کیف بھوپالی کے اشعار اور غزلیں
کیف بھوپالی کا نام خواجہ محمد اویس اور والد کا نام خواجہ محمد ابراہیم تھا۔ 20 فروری 1917ء کو بھوپال میں پیدا ہوئے، آپ کی والدہ صالحہ خانم شاعرہ تھیں اور عاجزؔ تخلص تھا۔ سراح میر خاں سحرؔ سے اصلاح لیتی تھیں، حمد و نعت سے شغف تھا فرماتی ہیں:
پلا ساقی مئے وحدت کہ دل سرشار ہو جائے
مگر سرشار ایسا ہو نہ پھر ہشیار ہو جائے
کیف بھوپالی کا آبائی وطن لکھنؤ ہے، نسلاََ کشمیری تھے، ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور فارسی، عربی پر خاص عبور حاصل کیا بعد میں ہندی بھی سیکھ لی، عربی سے خصوصی لگاؤ رہا اور اپنے اسی ذوق و شوق سے اتنی استعداد پیدا کر لی جو قرآن حکیم سے منظوم ترجمے میں کام آئی۔
کیف صاحب ہمیشہ کے سحر خیز تھے چار پانچ بجے اذان سے پہلے اٹھ جاتے، ہر موسم میں ان کا یہی معمول تھا۔ اکثر سنسکرت کا یہ مقولہ دہراتے تھے:
"جو اگتے اور ڈوبتے سورج کے وقت سوتا رہتا ہے، جس کے ہاتھ یا پاؤں کے ناخن بڑے ہوں، جس کی آنکھوں میں کیچڑ بھرا ہو، جس کے پاؤں کی ایڑیاں پھٹی رہیں اور جس کے دانت پیلے ہوں ۔۔ اس کی بدبختی میں کوئی شک و شبہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔"
کیف بھوپالی کی غزل میں داخلیت اور خارجیت کا حیسن سنگم ہے حسن و عشق کی مختلف کیفیات کے ساتھ رنگ و بو، کیف و نشاط اور شوخی و شرارت بھی شامل ہے۔ اسلوب اورلہجے کے سلسلے میں کیف صاحب قدامت سے وابستہ رہے اور اس کے باوجود اسلوب اور لہجے کی انفرادیت ضرور ابھرتی ہے۔ بقول شمیم احمد:
"کیف کی غزل کا اظہارِ بیان پُر لطف و دلچسپ اور رنگین ہے اور ان کے لہجے میں ایک طرح کی خوبصورت کھنک ابھرتی ہے۔"
1-
ان سے مل کر اور بھی کچھ بڑھ گئیں
اُلجھنیں، فکریں، قیاس آرائیاں
کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں، خاموشیاں، گہرائیاں
2-
کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اُسے توڑ گرایا ہوگا
3-
اس نے یہ کہہ کر پھیر دیا خط
خون سے کیوں تحریر نہیں ہے
4-
ہم ترستے ہی ترستے ہی ترستے ہی رہے
وہ فلانے سے فلانے سے فلانے سے ملے
5-
آگ کا کیا ہے پل دو پل میں لگتی ہے
بجھتے بجھتے ایک زمانہ لگتا ہے
6-
تم سے مل کر املی میٹھی لگتی ہے
تم سے بچھڑ کر شہد بھی کھارا لگتا ہے
7-
پاؤں میں زنجیر، کانٹے، آبلے
اور پھر حکمِ سفر ہے کیا کروں
کیفؔ کا دل کیفؔ کا دل ہے مگر
وہ نظر پھر وہ نظر ہے کیا کروں
8-
سمجھاتے ہیں ناصح مجھے کیوں عشق کے نکتے
پوچھو کہ میاں تم نے کبھی عشق کیا بھی
9-
آگ لگی ہے تن من میں
کیفؔ کی غزلیں گاؤ رے
10-
جھوم کے جب رندوں نے پلا دی
شیخ نے چپکے چپکے دعا دی
11-
کیفؔ اس زمانے میں عافیت ہے جنگل میں
اپنی آبرو لے کر شہر سے نکل بابا
12-
صورتِ محفل ہوئیں تنہائیاں
آہٹیں، روپوشیاں، پرچھائیاں
چن لیا ایک ایک کانٹا راہ کا
ہیں مبارک یہ برہنہ پائیاں
چارہ گر مرہم بھرے گا تو کہاں
روح تک ہیں زخم کی گہرائیاں
12-
ادھر آ رقیب میرے میں تجھے گلے لگالوں
مرا عشق بے مزہ تھا تری دشمنی سے پہلے
13-
برگد کی چھاؤں میں بھی تو سوتے ہیں لوگ باگ
ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں تری زلفوں کے سائے کیوں
14-
وہ جانِ انتظار نہ جانے کب آئے گا
حسرت سے دیکھتا ہوں گزرتی سواریاں
ممکن نہیں کہ اب میں شفایاب ہو سکوں
کرنے لگے ہیں وہ مری تیمار داریاں
15-
اے کیفؔ انقلاب ہے شاید اسی کا نام
رندوں میں رندیاں ہیں نہ یاروں میں یاریاں
16-
اے کیفؔ! یوں فراق کی راتیں گزار دیں
میں دل کو دل مجھے سمجھا کے سو گیا
17-
مرا ساقی مرا ساغر سلامت
علاجِ گردشِ دوراں بہت ہے
18-
جب ہمیں مسجد جانا پڑا ہے
راہ میں اک مے خانہ پڑا ہے
19-
ہم نہ پئیں گے بھیک کی ساقی
لے یہ ترا پیمانہ پڑا ہے
20-
اک نگاہِ ناز نے کیا کر دیا
زندگی زیر و زبر ہے دوستو
21-
ارے سننے والو! یہ نغمے نہیں ہیں
مرے دل کی چیخیں ہیں شہنائیوں میں
22-
ابرِ بہاری واپس ہو جا
آج کوئی تدبیر نہیں ہے
23-
کیف اثر ہے تیری غزل میں
پھر بھی وہ دردِ میرؔ نہیں ہے
24-
تیرے دوانے چپ سے کھڑے ہیں
جانے کیا اقدام کریں گے
25-
کیفؔ نہ گزرو ان کی گلی سے
لوگ بہت بدنام کریں گے
26-
اب تو ان کی بھی بڑی فکر ہے دیوانوں کی
دھجیاں ڈھونڈتے پھرتے ہیں گریبانوں کی
27-
ہائے نہ پوچھو دل کا اجڑنا
تاج محل ویران ہوا ہے
28-
دستِ عدو بھی چوم لیا ہے
کیفؔ بھی کیا انسان ہوا ہے
29-
زمانے میں یہ راتیں کاٹنے کو
چراغِ محفلِ خوباں بہت ہے
30-
مری غزل سے زمانے میں انقلاب ہوا
مری غزل نہ ہوئی آپ کا شباب ہوا
Tags:
کیف بھوپالی