کا اے دوست!
ہم ان دنوں تجھے دیکھے بغیر دیکھتے ہیں

10-
کنایہ کار کوئی چشمِ نیلگوں ہے کہ یوں
ہمیں شعور کہاں تھا حیات یوں ہے کہ یوں

خرد شعار زمانے کا طرز اپنی جگہ
ہمیں کچھ اور غرض ہے، ہمیں جنوں ہے کہ یوں
11-
ہم بادلوں کی اوٹ میں، یخ بستہ، تہ بہ تہ
جیسے رگوں میں برف ہو پیوستہ، تہ بہ تہ

12-
جنوں شعار ہوں اُفتادگی تو ہے مجھ میں
شروعِ عمر سے شہزادگی تو ہے مجھ میں

گیا ہوں اور چلوں گا میں اپنے مقتل تک
اِسی کو کہتے ہیں آمادگی، تو ہے مجھ میں

13-
وہ خد و خال زمانے نے محو کر ڈالے
نہ ان کی یاد میں یوں تِلملا، دِلا! چُپ رہ

14-
زمیں کے دل میں مہ و نجم ٹانکتا ہوا میں
کسی جمال کو فردا میں آنکتا ہوا میں

15-
دریا کا تلاطم تو بہت دن کی کتھا ہے
لیکن مرے اندر کا بھنور کیوں نہیں جاتا

کہتے ہو کہ ہو اُسوہء شبیرؑ پہ قائم
دربار میں کیوں جاتے ہو، سَر کیوں نہیں جاتا

جب روح سے کہتے ہو لیبک حسینا!
پھر جی سے یزیدوں کا یہ ڈر کیوں نہیں جاتا

16-
بہت سنبھال کے رکھ اے نگارِ زیست! ہمیں
عجب نہیں کہ تیرے کھیلنے میں کھو جائیں

17-
رُومؔ تا بہ طالبؔ ہیں، میرؔ تا بہ غالبؔ ہیں
دیکھ لو کہ پھر یکجا سب نہیں ملیں گے ہم

کون پھر دکھائے گا زرنگاریاں ایسی
سیکھ لیجیے ہم سے ڈھب، نہیں ملیں گے ہم

18-
راہ دشوار سہی، کوچہء دلدار سہی
ضبطِ اظہار کی مشکل کو دباتے چلیے

کوئی پوچھے کہ ہوا کیا تو جواباََ اخترؔ
آہ بھرتے ہوئے بس دل کو دباتے چلیے

19-
سُست رَو ہوں کہ تری نیم نگاہی کے سبب
مجھ میں بالکل بھی تموج نہیں، ٹھہرا پن ہے

20-
بہانہ ساز سہی دل ہے، کیا کیا جائے
عجیب وضع کی مشکل ہے کیا کیا جائے