باقی صدیقی کا تعارف اور اشعار
راولپنڈی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی زمین ہموار نہیں اور یہاں ادب کی آبیاری نہیں ہو سکتی۔ لیکن باقیؔ صدیقی نے ہم عصر شعرا کی طرح یہ ثابت کیا ہے کہ زمین ہمواری پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سچائی سیدھی سادھی نہیں بلکہ مُڑی ہوئی ہے۔
ہماری اردو غزل میں بناوٹ اور تصنع ایک لازمی عنصر کا درجہ رکھتے ہیں۔ مگر باقیؔ نے اُردو غزل کو حقیقت کی تلخی اور سچائی بخشی ہے۔ باقی نے غزل کو سادگی اور گفتگو کا نیا مزاج بخشا ہے۔ اُسے بے ساختہ بات کہنے کا شعور تھا اور وہ بڑے سلیقے سے پچیدہ مسائل کو سادہ الفاظ میں بیان کرنے کا وصف رکھتا تھا۔ نقادوں نے باقیؔ کو مجرمانہ طور پر نظر انداز کیے رکھا۔ لیکن باقیؔ کا سفر ایک پہاڑی ندی کے بہاؤ کی طرح تھا۔ وہ فرازِ کوہ سے اُتر کر ایک دریا کا رُوپ دھار لیتی ہے بلکہ سمندر بن کر زندگی کو سیراب کرتی رہتی ہے۔
باقی سادہ اور معصوم تو تھا مگر اس کی دوسری خصوصیت اُس کی زخمی اَنا تھی۔ یہ اَنا اس کی ذات کے گرد ہالہ کئے ہوئے تھی۔ لہذا باقیؔ اپنی انا کے دائرے سے باہر بہت کم آیا بلکہ اپنی اَنا کے تحفظ کے لیے وہ تمام عمر زندگی، وقت، اور معاشرے کے ساتھ جنگ کرتا رہا۔ باقی غالبؔ کی طرح تلخیِ اَیام، دوستوں کی بے اعتنائی اور زمانے کی ناقدر شناسی کا شکار رہا۔ وہ بے حد حساس اور محبت بھرا دل رکھتا تھا۔ اس لیے وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے خلوص کے موتیوں کا طلب گار تھا۔ اس کے بر عکس اسے دُکھ، بے مروتی ملی لہذا وہ خون کے آنسو روتا رہا۔
باقیؔ نے ذہنی تصویروں کے ذریعے نہیں سوچا بلکہ اس کی شاعری حواسِ خمسہ کے ذریعے ظاہر ہوئی ہے لہذا اُس کی شاعری میں ایک دنیا جیتی جاگتی ہے اور اس کی تمام تر شاعری قبولیت کے لیے ہے بلکہ وہ عقلیت کا شکار نہ ہو کر مادی کائنات کے حقائق کو قبول کرنے میں تامل نہیں کرتا اور بچوں کی سادگی اور چیزوں کی براہِ راست دیکھنے پر ضد کرتا ہے۔ ذیل میں باقی کے کچھ اشعار ان کے شعری مجموعے "کتی دیر چراغ جلا" سے منتخب کیے گئے ہیں:
1-
ہوش آیا تو تاریکی میں تھے باقیؔ
کتنی دیر چراغ جلا معلوم نہیں
2-
یاد آیا چمن کا گوشہ گوشہ
جب بات چلی شکستہ پَر کی
3-
کون سے شہر میں جا کر رہیے
دل تو ہر چیز پُرانی مانگے
4-
کہیں تم دیکھ ہی لو گے خود کو
راہ میں آئینہ خانے ہیں بہت
5-
تیرا اندازِ نظر کہتا ہے
ہمیں دھوکے ابھی کھانے ہیں بہت
6-
ایک پل میں وہاں سے ہم اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
7-
راس آتی نہیں تنہائی بھی
اور ہر شخص سے بیزار بھی ہیں
8-
زندگی ہے، شورشیں ہی شورشیں
خود کو اکثر ڈھونڈ کر لانا پڑا
راستے میں اس قدر تھے حادثات
ہر قدم پر دل کو سمجھانا پڑا
9-
دوستوں کی بے رُخی باقی نہ پوچھ
دشمنوں میں دل کو بہلانا پڑا
10-
کون اندر سے اٹھ گیا باقیؔ
شور دل کا سنائی دینے لگا
11-
زیست کی مجبوریاں باقیؔ نہ پوچھ
ہر نفس کو داستاں کرنا پڑے
12-
اندر سے ٹوٹتے رہے ہیں
باہر سے زندگی بسر کی
دل کے قصے میں کیا رکھا ہے
باتیں ہیں کچھ اِدھر اُدھر کی
13-
دل کا قصہ طویل ہوتا ہے
اُس کے اوصاف چیدہ چیدہ کہیں
14-
غیر سے دوستی مبارک ہو
اور اب کیا وفا گزیدہ کہیں
اب وہ رنگِ جہاں نہیں باقیؔ
کس سے حالِ دلِ تپیدہ کہیں
15-
ارد گرد دیواریں اور درمیاں چہرے
بغضِ دوستاں چہرے لطفِ دشمناں چہرے
16-
قدموں پہ بار ہوتے ہیں سنسان راستے
لمبا سفر ہے ہمفسراں بولتے رہو
ہے زندگی بھی ٹوٹا ہوا آئنہ تو کیا
تم بھی بطرزِ شیشہ گراں بولتے رہو
باقیؔ جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسمِ جہاں، بولتے رہو
17-
یہ نیا شہر، یہ روشن راہیں
اپنا آغازِ سفر، یاد آیا
18-
اس طرح شام کے سائے پھیلے
رات کا پچھلا پہر یاد آیا
19-
حال جب پوچھا کسی نے باقؔی
اِک غزل اپنی سُنا دی ہم نے
20-
دل کے ملبے میں دبا جاتا ہوں
زلزلے کیا مرے اندر آئے
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے مقابل آئے
جن کے سائے میں صبا چلتی تھی
پھر نہ وہ لوگ پلٹ کر آئے
21-
رفتارِ جہاں نہ پوچھ باقیؔ
ہر موڑ پر حادثے کا ڈر ہے
22-
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے
23-
زندگی اب اسی ہجوم سے ہے
سانس کو دل ترس گیا تو کیا
کوئے آوارگاں میں ہم پر بھی
کوئی آوازہ کس گیا تو کیا
24-
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گلِ تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اُڑا کر باقیؔ
ایک سُوکھا ہوا پتہ ہم کو
25-
دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
26-
چھوڑو شعر اُٹھو باقی
وقت ہوا ہے دفتر کا
27-
دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں
28-
در و دیوار سے مل کر روئے
کیا ہمیں وقتِ سفر یاد آیا
30-
زندگی گزرے گی کیونکر باقیؔ
عمر بھر کوئی اگر یاد آیا
Tags:
باقی صدیقی