یادگار نسیم از دیا شنکر نسیم
نسیمؔ کی قوی شخصیت اور زبردست انفرادیت کا پہلا اور آخری ثبوت اُن کا بے نیاز طرزِ زندگی ہے۔ ان کی آزادہ رَوی اور شانِ استغنا کا عالم تھا کہ انکے بعض اہلِ قوم نے جو اس زمانہ میں عہدہ ہائے جلیلہ پر فائز اور دربارِ شاہی تک رسائی بھی رکھتے تھے یہ خواہش کی کہ اُن کو دربارِ شاہی تک پہنچائیں اور اُن کے منصب و جاگیر کی فکریں کریں مگر انہوں نے ان باتوں کی طرف مطقاََ رُخ نہیں کیا۔ ان کی شاعری ان کی ذاتی تفریح و دلچسپی کا نتیجہ تھی۔ اس زمانہ کے عام دستور کے موافق وہ نہ شاعر پیشہ تھے اور نہ اس چیز کو انہوں نے حصولِ منفعت کا ذریعہ بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ امجد علی شاہ کے سامنے ایک مرتبہ نسیمؔ کی وہ غزل گائی گئی جس کا مطلع ہے؎
جب نہ جیتے جی مرے کام آئے گی
کیا یہ دنیا عاقبت بخشائے گی
جب اس غزل کا مطلع گایا گیا کہ؎
جاں نکل جائے گی تن سے اے نسیمؔ
گل کو بوئے گل ہوا بتلائے گی
تو بادشاہ نے کہا کہ کیا یہ غزل اُسی نسیم کی ہے جو گلزارِ نسیم کا مصنف ہے اثبات میں جواب پا کر بادشاہ نے نسیمؔ کو دربار میں لانے کا حکم دیا۔ حریفوں نے کہا کہ حضور نسیمؔ کا تو انتقال ہو گیا۔ اتفاق یہ ہوا کہ اُس کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد نسیم کا واقعی انتقال ہو گیا۔ (مقدمہ گلزارِ نسیم از چکبست صفحہ نمبر 30)
Tags:
دیا شنکر نسیم