خلیل خان فاختہ میر باقر علی داستان گو

خلیل خان فاختہ میر باقر علی داستان گو

میر باقر علی داستان گو 1850ء میں دلی میں پیدا ہوئے اور 1928ء میں انتقال ہوا۔ میر صاحب کے بزرگ ایران سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔ ان کے والد میر حسین علی اور نانا امیر علی شاہی ملازم تھے۔ والد کا سایہ بچپن ہی میں سر سے اٹھ گیا اس لیے انہوں نے اپنے نانا کے ہاں پرورش پائی  جو ترکمان دروازے پر رہا کرتے تھے۔ میر باقر علی داستان گوئی کا فن اپنے ماموں میر کاظم علی سے سیکھا جو اس وقت نظام حیدر آباد کے ہاں داستان گو تھے۔ ماموں بھانجے کا رشتہ، استاد لاولد شاگرد ہونہار اور بقائے فن کا شوق انہوں نے خوب سکھایا اور انہوں نے خوب سیکھا۔ داستان کیا کہتے تھے چلتی پھرتی تصویر پیش کرتے تھے۔ بلکہ یوں کہیے کہ خود تصویر بن جاتے تھے۔ میدان جنگ کا نقشہ کھینچتے تو معلوم ہوتا کہ رستم و اسفند یار کی کشتی دیکھ کر ابھی آئے ہیں، بزم عیش کا سماں باندھتے تو فضا میں مستانہ رنگ نظر آنے لگتا اس پر حافظہ اس بلا کا کہ دفتر کے دفتر نوکِ زباں تھے۔ کھانوں کا ذکر آیا تو الوانِ نعمت کی فہرست کھول دی لباس کا ذکر آیا تو کیا مجال کہ کوئی لباس بیان سے رہ جائے۔ دھان پان سے آدمی تھے لیکن داستان کہتے وقت اگر کسی بادشاہ کا ذکر آ جاتا تو سننے والوں کو یہ گمان ہوتا کہ وہ ایک قہار بادشاہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ کبھی کسی معمر عورت کی بولی بولتے تو شریف بڑھیوں کی گفتگو کا انداز اختیار کر لیتے اور دانت ہوتے ساتے بے دانتوں کے بن جاتے تھے۔ 

میر باقر علی بڑے سادہ لوح اور سادہ مزاج آدمی تھے، رنگت گوری، درمیانہ قد، چھریرا بدن، کتابی چہرہ، خشخشی داڑھی یہ ان کا حلیہ تھا۔ پتلی موری کا پاجامہ، ململ کا کرتا، انگرکھا، کلابتون کی گول ٹوپی اور لال نری  کی جوتی پہنا کرتے تھے۔ 

مرزا باقر علی داستان گو پان، چائے اور حقے کے بڑے شوقین تھے۔ انہوں نے چھالیہ کاٹنے میں غیر معمولی مہارت حاصل کی اور آخری عمر میں جب داستان گوئی داستانِ پارینہ ہو چکی تو اسی فن کو گز اوقات کا ذریعہ بھی بنایا۔ انہیں مشرقی تمدن اور خصوصاََ دہلوی تہذیب سے عشق تھا۔ مغربی اثر کے تحت جب لوگوں نے پان کھانا بھلا دیا اور اس کی بے توقیری کرنے لگے تو میر صاحب نے گھر گھر جا کر چھالیہ بیچنے کے بہانے آدابِ پان نوشی سکھانے شروع کیے۔ اللہ بخشے کہا کرتے تھے کہ ہمارے بڑوں نے جانوروں کی طرح پیٹ بھرنے کے لیے پان نہیں کھائے اور نہ کبھی اسے تعیش کی چیز سمجھا۔ پان کے سینکڑوں فوائد ہیں مگر ضروری ہے کہ انسان اس کے لوازم سے بھی واقف ہو۔ جو لوگ جانوروں کی طرح بکر بکر پان چباتے ہیں ان بے تمیزوں نے ہی ہماری معاشرت میں کیڑے ڈلوائے ہیں۔